ّآسان اتنا شاہ کا انصاف ہو گیا
سلم سلیم ۔ غزل۔ ۱۴؍ مئی ۲۰۱۳
جو راستے میں آیا وہی صاف ہو گیا
دولت سے داغِ جرم ہر اک صاف ہو گیا
لو آج وہ بھی شاملِ اشراف ہو گیا
الفت میں اپنے خون کا دریا بہا دیا
اب سوچتے ہیں ہم سے یہ اسراف ہو گیا
باقی نہیں ہے کوئی کدورت، نہ کوئی رنج
صوفی بنا تو قلب مرا صاف ہوگیا
نورِ ازل سے دھل گئی آلودگی تمام
شیشے کی طرح دل مرا شفّاف ہو گیا
اے وائے مصلحت کہ فقط بت بنا رہا
کیا کیا نہ کشت و خوں مرے اطراف ہو گیا
مسلمؔ کی راہ اس لئے مسدود ہو گئی
متروک اب طریقۂِ اسلاف ہو گیا
جو راستے میں آیا وہی صاف ہو گیا
دولت سے داغِ جرم ہر اک صاف ہو گیا
لو آج وہ بھی شاملِ اشراف ہو گیا
الفت میں اپنے خون کا دریا بہا دیا
اب سوچتے ہیں ہم سے یہ اسراف ہو گیا
باقی نہیں ہے کوئی کدورت، نہ کوئی رنج
صوفی بنا تو قلب مرا صاف ہوگیا
نورِ ازل سے دھل گئی آلودگی تمام
شیشے کی طرح دل مرا شفّاف ہو گیا
اے وائے مصلحت کہ فقط بت بنا رہا
کیا کیا نہ کشت و خوں مرے اطراف ہو گیا
مسلمؔ کی راہ اس لئے مسدود ہو گئی
متروک اب طریقۂِ اسلاف ہو گیا