ڈاکٹر شہلا گوندل اور ایک سہیلی
آسماں تو بھی کبھی دیدۂ حیران میں آ
کوئی امکان جگا دے ذرا وجدان میں آ
ہے اسیری میں رہائی کا تصور پنہاں
وسعت قلب کو پانا ہے تو زندان میں آ
خواہش وصل سے آگے بھی تو اک دنیا ہے
جسم کی حد سے نکل کر تو کبھی جان میں آ
روشنی رنگ ستاروں سے مجھے روشن کر
بانجھ دھرتی پہ اتر اور مرے گیان میں آ
نفس کے گھر کو میں ویران کئے جاتی ہوں
ہے گذارش کہ کبھی میرے شبستان میں آ
تیری خواہش تھی کہ جگنو سے بھری دھرتی ہو
میری خواہش ہے کبھی دل کے پرستان میں آ
اک ذرا سی مری تسکین کی خاطر ہی سہی
اے شہ ملک جنوں غم کے بیابان میں آ