آنکھوں دیکھا حال: قطر میں نواں عظیم الشان مشاعرہ

عظیم الشان نواں کل ہندمشاعرہ 2015
بمناسبت جشن یوم جمہوریہ ہند
———————-
انجمن محبان اردو ہند قطر ، دوحہ قطر کی معروف و مشہور ادبی تنظیم نے اپنے کامیاب ترین مشاعروں اور گراں قدر ادبی کارناموں کے ذریعہ قطر کے ادبی ماحول سے آگے قدم بڑھا کر ادب اردو کے عالمی منظر نامہ میں اپنی منفرد شناخت قائم کرلی ہے۔ جس کے سالانہ کل ہند مشاعروں کا قطر کے سامعین کو شدت سے انتظار رہتا ہے اور انجمن بھی محبان اردو کے ذوق ادب کی قدر کرتے ہوئے اپنے مشاعرے کے اعلی معیار کو بر قرار رکھتی ہے اور تشنگان شعر و ادب کی سماعتوں کو آسودگی بخشنے کے لئے منتخب ادباء وشعراء کی ہر سال ایک خوبصورت بزم سجاتی ہے۔انجمن محبان اردو ہند قطر جہاں آئی سی سی سفارتخانہ ہند قطر سے ملحق ہے وہیں اسے مملکت قطر کی وزارۃ الثقافہ والفنون والتراث کی گراں قدر سرپرستی بھی حاصل ہے۔
انجمن محبان اردو ہند قطرکے زیر اہتمام حسب روایت اس سال بھی جشن یوم جمہوریہ کی مناسبت سے جشن اردو مناتے ہوئے نواں کل ہند مشاعرہ بمقام ریڈیسن بلو ہوٹل بروز جمعہ بتاریخ۲۰ فروری۲۰۱۵ ء منعقد ہوا جو بوقت ۹ بجے رات سے شروع ہوکر ۲ بجے رات تک بڑے وقار اورشان سے چلتا رہا۔
اس کامیاب مشاعرے کو کئی مایہ ناز شعراء نے اپنی شرکت سے خوب صورت بنایا اور وقار بخشا۔ ان معروف ومشہور شعراء میں ندا فاضلی (صدر مشاعرہ)، جوہر کانپوری، اثر صدیقی (ناظم مشاعرہ)،منظر بھوپالی، سریندر سنگھ شجر، نشتر امروہوی، پرگیا وکاسں اور اے ایم طراز جیسے قابل قدر نام شامل ہیں۔ اسی طرح دوحہ قطر کی نمائندگی عزیز نبیل، ندیم ماہر، احمد اشفاق اور اطہر ضیاء جیسے اہم شعراء نے کی۔
پروگرام کی ابتداء کرتے ہوئے جناب عزیز نبیل (جنرل سکریٹری انجمن محبان اردو ہند قطر) نے سب سے پہلے قطر کے باذوق سامعین اور تشنگان ادب کے جم غفیر کا استقبال ان اشعار سے کیا ۔
اہلِ ذوق، اہلِ سخن، اہلِ نظر خوش آمدید
کہہ رہے ہیں آپ سے یہ بام و در خوش آمدید
آپ کی آمد سے ہر سو روشنی ہونے لگی
کہہ اٹھا ہر ذرّۂ ملکِ قطر خوش آمدید
آپ نے اسٹیج کو ہمہ آفتاب وماہتاب جیسی شخصیات سے سجانا شروع کیا۔ صدر مشاعرہ، اردو ادب کی بلند پایہ شخصیت، تقریباً پچاس برسوں سے اردو زبان کی خدمت کرنے والے جناب ندا فاضلی صاحب کا مختصر تعارف کراتے ہوئے انہیں کے شعر سے استقبال کیا۔
کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا
کہیں زمیں تو کہیں آسماں نہیں ملتا
