آہٹ ٹورانٹوی کی کتاب “چھپکلیوں کا جلوس” پر ایک تبصرہ

آہٹ ٹورانٹوی کی کتاب “چھپکلیوں کا جلوس” پر ایک تبصرہ


سید اعجازشاہین

اس عہد کے اکثر نا آموز شعرا کی طرح آہٹؔ ٹورانٹوی کو بھی جدید لب و لہجہ کا تازہ کار شاعر تسلیم کر لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔کیونکہ اس ملامتی گروہ میں سے ہر ایک یہی دعویٰ کرتا ہے۔
آہٹؔ پہلے اپنا نام آہٹؔ کرناٹکی لکھتے تھے۔تلاشِ معاش کے سلسلے میں مغرب کا رخ کیا۔ وہاں جیسے تیسے ایک طویل عرصے تک مقیم رہے۔لیکن نا ئن الیون کے بعد جب تیسری دنیا کے باشندوں ،بالخصوص مسلمانوں سے اٹھتے بیٹھتے اُن کی وہاں موجودگی کا جواز پوچھ پوچھ کر تنگ کیاجانے لگا تو آہٹؔ زچ ہوگئے اور ’استعفیٰ مرا با حسرتِ ویاس‘ کہتے ہوئے ایک روز وطنِ لذیذکو خیربادکہہ کر وطنِ عزیز کی طرف چپ چاپ کھسک آئے۔ چپ چاپ اس لیے کہ شور مچانے سے مزید آفتوں کے ٹوٹ پڑنے کا اندیشہ تھا۔
اب یہ تو ہمیں ٹھیک ٹھیک نہیں معلوم کہ مغرب سے وہ کیا کچھ فتوحات لے کر لوٹے ،مگر کچھ اور لائے یا نہیں ،ایک عدد نسبت ٹورانٹوی کی ضرور ان کے ہاتھ لگ گئی۔پھر تو وہ اپنے آپ کو آہٹؔ ٹورانٹوی کہلواکر فخر محسوس کرنے لگے۔’چھپکلیوں کا جلوس ‘آہٹ ؔ کا پہلا اور آخری مجموعۂ کلام ہے۔آخری اس لئے کہ زندگی میں ایک بار صاحب کتاب بن جانے کی دیرینہ آرزو تھی،سو وہ توپوری ہوگء،اب آگے شاعری کا شغل جاری رکھنا آہٹؔ ٹورانٹوی کے نزدیک چنداں feasible نہیں رہا۔
آہٹؔ ٹورانٹوی کی اس کتاب میں۱۷ قطعے،۱۶ ماہیے،۱۵ ثلاثی پونے سات غزلیں اور ایک سو بیالیس نثری نظمیں ہیں۔نثری نظمیں تو آہٹؔ ٹورانٹوی کے پاس سیکڑوں کی تعداد میں ہیں،مگر ان کو کتاب میں اس خیال سے شامل نہیں کیا کہ ضخامت اتنی نہ بڑھ جائے کہ کتاب کوhandle کرنا دشوار ہو جائے۔
کتاب کی طباعت ،کتابت،کاغذ ،جلد وغیرہ سب کچھ بہت نفیس اور قیمتی ہے۔۔ہر صفحہ پر واٹر مارک میں مدھم خاکے بنے ہوئے ہیں۔کہیں طلوعِ سحر کا تو کہیں شفقِ شام کا منظر، کہیں اونٹوں کی قطار اور پنچھیوں کی ڈارتو کہیں غزالوں کا غول،کہیں پنگھٹ کا منظر تو کہیں دستِ حنائ کے نقش و نگار۔میرزاغالب ؔ دیکھتے توکہتے کہ ایک بدصورت دلہن ہے جس کو دیدہ زیب پوشاک پہنادی گئ ہے ۔یہ سب کچھ اتنا پر کشش ہے کہ اِن کے ہوتے ہوئے کتاب میں موجود شاعری کی طرف کسی بدذوق قاری کی توجہّ ہی جائے گی۔
ٹائٹل کے آخری صفحے پرمصنف کی رنگین تصویر ہے۔رنگین اس طرح کہ انھوں نے نیلے رنگ کی بوشرٹ،پیلے رنگ کی صدری اور سبز رنگ کی پتلون پہنی ہوئ ہے۔ ٹائ اس پرشوخ سرُخ رنگ کی باندھی ہے۔دراوڑی نسل کے مصنّف نے خود اپنے بالوں کو بلونڈ کیا ہوا ہے۔تصویر میںآہٹؔ ٹورانٹوی جھیل اونٹاریو کے کنارے مچھلی کے شکار میں مگن ہیں۔عین ممکن ہے کہ ساتھ ساتھ فکرِسخن بھی ہورہی ہوگی۔پتلون کی پچھلی جیب میں واک مین اُڑس رکھاہے۔تصویر کے برابر میں شاعرکے دو نمائندہ اشعار دئیے گئ ہیں ۔آپ بھی پڑھیئ :
