عابدہ رحمانی شکاگو
موسلا دھار بارش ہو رہی ہے’ بارش مجھے ہمیشہ سے بہت پسند ہے یوں لگتا ہے بارش کی رم جھم سے میری روح جھنجھنا اٹھتی ہے کچھ عجیب سا سکون اور سرشاری ، ایک پاکستانی گانا یاد آرہا ہے –رم جھم رم جھم پڑے پھوار– یا پھر
احمد رشدی کا ایک مشہور گانا ” اے ابر کرم آج اتنا برس اتنا برس کہ وہ جا نہ سکیں -گھر آیا ہے ایک مہماں حسین- ڈر ہے کہ چلا نہ جائے کہیں–
بر صغیر میں بارش کے ساتھ اسقدر رومانیت جڑی ہوئی ہے کہ گانے اور شاعری برکھا برسات سے کوٹ کوٹ کر بھرے ہوئے ہیں – ساون کے بھیگے بھیگے موسم کی اپنی روایات, ثقافت اور خوبصورتی ہے- گرمیوں سے بلبلائے ہون کو اس برسات کا شدت سے انتظار ہوتا ہے- پہلے تو درختوں پر جھولے ڈال دئے جاتے تھے – ساون کے گیت گائے جاتے ، برسات کے ساتھ پکوڑیاور گلگلے تلنا ، گرما گرم بگھاری کھچڑی، تلی ہوئی پوریاں گرم گرم حلوہ– اب جبکہ کھانے پر اسقدر قدغن ہے ایسی لوازمات کا سوچنا بھی گناہ ہے—
لیکن اس بارش کو ہم پھوار کو تو ہرگز نہیں کہینگے– یہ تو ایک گرجتی چمکتی دھواں دھار بارش ہے — ٹیلی وژن پر شدید گرج چمک اور طوفانی بارش کی تنبیہ آرہی ہے-ذرا دیر پہلے یہ افسوسناک خبر آئی” واٹر لو میں دو یونیورسٹی کی طالبات بجلی گرنے سے جان بحق ہوگئیںاسقدر حفاظتی اقدامات ہونے کے باوجود،قدرتی حادثات اور دیگر حادثات انسان کے قابو سے باہر ہوتے ہیں -ورنہ یہاں کی دھواں دھار بارش میں کاروبار زندگی پوری طرح جاری رہتا ہے -پانی کی نکا سی کا ایسا بہترین انتظام ہوتا ہے کہ ایسی طوفانی بارش کے اگلے دن جب دھوپ نکل آئے تو محسوس ہی نہیں ہوتا کہ بارش ہوئی بھی تھی — ہر گھڑی ہر لمحے موسمی پیشن گوئیاں ایسی کہ موسم سے ہمارا چولی دامن کا ساتھ ہوجاتا ہے – اللہ تعالی نے اس خطے کو میٹھے پانی کی بڑی بڑی جھیلوں سے نوازا ہے –جو جھیل سے زیادہ سمندر کا نقشہ پیش کرتی ہیں–
چند ماہ پہلے شمالی کیلیفورنیا میں تھی ہر روز کھلی ہوئی دھوپ دیکھ دیکھ کر عجیب یکسا نیت سی ہونی لگی تھی ایک روز ذرا بدلی آئی توکیا لطف آرہاتھا –یہاں بارش سردیوں کے دوران ہوتی ہے– گرمیاں اسی کھلی ہوئی دھوپ میں گزر جاتی ہیں اور پھر سردیوں میں دھواں دھار بارش برستی ہے -پچھلے سال وہاں خشک سالی رہی نومسلم عالم دین شیخ حمزہ یوسف نے برکلے کے کھلے میدان میں نماز استسقا ادا کی اور اللہ کی شان کہ اگلے روز ہی خوب بارش ہوئی– لیکن پھر بھی بارش کی کمی پوری نہ ہوسکی اور گرمیوں میں پانی کی راشن بندی کی گئی —
اب چند روز پہلے فینکس اریزونا میں اسقدر بارش ہوئی کہ پورے شہر میں سیلابی کیفیت ہوگئی اسکول کالج یونیورسٹی تک بند ہوگئے سارا شہر جل تھل اور مفلوج ہوگیا یہاں پر پورے سال میں آٹھ 8 انچ بارش ہوتی ہے اور ایک روز میں چھ 6 انچ کی بارش نے شہر میں ایک ہنگامی کیفیت پیدا کی- نشیبی علاقوں کے گھروں میں پانی گھس گیا- امریکہ جیسے ملک میں ایسی صورت حال بھی پیدا ہوسکتی ہے- کیو ں نہیں آئے دن طوفان ,Tornado بگولے،بارشیں اور برسات کم سے کم نقصان پر بھی کافی نقصان ہوجاتا ہے — اللہ کی شان نرالی–
یہاں کی بارشوں میں،میں پاکستانی برسات کو بھلا کیسے بھلا سکتی ہوں جہاں گرمی سے بلبلائے ہوئے ھاتھ اٹھا ااٹھا کر بارش کی دعائیں مانگتے ہیں اور جب بارش ہوتی ہے تو پہلے سوندھی مٹی کی خوشبو آتی ہے لیکن پھر سب کچھ جل تھل ہوجاتا ہے – سیلابی تباہ کاریاں ،انسانی جانوں ، مویشیوں ، فصلوں ،مکانات کا بے تحاشا نقصان —