اس کے بعدد یگر مہمان اور مقامی شعراء کرام کا مختصر تعارف کراتے ہوئے اسٹیج پر جلوہ افروز ہونے کی دعوت دی۔ پھر آپ نے مہمان خصوصی عزت مآب آر کے سنگھ (ڈپٹی چیف آف انڈین مشن)، وزا ت ثقافت کا ان کے گراں قدر تعاون اور سرپرستی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مہمان خصوصی جناب ڈاکٹر مرزوق بشیر صاحب ( نمائندہ وزارۃ الثقافہ والفنون والتراث برائے قطر)، مہمان اعزازی جناب علی ایم شمسی صاحب (ماہر تعلیم اور سماجی خدمت گار)، مجلس فخر بحرین کے بانی اور روح رواں جناب شکیل احمد صبرحدی صاحب کا استقبال کیا اورپھر قاری شمس الرحمن صاحب نے تلاوت کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔
اس کے بعدجناب ندیم ماہر صاحب (نائب صدر انجمن محبان اردو ہند قطر) نے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ابھی گزشتہ سال ۲۱۰۴ء کے کامیاب مشاعرہ کا خمار نہیں اترا کہ ہم سب آج پھر ایک کامیاب سالانہ مشاعرہ منعقد کرنے کے لئے جمع ہوگئے ہیں۔ یقیناًیہ سب آپ تمام کی محبتوں اور کاوشوں کا ثمرہ ہے۔
آپ نے یک بعد دیگرے صدر انجمن جناب خالد داد خان صاحب،بانی انجمن جناب ابراہیم خان کمال صاحب، سر پرست انجمن جناب حسن عبدالکریم چوگلے صاحب، مہمانان خصوصی جناب ڈاکٹر مرزوق بشیر صاحب اور عزت مآب جناب آر کے سنگھ صاحب کو اظہار خیال کے لئے دعوت دی۔
صدر انجمن جناب خالد داد خان صاحب نے خطبہ استقبالیہ میں اردو کے شیدائیوں کا پر جوش استقبال کیا۔ آپ نے صدر مشاعرہ، مہمانان خصوصی، مہمان اعزازی، تمام شعراء کرام اور باذوق سامعین کا مشاعرہ میں استقبال کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں آپ تمام کا استقبال کرتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے اور آپ کی آمد نے ادبی ماحول کو خیرہ کردیا ہے۔ آپ نے بالخصوص وزارت ثقافت، ریڈیو قطر اردو سروس، تمام سرپرستان اور محبان اردو کو خوش آمدید کہا۔
بانی انجمن جناب ابراہیم خان کمال صاحب نے اپنے کلمات تشکر میں فرمایا کہ وقت کتنی تیزی سے گزر رہا ہے اور ہم اپنی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے نئی نئی تکنیک ایجاد کررہے ہیں لیکن پھر بھی ہر کسی کو وقت کی کمی کی شکایت ہے۔ آپ حضرات مصروف اور مشغول ہونے کے باوجود اپنی تہذیب اور روایت کی بقا کے لئے کوشاں اور سرگرداں ہیں اور اپنے قیمتی اوقات نکال کر یہاں تشریف لاتے ہیں، میں آپ کی کوششوں کو سلام کرتا ہوں اور سراہتا ہوں۔ آپ نے مزید گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس خوبصورت شام کو سجانے میں جہاں انجمن کے تمام عہدیداران اور ممبران کی کاوشیں ہیں وہیں ہمارے معاونین کرام کا بھی اہم حصہ ہے کہ جن کے گراں قدر تعاون کے بغیر ہم یہ بزم نہیں سجا سکتے تھے، ان کا شکریہ ادا کرنا ہمارا تہذیبی اخلاقی اور دینی فریضہ ہے۔ آپ نے تمام معاونین کے نام کا ذکر کرتے ہوئے ان کا شکریہ ادا کیا۔ پھر آپ نے تمام شعراء کرام، معزز مہمانان کرام کا شکریہ ادا کرتے ہوئے سامعین کا شکریہ ادا کیا کہ آپ کی ان خوبصورت سماعتوں کے بغیر یہ مشاعرہ کامیاب نہیں ہوسکتا۔ آپ نے سامعین کی ذمہ داریوں کو یاد دلاتے ہوئے کہا کہ مشاعرہ کی تہذیب و ثقافت کا خیال رکھیں اور شعراء کو بھر پور داد وتحسین سے نوازیں کہ اس سے شاعر کو حوصلہ ملتا ہے اور اس کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کی بات آپ تک پہونچ گئی ہے۔