شعرا پہ خندہ زن ہے ہر اک کوچہ،ہر گلی
اور طنز کر رہی ہے چمن کی کلی کلی
خود شاعری پرآج اُتر آئ دیکھیئ
مایوس ہوکے اہلِ سخن سے یہ چھپکلی
’’چھپکلیوں کے جلوس ‘‘کا انتساب مصنّف نے نام بہ نام اپنی بیوی،تمام بچوں،خالہ ساس اور بھانجے داماد کے علاوہ سیٹھ ہاشم بھائ کاسم بھائ کانچ والا کے نام بھی کیا ہے کیونکہ سیٹھ نے کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں دامے درمے امداد کی تھی۔آج کل رواج ہے کہ انتساب کے بعد والے صفحہ پر کسی کلاسیکی شاعر مثلاًمیر،سودا،مومن،غالب یا پھر جسے کچھ زیادہ ہی رعب ڈالنا ہے وہ نظیری یا عرفی کا شعر درج کرتا ہے۔مگر آہٹؔ ٹورانٹوی اتنی دور تک نہیں گء، بس اپنے جون ایلیا کا شعرلکھ دیا ؂
اور پھر آدمی نے غور کیا
چھپکلی کی لطیف صنعت میں
کتاب کی ترتیب میں یہ شعرہی ایک ایسی چیز ہے جسے آپ misfit نہیں کہہ سکتے۔پہلا دیباچہ مصنف نے بہ قلم خود لکھا ہے۔اپنے بارے میں لکھتے ہیں’’آپ اسے میری خود اعتمادی کہیے یابددماغی ہماری نسل کے اکثرشعرا کی طرح میرا بھی شاعری میں کوئ اُستاد نہیں ہے۔شاگردی کبھی مجھے کسی کی گوارا نہیں رہی۔لیکن کتاب کی اشاعت کا مرحلہ درپیش ہوا تو میں نے ازراہِ احتیاط ایک عروضی کو گھیرا ، یومیہ مزدوری طے کرکے کام پر لگادیا ۔کنٹریکٹ میں اوزان کے ساتھ املا درست کرنابھی شامل تھا۔مگر وہ نکلا بڑا رقیق القلب،پہلے ہی دن میری نثری نظموں نے اس پر وحشت طاری کردی میں نے کہا کیا مسئلہ ہے،آپ کو تو بحر اور اوزان پر بڑا عبور ہے ۔وہ بولا
بحر و اوزان پر عبور سہی
نثری نظموں کا کیا کرے کوئ
غریب کچھ دیر سر پکڑے بیٹھا رہا ۔ کچھ بن نہ پڑا تو بیڑی پینے کا بہانہ کرکے باہر نکلا،آج تک نہیں لوٹا‘‘۔
پروفیسر اسطوخودس نے بڑا طویل پیش لفظ لکھا ہے۔اپنے مضمون میں انھوں نے جابجا شیلے،نٹشے،سارتر،داریدا،کافکا وغیرہ کو لاگھسیٹا ہے۔دوسرے الفاظ میں ان کا جلوس نکال دیا ہے ۔ چھپکلیوں کا نہیں ، ان دانشوروں کا جلوس۔مزیدبرآں ساختیات ، پسِ ساختیات ، جدیدیت ، مابعدجدیدیت، مابعد الطبعیات ، تشکیل، ردِّتشکیل وغیرہ پر لب کشائ کرکے ان علمی مصطلحات پر اپنی معلومات کے نہایت سطحی اورادھوری ہونے کا انکشاف کردیا ہے ۔سعدیؔ نے کہا تھا
تا مرد سخن نہ گفتہ باشد
عیب و ہنرش نہفتہ باشد