ایک جانب سیاسی دھرنے عمران خان اور قادری کی یہ حماقت یا ہٹ دھرمی کیا رنگ لائیگی، اللہ کے بندوں جا اور سیلاب زدگان کی مدد کر کے اپنے آپکو سرخ رو کرو لیکن ہر ایک اپنی دکان چمکانے مین لگا ہوا ہے اور نفسا نفسی کا عالم ہے- ان سیلابوں کا الزام کبھی ہندوستان اور کبھی افغانستان سے چھوڑے ہوئے پانی پر لگتا ہے – یہ ابر کرم جب زیادہ برستا ہے تو تباہی و بربادی کا پیام لے کر آتا ہے –
مجھے اپنا گاں کا بچپن یاد آرہاہیجب ہم بچے توے کی کالک چہرے پر ملکر بارش کے لئے اپنی زبان میں لمبے لمبے گیت گاتے ہوئے محلے کے گھروں پر جاتے جسکا مطلب کچھ یوں ہوتا ،” اے اللہ ہم تجھ سے زاری کرتے ہیں اور خیر مانگتے ہیں – ایرب بارش کو برسا دے ، جو فصلوں کو لہلہا دے – دہقانوں کو خوش کردے ” اور مختلف چیزیں اکٹھی کرکے ہنڈ کلیا پکاتے -سب سے بدمزاج خاتون یا مرد پر پانی کے ڈول ڈالتے انکی بک جھک، چیخ پکار سے سبکو یقین تھا کہ اب بارش ضرور ہوگی اور واقعی بارش ہو جاتی تھی–کیا کھیل اور کیا خوشیاں تھیں–
کالے میگا پانی دے پانی دے گڑ دھانی دے -پانی برسے کھیت ما
یہ پوربی گیت بھی اسی قسم کاہے —
کراچی میں ایک مرتبہ سخت گرمی اور حبس سے نڈھال تھے کہ ابر کرم چھایا اور بوندا باندی شروع ہوئی ہم لوگ ڈیوٹی فری شاپ خریداری کے لئے گئے –موسلا دھار برستی ہوئی بارش شیشوں سے نظر آرہی تھی – ابھی ہم خریداری میں مصروف تھے کہ نچلی منزل میں پانی بھرنا شروع ہوا بجلی غائب -باہر نکلنے کی کوشش کی تو کمر تک کا پانی سیلابی ریلے کی صورت میں تھا — سینڈل ہاتھ میں تھامے گاڑی تک پہنچے کی کوشش کی لیکن گاڑی پانی میں تقریبا ڈوب چکی تھی– موسلا دھار برستی ہوئی بارش میں گٹروں کے مرغولوں سے بچتے ہوئے بمشکل تمام ایک بس تک پہنچے ، جسنے حسن اسکوایر پر اتار دیا –وہاںتک پہنچتے ہوئے یوں لگا جیسے پورا شہر سیلابی اور افرا تفری کی کیفیت میں ہے ایک کہرام مچا ہوا تھا -اسکولوں کالجوں کے بچے بچیاں ، دفتروں کے ملازمین پریشاں سر بگرداں —
اسی سیلابے ریلے سے گزرتے ہوئے ایک پرانی کار چلتی ہوئی نظر آئی اور ازراہ مرحمت ان صاحب نے ہمیں گاڑی میں بٹھا کر گھر تک پہنچا دیا – اس بارش کے نتیجے میں بجلی غائب ،
ٹیلیفون بند، اور گاڑیاں پانی میں بند لیکن اللہ کا یہ کرم کیا کم تھا کہ ہم سب محفوظ تھے —
پھر مجھے ڈھاکے کی برسات یاد آرہی ہے جہاں مارچ سے ستمبر تک بارش ہی بارش –سارے نشیبی علاقوں میں پانی ہی پانی دریا چڑھ جاتے اور ہر طرف سیلاب ہی سیلاب–لیکن ہم اس برسات سے خوب لطف اٹھاتے –لمبی ڈرائیو پر گول گپے چاٹ کھانے چلے جاتے –جسے وہاں پانی پوری دہی پوری کہتے تھے-
گرمیوں کی بارش میں بھیگنے اور نہانے کا اپنا ہی لطف تھا
لیکن ان ملکوں نہ تو بارش میں کوئی رومانیت ہے نہ حسن جانا جاتا ہے کسی سے بات کرو تو روہانسے سے انداز میں کہا جاتا ہے ” آج تو بارش کا دن ہے ” کھلی ہوئی دھوپ کے دیوانے ” کیا خوبصورت دن ہے “what a beautiful day today
ابھی زور کی بجلی کڑکی –اور بارش میںمزید شدت آگئی ہے —
اے ابر کرم ذرا تھم کے برس ذرا تھم کے برس———–