ارشاد احمد
یہ ماجرا کیا ہے؟ یہ میں کہاں آ گیا؟ کیا میں اسی زمین پر ہوں؟کسی کے لبوں سے نکلے الفاظ کے گہرے سمندر میں ڈوب کر اگر ایک طرف وقت گزرنے کا احساس دم توڑ چکا تھا تو دوسری طرف الفت کی وادیوں میں محو پرواز تھا، جبکہ قربت اپنی تمام تر رعنائیاں نچھاور کر رہی تھی۔ زمیں کی گرفت سے آزاد فضاؤں میں محو پرواز، کبھی خوف کے سائے اور کبھی حیرت کا سماں بندھ رہا تھا کہ میری سوچوں کا تسلسل اس آواز پہ ٹوٹا ’’ کہاں کھو گئے ہو؟’’ ،’’ تم اک حسن کے شاہکار کے محبوب ہو، خوشیاں اب تیرے قدموں میں آنے والی ہیں ،کلیوں کی تبسم اب تجھے محسوس ہونے والی ہیں،جھرنے تیرے دل کو اب سکون کا سامان مہیا کرانے والی ہیں ۔
تم کون ہو؟میں نے پوچھا، تو مسکرا کر بولی ’’ یہ مت پوچھو بس اتنا جان لو کہ تجھے محبت کی وادیوں تک لیجا رہی ہوں ایک ایسے علیحدہ گلستان میں لے جانا چاہتی ہوں جہاں پیار کے پنچھی اپنی اپنی میٹھی دھن میں نغمے گاتے ہیں، جہاں الفت کی گھنی چھاؤں میں وصل اپنی شامیں بھول جاتی ہے، جہاں خوشیوں کی تتلیاں مروت کی پھولوں پر چہکتی ہیں، جہاں نفرت کے کانٹوں کی کوئی جگہ نہیں ان وادیوں کی ملکہ پاکیزگی کے جڑے موتیوں کا تاج سجائے جب لذت لاثانی کے تخت پر براجمان ہوتی ہے تو کبھی آفتاب اور کبھی مہتاب اپنی تمام رعنائیوں کو اسکے قدموں پر نچھاور کرتے ہیں۔
میں مدتوں سے تیرے انتظار میں ہوں آج میں محبت کے گلستاں کو تجھ سے شناسائی کرانا چاہتی ہوں کہ ابھی بھی انسانوں کی بستی میں نم ہے، اے میرے محبوب تیری قربت کے لمحات میری زندگی کا حاصل ہیں اور تیرے ساتھ گزرتے لمحے میری روح تک کو سیراب کئے ہوئے ہیں’’۔
باتوں باتوں میں مجھے اس نے محبت کی وادیوں کی سیر کروائی اور جب ‘‘عشق’’ کے چشمے پر پہنچے تو دونوں نے خوب سیر ہو کر پیاس بجھائی اور اس وادی کے پاس ‘‘شوق’’ کے ٹیلے کی طرف محو پرواز ہوئے، اس نے بہت کوشش کی مگر ‘‘شوق’’ کی بلندی سے عاجز ہوکر ہمت ہار دی اور واپسی کا ارادہ کیا، جب میں گھر پہنچا تو ابھی رات جواں تھی، حیرت ہوئی کہ اتنا سفر کیا مگر وقت جیسے رک گیا ہو ، وہ پھر مجھے نظر آرہی تھی۔حیرت کے سمندر میں غرق کہ یہ کیا ہوگیا، زمین و آسمان اب دو قدم کے فاصلے پہ آ گئے۔ایسا محسوس ہونے لگا کہ اب فرقت کبھی نہ ہوگی،زندگی پیار کے نغموں سے لبریز ہوئی تو ہر آواز سماعت کو مہکانے لگی، درختوں پر بیٹھے پنچھی، پتوں سے لدی شاخیں، پانی پہ اٹھتی موجیں، گھاس پر شبنمی موتی دلربائی کا شہکار نظر آنے لگے، میری تمام آہیں مسرتوں سے شناسا ہوئے جبکہ ہر طرف بہار کا دور و دورہ تھا ۔مجھے ایسا لگنے لگا کہ بہار کے رنگ گہنا گئے درختوں نے سبز پوشاک پہننا شروع کر دی۔ نئی کونپلیں پھوٹنے لگیں، ننھی نرم و نازک کونپلیں سرخی مائل رنگ لئے ہوتی ہیں۔ ہر طرف رنگ برنگے پھول بہار کی آمد کی خوش خبری سناتے ہیں، نیلے، پیلے، سرخ، بنفشی، جامنی اور سفید پھول باغوں میں ایسے لگے ہوئے ہیں جیسے زمین نے سات رنگی چادر اوڑھ لی ہو، مختلف رنگوں کے پھولوں کی خوشبو دماغ کو معطر کرنے لگی۔ اور پھر اوپر سے تتلیوں کا ایک پھول سے دوسرے پھول پر بیٹھنا بہار کو اور حسین بنا دیا۔ پھولوں کی طرح تتلیوں کے بھی خوبصورت رنگ قدرت کا حسین شاہکار ہیں، بہار کی خوبصورتی اور حسن کی رعنائیاں دیکھ کر میں انتہائی سکون محسوس کر رہا تھا۔مجھے اس کی آواز بہت قریب سے سنائی دے رہی تھی۔
یہ میٹھی اور دلربا نسوانی آواز اتنی صاف سنائی دے رہی تھی کہ جیسے کوئی بہت قریب موجود ہو مگر نظر کوئی نہیں آرہا تھا۔ آخر ہمت کرکے پوچھا کون ہو؟ تو جوب ملا “پیار” ، مگر نظر کیوں نہیں آتی” تو جوب ملاابھی اس میں وقت ہے۔۔۔۔ اس بے چین کر دینے والی آواز کی کھنک اب اور بھی سریلی ہو گئی تھی۔ پوچھا ، کس کا پیار ہو” تو جواب ملا صدیوں کی پیاسی تھی مگر تیری قربت پا کر تشنہ ہوئی اور لب آزاد ہوگئے کہ اظہار کر دوں۔۔
اس ان دیکھے پیار کی صدا سے الفت بندھ گئی اس کی باتوں میں جیسے جادو تھا جو مجھے مسخر کرتا جا رہا تھا۔میں اپنی تمام ہمت کو جمع کرکے پوچھا کہ ایک بار اپنا جلوہ دکھا دو؟ تو جواب ملا ” جدا نہ کر پاو گے۔
میں اس روشن ، حسن و جمال کے پیکر چہرہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنا چاہ رہا تھا ، اس کے حسن کی تمازت نا قابل برداشت لگ رہی تھی ، ہمت کرکے پوچھا کہ تم کون ہو،کیا تمہیں ہو جسے شریک سفر ہونا ہے ’’ ہاں ’’ میں ’’وہی ہوں‘‘، ’’تیری شاموں کی گہنانے والی ، تیرے دل میں اترنے والے لب لہجے کی دیوانی ، تیری گہری آنکھوں کی مستی کے اس پار جانے کی تمنا رکھنے والی ‘‘، میں گم سم حیرت کے سمندر میں ڈوبا سن رہا تھا اور اس حسن کے پیکر کے سامنے قوت گویائی جیسے جواب دی گئی تھی، اس مدھر آواز کا جادو تو پہلے سے ہی مجھے غلام کر چکا تھا اور اس جلوے نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی کہ زبان گنگ سی ہو گئی۔
وصل کی ہوائیں چلنے لگیں اور الفتوں نے سارے جام انڈیل دیئے، دھڑکنیں تھمنے لگیں ، دنیا و مافیہا سے بیگانگی نے باہیں پھیلا دیں اور قربتوں کی گھٹائیں برسنے لگیں، سانسیں خوشبو سے معطر ہوگئیں ،میں خاموش ہوکر اس دلفریب خوشبو کو اپنی سانسو میں اتارنے لگا مجھے اتنی تازگی محسوس ہوئی کہ میں بالکل بے خبر ہو گیا کہ میں کسی سے ہم کلام تھا ۔ابھی چند ہی لمحے گزرے تھے کہ من کو چھونے والی آواز سنائی دی ’’ ناراض ہوگئے کیا؟’’ تو جھٹ سے اپنی تمام تر توجہ کو یکجا کر لیا، وصال کے ایک جھونکے نے انگڑائی لی اور میرے لبوں سے چھوتا دریا برد ہو گیا، ’’میں اس کے الفت میں سب کچھ بھول چکا تھا، زندگی کے پھول نے جب محبت کی زمین سے جنم لیا تو اسکی مہک بقا کا پیغام لیکر ہر سو پھیل گئی جبکہ کائنات کا ذرہ ذرہ نہ صرف مامور ہوا بلکہ محو رقص ہو گیا۔