پروفیسر نے لکھا شیخ سعدیؔ اس نصیحت پر کان دھرے ہوتے توٓج بھرم قائم رہ جاتا۔اس فضول کتاب پر پروفیسر نے آٹھ صفحوں کا دیباچہ لکھ ڈالا ہے۔پورے آٹھ صفحات ! اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فاضل مضمون نگار کے پاس کتنا فاضل وقت ہوگا ۔ مگر اس مضمون کے ساتھ ہمارا جودکھ ہے وہ کچھ اور ہے۔ہم نے آٹھ صفحوں کے اس مضمون کو بدقّتِ نظر اوّل تا آخر پڑھا،پھر آخرتا اوّل پڑھا ۔ تاہم یہ عقدہ نہیں کھل سکا کہ اس مضمون سے خود آہٹؔ ٹورانٹوی یا ان کی شاعری کاکیاتعارف ہوا۔
معروف محقق مصطگی رومیؔ کے مقالہ کاعنوان ہے’’ اُردو شاعری میں چرند،پرند اور حشرات الارض‘‘۔مصطگی رومیؔ نے پرندوں،چوپایوں،اور کیڑے مکوڑوں کے اردو شاعری میں استعمال اور استحصال کے موضوع پر معروضی گفتگوکی ہے۔اس ضمن میں مقالہ نگار نے آہوئے ختن ، شیر نیستاں ، فیلِ بے زنجیر ، شتر بے مہار ، روباہ ، پلنگ ، شاہین ، کرگس ، طوطی ، بلبل ، قمری ، حمام ، اژدر،افعیٰ،۔۔۔اور سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے کرمِ شب ، مور،مکڑی ،مگس سے لے کر چمن کی تتلی،عسل کی مکھی کے ساتھ اُردو شعرا کے تصرفات کا محققانہ جائزہ پیش کیا ہے اور آہٹؔ ٹورانٹوی کیbreedکے دیگر شعرا کو تلقین کی ہے کہ اس سلسلے کو آگے بڑھایا جائے اور چوہے ،چھچھوندر،مینڈک جیسے نظر انداز شدہ حیوانات کے مدارج بھی بلند کئ جائیں اور ادب میں ان کا جائز مقام دلایا جائے ۔چھپکلی سے اس کارِنیک کا آغاز کرکے آہٹؔ ٹورانٹوی نے ایک قابلِ تقلید مثال قائم کی ہے۔
فلیپ پر اہلِ نظر کی آرا درج ہے۔
اداکارہ چاندنی لکھتی ہیں’’ ڈسکووری یا نیشنل جیوگرافی چینل کیَ پرکَٹی عورتوں کی بات اور ہے۔وہ تومینڈک اور چوہے کو بھی بڑے چاؤسے گودمیں لے کر لوری سناتے ہوئے تصویر کھنچواتی ہیں۔جہاں تک مشرق کا تعلق ہے ہماری تہذیب میں ایک خاتون کے لیے چھپکلی سے خوف کھانا لازم سمجھا گیا ہے۔ایک روایتی مشرقی خاتون کی حیثیت سے میں ہمیشہ چھپکلیوں سے بہت ڈرتی تھی۔یہاں تک کہ مجھے آہٹؔ ٹورانٹوی کی کتاب’’چھپکلیوں کا جلوس ‘‘ پڑھنے کو ملی۔ پھر تو چھپکلی گویا میرے لیے چھپکلی نہ رہی۔میں حلفیہ کہتی ہوں کہ اس کتاب کو پڑھنے کے بعد چھپکلیوں سے مجھے نہ گھن آتی ہے نہ خوف۔چنانچہ تمام بہنوں کو میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ ہمّت کرکے اس کتاب کو ایک بار شروع سے آخر تک پڑھ ڈالیں۔بڑافائدہ ہوگا۔خواتین کے رسائل کے مدیرانِ گرامی سے میں خواہش کرتی ہوں کہ آہٹؔ ٹورانٹوی کی نظموں کو گاہے بہ گاہے اپنے ہاں شائع کرتے رہیں تاکہ خواتین کے دلوں سے چھپکلی کا خوف اور وحشت دور ہو اور اس کے بجائے مانوسیت پیدا ہو۔‘‘
