فوزیہ وحید اوسلو
شاعر مزاح نگار اصلی نام سید محمد خان تھا اور
تخلص انشاُ
آپ۱۵ جون ۱۹۲۷کو جالندھر کے گاؤں میں پیدا ہوئے ۔۱۹۴۶میں جامع پنجاب سے بی۔اے اور۱۹۵۳ میں کراچی یونیورسٹی سے ایم۔اے کیا۔۱۹۶۲ میں نیشنل بک کونسل کے ڈائر یکٹر مقرر ہوے ٹو لیو بک ڈولپمنٹ پروگرام کے وائس چیر مین اور ایشین کو پبلی کمیشن پروگرام ٹوکیو کی مجلس ادارت کے رکن تھے
روزنامہ جنگ کراچی اور روزنامہ امروز لاہور کے ہفتہ روزہ ایڈیشنوں اور ہفتہ روزہ اخبار جہاں میں ہلکے فکاہیہ کالم لکھتے تھے
دو شاعری مجموعے چاند نگر اور اس بستی کے کوچےمیں شائع ہو چکے ہیں۔۱۹۶۰ میں چینی نظموں کا منظوم اردو ترجمہ (نظمیں) شائع ہوا۔
ابن انشا یونیسکو کی مشیر کی حٽیت سے متعدد یورپی اور ایشیائ ممالک کا دورہ کیا تھا۔جن کا احوال اپنے سفر ناموں میں اپنے مخصوص طنزیہ و فکاہیہ انداز میں تحریر کیا-
ان کے سفرنامے درج ذیل ہیں۔
۱۔ آ وراہ گرد کی ڈائری۔
۲-دنیا گول ہے۔
۳-ابن بطوطہ کے تعاقب میں
۴۔چلتے ہو تو چین کو چلئے
۵-نگری نگری پھرا مسافر
مضامین
۱-آپ سے کیا پردہ۔
۲-خمار گندم-
۳-أردو کی آخری کتاب-
۴-خط انشا جی کے-
تراجم
اندھا کنواں
آپ کا انتقال ۱۱جنوری ۱۹۷۸کو لندن میں ہوا-کراچی میں تدفین ہوئی ۱۹۷۸ کو ہی صدارتی تمغا حسن کار کردگی ملا
یہ ابن انشا کی آخری نظم ہے جن کو مرنے سے پہلے ڈاکٹر نے لندن میں بتا دیا تھا کہ آپ فلاں ماہ فلاں ھفتے تک اور زندہ ھیں۔
اب عمر کی نقدی ختم ھوئی
اب ھم کو ادھار کی حاجت ھے
کچھ سال،مہینے،دن لوگو
پر سود بیاج کے بن لوگو
ھاں اپنی جاں کے خزانے
سے
ھاں عمر کے توشہ خانے سے
کیا کوئی بھی ساھوکار نہیں؟
کیا کوئی بھی دیون ھار نہیں؟
جب نام ادھار کا آیا
ھے؟
کیوں سب نے سر کو جھکایا
ھے؟
کچھ کام ھمیں نپٹانے ھیں
جنھیں جاننے والے جانے
ھیں
کچھ پیار دلار کے دھندے
ھیں
کچھ جگ کے دوسرے پھندے
ھیں
ھم مانگتے نہیں ھزار برس
دس پانچ برس دو چار برس
ھاں سود بیاج بھی دے دیں
گے
ھاں اور خراج بھی دے دیں
گے
آسان بنے ۔دشور-بنے
پر کوئی تو ساھو کار بنے
تم کون؟ تمھارا نام ھے کیا؟
کچھ ھم سے تم کو کام ھے کیا؟
کیوں اس مجمعے میں آئی ھو،
کچھ مانگتی ھو؟کچھ لائی ھو؟
یہ کاروبار کی باتیں ھیں
یہ نقد ادھار کی باتیں ھیں
ھم بیٹھے ھیں کشکول لیے
سب عمر کی نقدی ختم کیے
گر شعر کے رشتے آئی ھو
تب سمجھو جلد جدائی ھو
اب گیت گیا سنگیت گیا
ھاں شعر کا موسم بیت گیا
اب پر جھڑ آئی پات
گریں
کچھ صبح گریں کچھ رات گریں
یہ اپنے یار پرانے ھیں
اک عمر سے ھم کو جانے
ھیں
ان سب کے پاس۔ھے
مال بہت
ھاں عمر کے ماہ سال
بہت
ان سب کو ھم نے بلایا
ھے
اور جھولی کو پھیلا یا ھے
تم جاو،ھم۔ان سے بات
کریں
ھم تم سے نا ملاقات
کریں
کیا؟ پانچ برس؟
کیا عمر اپنی کے پانچ
برس
تم جان کی تھیلی لائی ھو؟
کیا پاگل ھو؟ سودائی
ھو ؟
جب عمر کا آخر آتا ھے
ھر دن صدیاں بن جاتا
ھے
جینے کی ھوس نرالی۔ھے
ھے کون جو اس سے خالی ھے
کیا موت سے پہلے مرنا
ھے؟
تم کو تو بہت کچھ کرنا ھے
پھر تم ھو ھماری کون
بھلا ؟
ھاں تم سے ھمارا کیا
رشتہ ؟
کیا سود بیاج کا لالچ ھے؟
کسی اور خراج کا۔لالچ
ھے؟
تم سوھنی ھو،من موھنی
ھو
تم جا کر پوری عمر جیو
یہ پانچ برس یہ چار برس
چھن جائیں تو لگے ھزار
برس
سب دوست گئے سب یار
گئے
تھے جتنے ساھو کار گئے
بس ایک یہ ناری بیٹھی
ھے
یہ کون ھے،کیا ھے،کیسی
ھے؟
ھاں عمر ھمیں درکار بھی
ھے
ھاں جینے سے ھمیں پیار بھی
ھے
جب مانگیں زند گی کی گھڑ یاں
گستاخ انکھیاں کس جا
لڑیاں
ھم قرض تمھیں لوٹا دیں گے
کچھ اور بھی گھڑیاں لا دیں
گے
جو ساعت و ماہ و سال
نہیں
وہ گھڑیاں جن کو زوال
نہیں
لو ،اپنے جی میں اتار لیا
لو، ھم نے تم سے ادھار
لیا۔
Parh kar aankhon main aansoo aa gayee. Bohat kamal ki nazam hay.
Ibn e Insha bohat kamal k poet thay..Allah un ki maghfarat karay. Aameen.
Very touching article. I had only read the humorous books of Ibn e Insha before. After reading this article I am introduced to a different side of this great writer.