غزل
ایلیزبتھ کیورین موناؔ
آج کا انسان بھی کتنا بڑا نادان ہے
اپنی بربادی کا خود کرتا سدا سامان ہے
بے خبر ہے مختصر سی عمر کے مقصد سے یہ
اس کو لمبی عمر پانے کا مگر ارمان ہے
جا بجا میلے لگے ہیں یوں تو رنگ و نور کے
تیرے بن ائے دوست ہر محفل میری سنسان ہے
کوئی ہندو ہو کہ مسلم،سکھ ہو یا عیسائی ہو
اب تو بس پیسہ ہی سب کا دین اور ایمان ہے
کاش آجاتا ہمیں غیروں کے آنسو پوچھنا
دوسروں کو رنج دینا تو بہت آسان ہے
پھول گلشن میں کھلائے جا جگر کے خون سے
کوئی دیکھے یا نہ دیکھے دل ترا ویران ہے
یہ روایت چل پڑی ہے دور خود غرضی میں آج
ان کو ہی ٹھکرادو جن کا آپ پر احسان ہے
شدت غم میں بھی مونا ؔمسکرائے جا یونہی
اب تو تیری مسکراہٹ ہی تری پہچان ہے
Elizabeth Kurian ‘Mona’
Hyderabad, India
Reach: +91 9849183498