سرپرست انجمن جناب حسن عبدالکریم چوگلے نے کہا ہمیں خوشی بھی ہے اور فخر بھی کہ ہم اپنے وطن ہندوستان اور دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا جشن منا رہے ہیں۔ہم اپنے ملک کے بہی خواہ ہیں اور نمائندہ بھی جہاں کہیں بھی رہیں۔ اسی لئے ہم محبان اردو یوم جمہوریہ کی مناسبت سے عالی شان آل انڈیا مشاعرہ کا اہتمام کرتے ہیں۔ انجمن محبان اردو ہند قطر کا سفر بڑے ہی شان سے رواں دواں ہے اور اردو ادب میں اپنی گراں قدر خدمات سے اضافہ کررہا ہے۔ ۲۰۱۴کا سال انجمن کے لئے بہت ثمر آور رہا اور ہمارے ممبران کی علمی و ادبی کاوشیں منظر عام پر آئی ہیں جو ادبی دنیا کے لئے ایک سنگ میل ثابت ہوں گے۔ جناب ندیم ماہر کا مجموعہ کلام ’’دستکوں کے نشان‘‘، جناب عزیز نبیل کا ترتیب دیا ہوا ضخیم ’’فراق نمبر‘‘، جناب احمد اشفاق کا مجموعہ کلام ’’دسترس‘‘ اور پھر جناب عزیز نبیل کی ادارت میں عالمی تحقیقی سالانہ مجلہ ’’دستاویز‘‘ کا نیا شمار جو غیر مسلم ادباء اور شعراء پر مشتمل ہے، یہ وہ تمغے ہیں جو ا نجمن کے لئے باعث اعزاز اور باعث فخر ہیں۔ وزارۃ الثقافہ والفنون والتراث کا ان کے خصوصی تعاون کے لئے اور ہندوستانی سفارت خانہ سے تشریف لائے ڈپٹی چیف کا شکریہ ادا کیا۔بھارت، بحرین، کویت سے تشریف لائے دیگر مہمانان گرامی ، مہمان شعراء اور مقامی شعراء اور تمام سامعین کا تہ دل سے شکریہ ادا کیا اور اس شعر پر اپنی بات ختم کی کہ:
ہم اردو کے مسافر ہیں یہی پہچان ہے اپنی
جہاں سے بھی گزرتے ہیں سلیقہ چھوڑ جاتے ہیں
مہمان خصوصی جناب ڈاکٹر مرزوق بشیر صاحب نے عربی زبان میں گفتگو کی جس کا برجستہ اور سلیس اردو ترجمہ جناب ندیم ماہر صاحب نے کیا۔ آپ نے کہا مجھے بڑی مسرت ہورہی ہے کہ اس خوبصورت تقریب کے انعقاد پرمیںآپ تمام کو حکومت قطر، وزیر محترم ڈاکٹر حمد عبدالعزیز الکواری اور وزارۃ الثقافہ والفنون والتراث کی جانب سے مبارک باد پیش کررہا ہوں۔ آپ نے تمام شعراء اور مہمانوں کو سلام و تہنیت پیش کیا اور فرمایا کہ مملکت قطر مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں سے مضبوط تعلق رکھنا چاہتا ہے۔ اردو زبان و ادب کے ہم دلدادہ اور اس سے بہت قریب ہیں اور اس کی اہمیت کو بخوبی جانتے ہیں۔ اردو کو ہم ہندوستانی اور پاکستانی فلموں میں سنتے رہتے ہیں۔ جب میں گلف ٹایمز کا اڈیٹر تھا اس وقت مشہور ادیب منور نینار صاحب نے ایک کتاب لکھی تھی جس میں انہوں نے یہ بتایا تھا کہ عربی زبان کا ہندوستانی زبانوں پر کتنا گہرا اثر ہے۔ سات ہزار پانچ سو عربی کلمات اردو میں استعمال ہورہے ہیں۔ ہم عربی زبان و ادب کے عمدہ کاموں کو اردو میں اور اردو کی بہترین کوششوں کو عربی میں منتقل کرنا چاہتے ہیں اور وزارت اس کی سر پرستی کرنے کے لئے تیار ہے، میں اس بزم کی کامیابی کے لئے اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہوں۔
عزت مآب آر کے سنگھ صاحب نے کہا کہ مجھے انتہائی مسرت ہورہی ہے کہ ایک لمبے عرصے کے بعد کسی مشاعرہ میں شریک ہونے کا موقع ملا۔ اس سے پہلے میں نے تہران کے ایک مشاعرہ میں شرکت کی تھی۔ میں وزارت کے نمائندہ اور ہندوستان سے تشریف لائے معزز مہمانان گرامی اور شعراء کرام کا استقبال کرتا ہوں بالخصوص ندا فاضلی صاحب کا جن کے گیت سن سن کر ہم بڑے ہوئے ہیں اور انجمن کے سرپرست جناب حسن عبدالکریم چوگلے اور ان کی پوری ٹیم کو جشن یوم جمہوریہ کے موقع پر اس شام کو سجانے کے لئے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور ا مید کرتا ہوں کہ انجمن اسی طرح ہر سال عالی شان مشاعرہ منعقد کرتی رہے گی۔
انجمن نے ہر سال کی طرح اس سال بھی اپنا جاذب نظر یادگار مجلہ شائع کیا جس کی رونمائی نمائندہ وزارت ثقافت، صدر مشاعرہ، مہمان خصوصی، مہمان اعزازی، سرپرست انجمن جناب حسن عبدالکریم چوگلے، بانی انجمن ابراہیم خان کمال، صدر انجمن خالد داد خان، نائب صدر انجمن ندیم ماہر اور انجمن کے جنرل سکریٹری عزیز نبیل کے بدست ہوئی۔
انجمن کی جانب سے جناب عزیز نبیل کی ادارت میں شائع ہونے والے سالانہ مجلہ دستاویز کے تیسرے شمارے کی رونمائی عمل میں آئی جو غیر مسلم ادباء اور شعراء پر مشتمل ایک زبردست تحقیقی کاوش ہے۔ اس کے بعد سہ ماہی رسالہ ’’اردو‘‘ کے ندا فاضلی نمبر کی موصوف کی موجودگی میں رو نمائی کی گئی۔
اس موقع کی مناسبت سے انجمن محبان اردو ہند قطر کی جانب سے کئی ممتاز شخصیات کو ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں لوح سپاس دیاگیاجن کے نام اس طرح ہیں، جناب ندا فاضلی صاحب، جناب علی ایم شمسی صاحب، جناب عزیز نبیل صاحب، جناب سیف الرحمن صاحب (ریڈیو قطر اردو سروس کی نمائندگی کرتے ہوئے)۔
ریڈیو قطر اردو سروس ۳۵ سال کی طویل مدت سے اردو کی عظیم خدمت کررہا ہے۔ دوحہ قطر کے اردو حلقہ میں بہت ہی مقبول اور پسندیدہ ہے جس کے ہفت رنگ متنوع پروگراموں نے سامعین کو اپنا گرویدا بنا لیا ہے۔ اس کے روح رواں قطر کی معروف ومقبول شخصیت جناب سیف الرحمن صاحب ہیں جن کی سرپرستی میں ایک زبردست فعال ٹیم جہد مسلسل کرتی ہے جن میں جناب محمود احمد صاحب، محترمہ فرزانہ صفدر صاحبہ اور جناب عبید طاہر صاحب جیسی اہم شخصیات ہیں۔ جناب سیف الرحمن صاحب نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ریڈیو قطر اردو سروس کے ۳۵ سال مکمل ہونے پر انجمن کی جانب سے جو اعزاز دیا ہے اس کے لئے ہم انتہائی ممنون و مشکور ہیں۔ اردو سروس کو کسی اردو تنظیم کی جانب سے یہ پہلا اعزاز ہے۔ ہم کبھی کسی صلہ کے طلب گار نہ رہے بلکہ محبت کے ساتھ اردو کی خدمت کرتے رہے ہیں۔ ریڈیو ذہن ودماغ کو اور شعر و ادب روح کو غذا فراہم کرتا ہے۔ اس موقع پر میں انجمن کا بہت شکر گزار ہوں۔
اس کے بعد صدر مشاعرہ کے بدست تمام مہمان اور شعراء کی موجودگی میں شمع روشن کی گئی۔
صدر مشاعرہ جناب ندا فاضلی صاحب نے نثر میں شاعری کرتے ہوئے بہت خوبصورت گفتگو کی اور کہا کہ آج کی شام بڑی نیک نام شام ہے، خوش کلام شام ہے، خوش انجام شام ہے، گلفام شام ہے، یہ کسی لیڈر کی تقریر سے مسموم نہیں ہے، لفظوں کے احترام کی شام ہے، جہاں عقل سے نہیں دل سے کلام کیا جاتا ہے، دل ہی سے سلام کیا جاتا ہے۔ آج جب قطر میں اردو کا جشن منایا جارہا ہے تو میرا ا یمان انسان کی انسانیت پر اور مضبوط ہو گیا۔ انجمن اور اس کے منتظمین نے یہ محفل سجائی ہے اور سماج کو یہ پیغام دیا ہے کہ زندگی میں صرف آتنگ سے لڑائی ہی نہیں ہوتی بلکہ حسن کی انگڑائی بھی ہوتی ہے، عشق کی گہرائی بھی ہوتی ہے اور دوحہ قطر میں غزل سرائی بھی ہوتی ہے۔
اس کے بعد مشہور ناظم مشاعرہ جناب اثر صدیقی کی نظامت میں مشاعرے کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ آپ نے اپنی تمہیدی گفتگو میں کہا کہ یوم جمہوریہ کی مناسبت سے اس مشاعرہ کے انعقاد پرآپ سب کو میں مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ یہ اردو کا مشاعرہ ہے۔ اردو زبان دکنی لشکری اردو معلی کے مراحل سے گزرتے ہوئے اردو بنی۔ یہ مختلف تہذیبوں اور کیف وسرور کی مختلف تہذیبوں کا نشہ ہے۔
مشاعرہ کا مکمل دورانیہ از ابتدا تا انتہاء بڑے ہی باوقار انداز میں جاری وساری رہا۔ شعراء کرام نے تازہ کلام اور عمدہ اشعار پیش کئے اور باذوق سامعین بھر پور لطف اندوز ہوئے اور خوب داد وتحسین سے نوازا۔ کوئی عمدہ شعر ایسا نہ ہوتا جس پر داد وتحسین اور تالیوں کی گونج سے وسیع وعریض جیوانہ ہال گونج نہ جاتا۔ بلا شبہ اس کامیاب ترین مشاعرہ کی یادیں تا دیر باقی رہیں گی۔ شعراء کرام کے منتخب اشعار پیش خدمت ہیں۔
اطہر ضیاء: دوحہ کی افق پرنئے نسل کے ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر،علامہ شبلی، کیفی اعظمی واقبال سہیل کی زرخیر سر زمین اعظم گڑھ سے تعلق ہے۔انجمن کے رابطہ سکریٹری ہیں۔
میں سمندر سے لگی شور زمیں جیسا ہوں
مارتا رہتا ہے مجھ کو مرا کھارا پانی
اپنی آنکھوں سے نچوڑوں گا کسی دن اس کو
کرتا رہتا ہے بہت مجھ سے کنارا پانی