پھولوں میں خوشبو، پھلوں میں رس، موسم میں انگڑائی، ہواوں کی اٹکھیلیاں ،زمین میں جاری چشمے اور سبزہ، آسمانوں پہ بادل اور چہروں پہ انجان مسرت محبت کی مرہون منت ہے‘‘، ’’محبت کا ہی اعجاز ہے کہ ہر طرف سے محسور کن نظارہ محبوب ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ خوابوں و خیالوں میں بسنے والا تصور کبھی فضاؤں میں نظر آتا ہے اور پھر کبھی اس کے تصور سے لذت بند جاتی ہے جبکہ اس تجربہ زندگی کا بھی عجب سماں ہے ، وصل ہو کہ فراق دونوں میں لذت آتی ہے۔‘‘
میں نے اسکی بات پر نفی میں سر ہلا دیا، اورمعصومیت سے جواب دیا کہ میں کسی سے ناراض نہیں ہوتا میں تو پیار کو اس کے انجام تک پہونچانے کے لئے اپنے جسم کا آخری قطرہ بھی نچوڑنے کے لئے رہتا ہوں ۔ جب کوئی انسان جذبۂ محبت کی لذت سرشار رہتا ہے تو یہی اسکی زندگی کا موسم بہار ہے، یہ سماں بھی کتنا دلربا ہے کہ لمحاتِ زندگی مسرتوں سے لبریز ہوجاتے ہیں اور لذت کا چشمہ قلب سے جاری ہو جاتا ہے جسکا ادراک صرف اور صرف اس تجربہ سے گزرنے والوں کو ہو سکتا ہے۔ہر آواز موسیقی کی طرح پرد ہ سماعت پر وارد ہوتی ہے،زندگی اٹھکھیلیاں کرتی نظر آتی ہے ،خوشبو کی طرح فضاؤں میں بکھر جانے کو جی چاہتا ہے جبکہ آہ و تاہ بھی لذت سے معمور ہوتے ہیں۔
اور جب محبت سے انسان گزرنے لگتا ہے تو ہر دوپہر ، شام کی گود میں اپنا سر رکھ کر رات کا انتظار کرتی اور ہر رات اپنا چہرہ میرے محبوب کے چہرے کے پیچھے چھپائے گزر جاتی ہے ، وقت جست لگا کر ہماری قربتوں کے ہمراہ اڑنے لگتاہے۔ اگر دوپہر وصال کی چھاوں میں گزرتی ہے تو رات قربتوں کی مہک سے لبریز ہوتی ہے جبکہ زمین و آسماں ہمارے لئے دو قدم کی مسافت پہ آجاتے ہیں۔ ہر رات اک نئی دنیا دریافت ہوتی ہے اور ہر صبح اک نئے انتظار سے ہمکنار ہوتاہے۔ محبت کے تمام رنگ جلوہ افروز ہوجاتے ہیں ، اگر ہوائیں شادمانی کے راگ جپتیں ہیں تو فضائیں محبت کے نغمے گاتیں ہیں اور بہتا پانی الفت کی پرچھائیوں میں مچلتا ، لہلہاتا کسی مست ناگن کی طرح جھومتا جاتا ہے اور اس پر جھکی شاخوں کے پتے پانی کو بوسے دیتے تو بادلوں کی اوٹ سے خورشید اپنی کرنیں نچھاور کرتارہتا ہے۔
میں نے اس کی بات کا جواب خوبصورتی سے دے دیا تھا کہ میں ناراض نہیں ہوں بلکہ تمہارے آنے سے تواس موسم بہار کی رتیں اچانک بدل گیں ، پیار کا لیل و نہار نقطہ عروج پر گیا کہ وہ صیاد فراق کی سولی پر لٹکا کر اور نئی راہیں دکھا کر چلا گیاتھا ، ہر دن کاٹنے کو دوڑتاتھا تو رات ڈسنے کو تیار رہتی تھی اگر دیدہ دل وا کرتا تو ہواؤں کا ہمراہی ہوتا، کیا زمین و آسمان وسعتوں نے اسے سمیٹ لیا یا پھر مجھے بھول چکا ؟ اسکے فراق کا عالم تھا اور تنہائی تھی ۔
