عورتوں کی جدو جہد اور تاریخی واقعات کا مختصر تحقیقی جائزہ فوزیہ وحید کے قلم سے
تحریر فوزیہ وحید اوسلو
خواتین کا عالمی دن 1909سے منایاجا رہا ہے لیکن دنیا بھر میں یہ عالمی دن آٹھ مارچ کو منانے کا فیصلہ انیس سو تیرہ میں کیا گیا۔ 1908 میں پندرہ سو عورتیں مختصر اوقات کار بہتر اجرت اور ووٹنگ کے حق کے مطالبات منوانے کے لیے نیویارک کی سڑکوں پہ مارچ کرنے نکلیں۔ ان کے خلاف نہ صر ف گھڑ سوار دستوں سے کاروائی کی بلکہ ان پر بیت بھی برسائے گئے اور بہت سی عورتوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔
1909 میں سوشلسٹ پارٹی نے امریکہ میں عورتوں کا دن منانے کی قرارداد منظور کی ۔اور پہلی مرتبہ اسی سال اٹھائیس فروری کو عورتوں کا دن منایا گیا۔اس کے بعد سن انیس سو تیرہ تک ہر سال عورتوں کا عالمی دن اٹھائیس فروری کو منایا جاتا رہا۔
سال انیس سو دس میں کوپن ہیگن میں ملازمت پیشہ خواتین کی دوسری عالمی کانفرنس ہوئی۔جس میں جرمنی کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کی عہدے دار خواتین نے عورتوں کا عالمی دن ہر سال دنیا بھر میں منانے کی تجویز پیش کی جسے تمام سترہ ممالک کی شرکاء خواتین نے متفقہ طور پہ قبول کیا۔1911 میں انیس مارچ کو پہلی بار عورتوں کا عالمی دن منایا گیا۔جبکہ آسٹریا، جرمنی ڈنمارک اور سوزرلینڈ میں دس لاکھ سے ذائد
خواتین اور مردوں نے کام ،تربیت اور سرکاری عہدوں پر عورتوں کی تقرری کے حق اور امتیازی سلوک پر احتجاج کیا۔ اسی سال نیویارک سٹی میں آگ لگنے کا ایک واقعہ پیش آیا۔ٹرائی اینگل کے نام سے یاد کی جانے والی اس آگ میں ایک سو چالیس ملازمت پیشہ عورتیں جل کر ہلاک ہو گئیں۔
یہ عورت ہی ہے جو نو مہینوں کی اذیت کے بعد ایک زندگی کو جنم دیتی ہے۔بچے کی پیدائش کے بعد اسکی بہتر تربیت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔یہ عورت ہی ہے جو خو د بھوکی سو جاتی ہے مگر بچے کو کبھی بھوکا سونے نہیں دیتی۔اللہ تعالیٰ نے عورت کو ایک ایسی قوت برداشت عطاء کی ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔اگر کسی مشکل کا سامنا کرنا پڑے تو سمجھدار عورت اسکا سامنا بڑیتحمل سے کرتی ہے۔دیکھا جائے تو معاشرہ اس گاڑی کی مانند ہے جس میں مرد اور عورت کی حیثیت دو پہیوں جیسی ہے۔اگر اس میں سے عورت کو نکال دیا جائے تو پھر وہ معاشرہ ایک پہیے کی گاڑی کی مانند نہیں چل سکتا۔
عورت کی ذات کے حوالے سے بہت سے واقعات اور مثالیں ملتی ہیں چاہے وہ جنگ کا میدان ہو یا میدان کربلا ہو یا پھر ٹیکنالوجی کا میدان ہو عورت ہر میدان میں بہترین کردار ادا کرتی نظر آتی ہییہ بات روایات اور احادیث میں رقم ہے کہ جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے اللہ تعالیٰ وہاں رحمت کے فرشتے بھیجتے ہیں جو گھر والوں سے کہتے ہیں کہ تم پر سلامتی ہو۔وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہیں۔اور کہتے ہیں یہ کہ یہ کمزور جان ہے اور کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے۔جو اس بچی کی پرورش کرے گا قیامت تک خدا کی مدد اس کے شامل حال رہے گی۔عورت اگر بیٹی ہے تو باپ کے لیے رحمت ،بیوی ہے تو شوہر کے نصف ایمان کی وارث۔اگر ماں ہے تو اسکے قدموں تلے جنت۔
حضرت بی بی فاطمہۃالظہرہ کی شان دیکھیں کہ اس والد کے لیے رحمت جو خود رحمت العالمین ہیں اس شوہر کے لیے نصف ایمان جو خود کامل ایمان ہیں۔۔اور آپ کے قدموں تلے ان بیٹوں کے لیے جنت جو خود سرداران جنت ہیں۔۔۔
جاری ہے۔۔۔۔۔