احمد اشفاق:دوحہ قطر کے آسمان ادب کا روشن ستارہ اور اپنی منفرد شناخت بنا چکے ہیں، ضلع سمستی پورسے تعلق رکھتے ہیں، خوبصورت مجموعہ کلام ’’دسترس‘‘کے خالق ہیں، انجمن محبان اردو ہند قطر کے نائب جنرل سکریٹری ہیں۔
مجھ سے جو تنگ ہوا میں نے اسے چھوڑ دیا
اس کو خود چھوڑ کے جانے کی بھی زحمت نہیں دی
۔۔۔
اس شخص کا اب پھر سے کھڑا ہونا ہے مشکل
اس بار گرا ہے وہ زمانے کی نظر سے
ندیم ماہر: استاد ناطق کے قصبہ گلاؤٹی کی توانا آواز اور نائب صدر انجمن محبان اردوہند قطر،شعر و ادب کی دنیا میں اپنا یکتا لہجہ اور الگ رنگ و آہنگ سے پہچانے جاتے ہیں، آپ کا مجموعہ کلام ’’دستکوں کے نشاں‘‘ تشنگاں علم و ادب میں کافی مقبول ہوا۔
کاغذوں کی ردا میں رہتے ہیں
لفظ کیسی فضا میں رہتے ہیں
میر و غالب کی شاعری ہے میاں
لفظ لپٹے قبا میں رہتے ہیں

عزیز نبیل: قطر کی ادبی شناخت اور ادبی دنیا کا ایک روشن باب، معتبر ادیب وشاعر، مرتب ومحقق ، انجمن محبان اردو ہند قطر کے جنرل سکریٹری، دستاویزی اور تحقیقی سالانہ مجلے ’’دستاویز‘‘ کے مدیر اعلی ، آپ کی متعدد تحقیقی کتابیں اور مجموعہ کلام ’’خواب سمندر‘‘ کو ارباب علم ودانش نے قدر کی نگاہوں سے دیکھا اور اردو ادب کا بیش بہا سرمایہ قرار دیا۔آپ کی نئی انداز کی غزلوں نے بر صغیر میں ایک ہلچل مچادی ہے۔
بجھی بجھی سی یہ باتیں دھواں دھواں لہجہ
کسی عذاب میں اندر سے جل رہے ہو کیا
وہ جارہا تھا تو روکا نہیں اسے تم نے
وہ جا چکا ہے تو اب ہاتھ مل رہے ہو کیا
اے ایم طراز: ممبئی سے تشریف لائے نوجوان زندہ دل شاعر، کلام میں کلاسیکی لہجہ اور رنگ تغزل نمایاں، فلمی نغمہ نگار، نئی نسل کے نمائندہ شاعر ہیں۔
اداسیوں سے کہو جشن کل کی شب کر لیں
میں روز روز کہاں مسکرانے والا ہوں
بس اک گمان یہ اس کو بھلا نہیں پایا
میں ایک روز اسے یاد آنے والا ہوں
سریندر سنگھ شجر: دہلی سے تشریف لائے، اردو کی گنگا جمنی تہذیبی روایت کے امین، کلاسیکی غزلیں، عصری تقاضے، چھوٹی بحروں میں بڑی بڑی باتوں کو کہہ دینے میں ماہر ہیں۔
میں اس کی ساری خطائیں معاف کردوں گا
اگر وہ اب بھی مجھے شرمسار مل جائے
۔۔۔
کہیں کیسے ہمارے ملک کے حالات بدلے ہیں
ستم جو ہم پہ ڈھاتے ہیں فقط وہ ہاتھ بدلے ہیں
پرگیا وکاس: نسائی جذبات کی مضبوط آواز ، بر صغیر سے آگے عالمی مشاعرں کی مقبول شاعرہ، ا ندور مدھیہ پردیش سے تشریف لائیں۔
محل نہیں ہے کھنڈر ہے مگر ہمارا ہے
ہم اس کو چھوڑ دیں کیسے یہ گھر ہمارا ہے
۔۔۔
پیسے ہوئے تو فرصتیں نایاب ہوگئیں
فرصت ہوئی تو ہاتھ میں پیسے نہیں رہے
نشتر امروہوی: دہلی سے تشریف لائے مزاحیہ شاعر، طنز ومزاح کے میدان میں اپنا ایک ممتاز مقام بنا چکے ہیں، مزاحیہ کلام میں بھی اپنے معیار کو برقرار رکھتے ہیں اور بڑی ہی خوبصورت شاعری کرتے ہیں۔
آئینے کے سامنے گھنٹوں تیاری کے بعد
تم حسیں لگتی ہو بیگم کتنی دشواری کے بعد