تم نے میرے من کی دنیا میں جو جوت جگائی ہے اسکی وسعتوں کو ناپنا ناممکن لگتا ہے، چاندنی کے جمال میں کھوئی موجیں اب طوفان بن کر کناروں سے سر ٹکرانے لگیں ہیں، اور پیار کی شمع سلگتے ہوئے موتیوں کی مالائیں جپنے لگیں ہیں۔آج تیری آنکھوں میں جھانکا تو محبت کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر نظر آیا ، مروت کی سر اٹھاتی لہروں کا اک طوفان تھا اور تیرے سانسوں کی خوشبو نے سارا ماحول معطر کر رکھا تھا مگر ترے چہرے کی چمک تھی کہ آنکھیں ٹکتی نہیں ، تو ہر پل دل کے پاس رہنے لگی کہ ہواؤں میں ، فضاؤں میں میری نگاہوں کی پرچھاؤں میں تیری مہر ثبت ہوچکی،کتنی حیرت کی بات ہے کہ جب میرے من نے اک تجربہ کرنا چاہا اور تجھے تصور کے آبگینے میں طلسمی مجسم پیکر نما تراشا اور لمحوں کی نظر کر دیا اور گزرے لمحوں کے ساتھ فراموش بھی کر دیا۔ اچانک اک روز میرے در پہ دستک ہوئی اور تو موجود تھی ، مگر اندازہ نہ ہو سکا کہ یہ انہی لمحوں کی کارستانی ہے جو پیار کے آبگینوں میں سجائے جا چکے تھے۔
میں اس سے محو کلام تھا اور ایسا لگ رہا کہ وقت اب رک گیا ہو اور ایک ایک پل گھنٹوں پر بھاری لگ رہا تھا،اور میں سوچوں میں گم تھا کہ اچانک اک بار پھر سرگوشی نے چونکا دیا ’’کیا میرا انتظار کرو گے؟‘‘ کیوں نہیں! اسے کیا بتلاتا کہ انتظار کی کشتی پر تو کب کا سوار ہو چکا تھا ’’ضرور کروں گا۔‘‘
اس نے کہا انتظار کی گھڑیاں طویل ہو رہی ہیں نہ کوئی صبا اور نہ کوئی سرگوشی ، یہ کیسا امتحان ہے؟ وقت پر لگا کر اڑ کیوں نہیں جاتا؟ وہ کب آئے گی؟ رات تو بیتی جارہی ہے ، دیدار کب ہوگا؟ نہ جانے کس کس طرح خدشات پانی پر کسی بلبلے کی طرح ظاہر ہوتے اور خود ہی دم توڑ جاتے ،۔
اور انہیں خدشات کی بیچ خاموش قربتوں کا سلسلہ ختم ہو گیا میرے دل میں چنگاری سلگانے والی جا چکی تھی کیونکہ میری نیند ٹوٹ چکی تھی۔لیکن پھر بھی کچھ میٹھا میٹھا سا محسوس ہو رہا تھا جسے میں کوئی نام نہیں دے سکا ۔اور صبح تک میں کروٹیں بدلتا رہا کہ ایک بار پھر نیند آ جائے اور میں پھر ایک بار اسی مدھر آواز کو سنوں لیکن نیند نہ آئی ۔صبح کے وقت میری بہن چائے لیکر آئی ،میں نے چائے پی لیکن جو مٹھاس ،جو حلوت،جو چاشنی اس آواز میں تھی میں وہی مٹھاس پھر تلاش کر رہا تھا۔ چائے میں ملی شکر کی مٹھاس اس کے آگے بہت پھیکی پڑ رہی تھی لیکن مجھے معلوم ہے کہ اس آواز کو فی الحال دوبارہ سننا ممکن نہیں ہے اس لئے میں نے اپنی بہن سے ایک اور چائے مانگ لی ۔
اور اب اس وقت میں یہ تحریر ایک ایسی جگہ لکھ رہا ہوں جہاں کوئی نہیں ہے میں تنہا اس کی تمام باتوں کو یاد کرکے تحریر کر رہا ہوں تاکہ یہ ہمیشہ میرے پاس جمع رہیں جب تک وصال یار نہ ہو میں ان تحریروں کو دیکھ کر دل بہلایا کروں ۔