شام نامہ’’سکرات‘‘ کے مدیرِِ بے توقیر یوں رقم طراز ہیں:’’بحیثیت شاعر آہٹؔ ٹورانٹوی کی تخلیقی صلاحیت قوی ہونے کے ساتھ ساتھ اس قدر مکروہ ہے کہ اس نے چھپکلی جیسے کریہہ المنظر جانور کو بھی اپنے جمالیاتی اظہار کا وسیلہ بنالیا۔۔میرا خیال ہے کہ آہٹؔ ٹورانٹوی پر ضرور کسی بدروح کا سایہ ہے۔ورنہ ایں حماقت بزورِ بازو نیست ۔ ‘‘
نوجوان ادیب ڈاکٹر قبیل قماشؔ کی رائے : ’’آہٹؔ ٹورانٹوی مہملِ ممتنع کا شاعر ہے۔یعنی آہٹ ؔ کا شعر بظاہر تو ایسا لگے گا کہ گویا آپ بھی چاہیں توایسا ہی مہمل شعر کہہ سکتے ہیں،مگر کہنے بیٹھیں تو آپ کا شعر آہٹؔ سے کہیں زیادہ مہمل نکل آتا ہے۔آہٹؔ اِدھر اُدھر سے نادر ترکیبیں اُچک لیتا ہے اور ان کو زیر استعمال لا کر بڑی واہیات قسم کی چیزیں گھڑتا ہے ۔ہرچند کہ یہ خود کو منفرد لب و لہجے کا شاعر سمجھتا ہے مگراس کے تمام لچھّن وہی کچھ ہیں جو اس کے ہم عصر و ہم نسل شاعروں میں پائے جاتے ہیں۔‘‘
ہمارا تبصرہ ادھورا سمجھا جائے گا اگر آہٹؔ ٹورانٹوی کے کلام کا کچھ نمونہ پیش نہ کیا جائے۔
آہٹ ؔ کی غزل کا یہ شعر دیکھیئ:
قسمت نے جہل اور حماقت کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ بھُگتا رہا ہوں میں
اس شعر میں آہٹؔ ٹورانٹوی نے قدرے تعلّی سے کام لیا ہے۔مگر یہ تعلّی شاعری میں روا سمجھی گئ ہے۔
صفحہ نمبر ۵۴ پر موجود نظم کا عنوان ہے’’ ٹورانٹو کی ٹر ن ٹو لا‘‘ملاحظہ فرمائیں:
سرِشام دیوار پر
ہم نے دیکھا کہ یلغار ہے
فیل پیکر،گرانڈیل،خونخوار سی مکڑیوں کی
لپلپاتی ہوئ سرخ زہریلی جن کی زبانیں۲
ہر گھریلو،گرہستن سی معصوم و مسکین
چھپکلی کے لیئ خوف کی ایک بے انت رُت کی ہے چیتاونی
یہاں پر آہٹؔ ٹورانٹوی نے تیسری دنیا کی مظلوم اور پچھڑی ہوئ اقوام کے لیئ چھپکلی کو علامت بنایا ہے۔دوسری جانب ٹرن ٹولا،ایک مہیب،خونخوار اور زہریلی مکڑی ہے جو عہد حاضر کی جابر و استحصال پسند قوتوں کا استعارہ ہے۔ آہٹؔ ٹورانٹوی نے درحقیقت یہ کتاب لکھ کرجدید اردو شاعری میں استعارہ بازی کے خوفناک امکانات اور ہولناک رجحانات کی موجودگی کی وارننگ دی ہے۔
مولویُ مرغّن سے آہٹ کی پرانی یاری ہے۔مولویُ مرغن شہر کے مختلف محلّوں میں وعظ کہنے جاتے ہیں ،نذرانے کے نام پر کچھ مل جاتا ہے۔جز وقتی شاعر بھی ہیں۔فربہ ؔ تخلص کرتے ہیں ۔ شاعری سے بھی کچھ آمدنی ہو جاتی ہے۔عرسوں وغیرہ کے موقع پر کسی متشاعر کو منقبت لکھ کر تھمادی یا شادی ،نام رکھائی،ختنوں کے موقعوں پر تہنیتیں لکھ کر دیں توکچھ پیسے وصول ہو گیء۔ ان تہنیتوں کے لیے مولوی مرغن کو کوئ خاص مشقت کی حاجت نہیں ہوتی۔اِن کے پاس ہر تقریب کی تہنیت کے لئے template بنی ہوئ ہے،صرف نام اور تاریخیں بدلنی ہوتی ہیں۔آہٹ کی تنگدستی کے دن تھے تو محلّے کی’ غریب نواز ہوٹل‘ میں ایک گندی سی میزپر ان دونوں کی بیٹھک رہا کرتی تھی۔