دوسری شادی کے بارے میں یہ رنڈوے نے کہا
جیسے روزے کا مزہ آتا ہے افطاری کے بعد
اثر صدیقی: اردو کی جنت مالیگاؤں مہاراشٹر سے تشریف لائے مشہور ناظم مشاعرہ،بڑی ہی اعلی معیار کی شاعری بلکہ ساحری، شاعروں اور سامعین کو خوبصورت تسلسل کے ساتھ جوڑے رکھنا، بڑے ہی باوقار انداز میں مشاعرہ کو پروان چڑھانا اور اسے کامیاب ترین مشاعرہ بنانے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔
جب ٹپک اٹھی مرے خط سے محبت کی شراب
اس نے اپنے خط میں میرا نام پاگل رکھ دیا
وہ جن کے ہاتھ بھی ڈوبے ہوئے ہیں خونِ انساں میں
گلابوں سے سجا کر میز پر گلدان رکھتے ہیں
منظر بھوپالی: بھوپال مدھیہ پر دیش سے شہرہ آفاق شاعر وادیب، خوبصورت ترنم کے مالک، غزلوں نظموں گیتوں کے شہنشاہ، شہر اردو کے نغمہ نگار، اردو ادب کو اعلی معیاری گیتوں سے مالا مال کرنے والے، سامعین کے قلوب و اذہان پر اپنا سکہ جما چکے ہیں۔
حسن دنیا کی ہر اک شے میں بہت ہے لیکن
کوئی ایسا نہیں جو اس کی ادا تک پہونچے
۔۔۔
بیٹیوں کے لئے بھی ہاتھ اٹھاؤ منظرؔ
صرف اللہ سے بیٹا نہیں مانگا کرتے
جوہر کانپوری: کان پور اتر پردیش کے مشہور شاعر، دنیائے اردو ادب کا باوقار نام، جن کی موجودگی مشاعروں کی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہے، حالات حاضرہ اور عصری تقاضوں کو شعر و ادب کا پیکر عطا کرنے والے، سامعین کے دلوں کی آواز بن چکے ہیں۔ ملکی سیاست اور عالمی منظر نامے پر گہرا طنز وتبصرہ اور شاعر کے احساس دروں کو ظاہر کرتے ہیں۔
بستی کے اک بزرگ کی میت کو دیکھ کر
میں اپنے بوڑھے باپ سے جاکر لپٹ گیا
۔۔۔
سمٹ کر رہ گئی فرقہ پرستی تین سیٹوں پر
جو اتراتے تھے ان کی جگ ہنسائی ایسی ہوتی ہے
اٹھا کر ہاتھ میں جھاڑو کہا یہ عام لوگوں نے
زمانہ دیکھ لے آکر صفائی ایسے ہوتی ہے
ندا فاضلی: ممبئی مہاراشٹر سے تشریف لائے مقبول ومعروف شاعر، صدر مشاعرہ، مشہور نغمہ نگار جن کی غزلوں کو جگجیت سنگھ نے اپنی خوبصورت آواز دی ہے۔ اردو تہذیب و ثقافت کے امین اور علمبردار، اردو زبان و ادب کا بیش بہا سرمایہ، نظموں غزلوں کے شہشاہ اور اردو دوہے کے بے تاج بادشاہ،
سیدھا سادھا ڈاکیہ جادو کرے مہان
ایک ہی تھیلے میں بھرے آنسو اور مسکان
۔۔۔
میں رویا پردیس میں بھیگا ماں کا پیار
دکھ نے دکھ سے بات کی بن چٹھی بن تار
ہر سال کی طرح اس سال بھی انجمن محبان اردو ہند قطر کے سالانہ کامیاب مشاعرہ کی گونج ہر سمت سنی جارہی ہے۔اس کی یادیں اور باتیں قطر کے اردو داں حلقہ کی گفتگؤوں کا موضوع اور محور بنی ہوئی ہیں۔ اس عظیم الشان اور کامیاب ترین مشاعرہ کی خوب صورت یاد ہر شریک مشاعرہ کو اگلے سال کے مشاعرہ کے انتظار میں بے قرار رکھے گی۔

رپورٹ: نیاز احمد اعظمی۔ میڈیا سکریٹری

اپنا تبصرہ لکھیں