میز کے دوپائے جو دیوار سے متصل تھے، ان کے اوردیگر گاہکوں کے لیے اُگالدان کا کام دیتے تھے ۔اب جب آہٹؔ بیرون ملک سے واپس ہوئے ، مالی حالت قدرے مستحکم ہوئے۔ان کی کتاب شایع ہوئی ۔ وہ مشہور ہونے لگے ،اور غریب نواز ہوٹل کی مانوس میز سے گھن کھانے لگے تو مولویُ مرغّن جیسا اُن کا دیرینہ ہمدم حسد میں مبتلا ہو گیا۔بیچارے مولوی آدمی ،کچھ اور تو کر نہیں سکتے تھے ۔
وعظوں میں اس قسم کی باتیں کرکے بھڑاس نکالنے لگے۔’’جب تم دیکھو کہ کہ لوگ چھپکلی اور چھچھوندر پر شاعری کرنے لگیں،کتابوں کے بے ڈھنگے نام رکھنے لگیں،قافیہ ردیف سے آزاد، آہنگ و عروض سے آزاد،معنی و مفہوم سے آزاد یعنی مادر پدر آزاد شاعری کرنے لگیں تو سمجھ لو کہ قیامت قریب آچکی ہے۔‘‘ آہٹ ٹورانٹوی کو پتہ چلتا تو پیچ و تاب کھاکر رہ جاتے ۔ مولوی کا اثر یہ کہہ کر زائل کرنے کی کوشش کرتے کہ مولوی مرغّن بڑا ہی فتنہ پردازہے، جھوٹی اسرائیلی روایات بیان کرتا ہے، نثری نظم سے قیامت کے آنے جانے کابھلا کیا تعلّق ہو سکتا ہے۔
کتاب میں نرخنامہ واضح طور پر دیا گیا ہے کہ اگر آپ بھارت میں ہیں تو کتاب کی یہ قیمت،پاکستان میں ہیں تو اتنی،خلیجی ممالک میں یہ اور یوروپ اور امریکہ کے شائقین کے لیئ اتنی۔پہلے ایک لاکھ نسخوں کی فروخت کے لیے ایک پروموشنل آفربھی ہے۔وہ یہ ہے کہ Buy one get two free۔ یہ آفر ہے تو بڑی پرکشش مگر ہماری سمجھ سے اس لیئ باہر تھی کہ کتاب چھپوائ ہی گئ محض ۵۰۰ کی تعدادمیں۔ہم نے یہ گتھّی سلجھانے کے لیئ آہٹ سے براہِ راست استفسار کیا تو جواب ملا کہ انھوں نے محض جدید مارکٹنگ تکنیک کا ایک حربہ آزمایاہے ۔ اگر لوگ کتاب خریدنے لگیں تو و ہ لاکھ کیا مزیددس لاکھ نسخے بھی چھپوا دیں گے۔آہٹؔ ٹورانٹوی سیاسی جلسوں ، عرسوں ، میلاد کی محفلوں،ولیمے کی دعوتوں میں اپنی کتاب تقسیم کرتے ہوئےپکڑے گؤ ہیں۔ آہٹ ؔ نے ایک جگہ لکھا ہے ’’کتاب کی فروخت سے مالی منعفت حاصل کرنا میرے پیشِ نظر نہیں ہے۔ میں نے تو اپنی حد تک صرف یہ کوشش کرڈالی کہ شاعری  کا یہ گنجینہ بہ سہولت ہر قاری کو پہنچے‘‘۔مگر جناب ایسی شاعری کا کوئ قاری بھی تو ہو،آہٹؔ کیا چیزہیں، اس پُر آشوب دور میں تو خاصے معقول شعرا تک کے ساتھ یہ صورتحال ہے کہ
ہم تو مائل بہ سخن ہیں کوئ قاری ہی نہیں
بہرحال قیمت کے مخمصے میں آپ کو ہرگز نہیں پڑنا ہوگا،کیونکہ ہماری معلومات کی رو سے یہ کتاب اب تک جس کسی کو پہنچی  بالکل مفت پہنچی ہے۔خود ہماری مثال لیجیء۔تبصرے کے لئے

ہمیں صرف دو نسخے درکار تھے۔مگر فراخ دل مصنف نے پورے دو درجن نسخوں کا کارگو روانہ کردیا۔یاں آپڑی یہ شرم کہ انبار کیا کری

aijaz.shaheen@gmail.com

اپنا تبصرہ لکھیں