ابن صفی کا مشن ،امن و انصاف کا فروغ

akifعمران عاکف خان
imranakifkhan@gmail.com
٨٥،ڈیگ گیٹ،گلپاڑہ،بھرت پور۔321024 (راجستھان)
مذہبی کتابوں اور صحائف کے علاوہ بہت کم ایسی کتابیں اور دستاویز ہوتی ہیں جو انسان کو اچھے برے،صحیح و غلط اور مناسب و غیر مناسب کی تمیز سکھاتی ہیں،انھیں ذمے دار اور معاملہ فہم بناتی ہیںاسی طرح انھیں وقت ،حالات،زمانے اور موسم کے تقاضوں سے آگاہ کر تی ہیں نہ صرف یہ بلکہ انھیں سکھاتی بھی ہیں اور تلقین بھی کر تی ہیں ۔جاسوسی دنیا اور ادب کے مایانازو قابل افتخار نام ابن صفی کاکوئی بھی ناول اٹھائے اور پڑھیے ،اس میں جہاں متعدد دلچسپ اور قابل غور باتیں ہو ں گی وہیں نمایاں طور پریہ دعوت اور فکر بھی ہو گی کہ ہم اپنے گر دو پیش کے حالات سے باخبر رہیں اور دنیا میں شرو فساد نہ بر پا ہونے دیں ۔کھلے عام کسی کو بھی قانون اور انصاف سے کھلواڑ نہ کر نے دیں اور نہ ہی مجرمانہ امور کو فروغ پانے دیں۔اسی طرح کسی کے ساتھ زیادتی نہ خود کر یں اور نہ ہی کسی کو کر نے دیں ۔ اللہ تعالیٰ کا جو نظام ہے اسے کاینات میں نافذ کر نے کی کوشش کریں اور دنیاکا امن و امان غارت کر نے والوں کے خلاف قانون کی مدد کر کے انھیں کیفر کردار تک پہنچائیں ۔
ابن صفی کے قارئین ہر دور میں اس احساس سے مرصع رہے ہیں کہ انھیں ملک و ملت اور قوم پر آنے والے بر ے حالات میں کس طرح کے اقدام کر نے ہیں اور ان ناگفتہ بہ حالات سے کس طرح مقابلہ کر نا ہے نیز ان سے محفوظ رہنے کے کیا کیا طریقے ہو سکتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ابن صفی کے قارئین چاہے ان کا تعلق کسی بھی طبقے سے ہو وہ کسی کے بہکاوے میں نہیں آتے اور نہ ہی ملک و ملت کے سرمایوں کا سودا کر تے ہیں بلکہ بسا اوقات تو ان کا تحفظ کر تے کر تے جان تک دے دیتے ہیں۔وہ اپنے ملک کے وفادار اور ملت کے بہی خواہ ہوتے ہیں۔انھیں دنیا کی کوئی طاقت نہیں خرید سکتی اورنہ ہی ان کے ”جذبۂ حب وطن”کا سودا کر سکتی ہے۔ ملک و قوم کی صیانت و حفاظت کا فریضہ ادا کر نے میںانھیں ایسی خوشی اور مسرت محسوس ہوتی ہے جیسی قارون کا خزانہ ملنے پر بھی نہیں ہوتی۔میری اس بات کی تائیدکے لیے ابن صفی کے شاہ کار ناول”تابوت میں چیخ ”کے کر دار’ ظفر الملک’ کی مثال کافی ہو گی جودربدری کی حالت میں ہونے کے باوجود جرائم سے نفرت کر تے ہوئے قانون کی حفاظت کر نے کا عہد کر تا ہے اور ‘میوری وتھیلما’کے چکر سے باہر آنے کے لیے تگ و دو کر تا ہے ،جس میں وہ کامیاب بھی ہوجاتا ہے اور پھر عمران کی ٹیم کا ایک بہترین ممبر بن جاتا ہے۔

مذکورہ بالاتمام اچھی صفات وہ ہیں جو انسان کو ازل سے ہی ملی ہوتی ہیں مگر وہ شیطان کے بہکاوے میں آکر حقیقت سے رو گر دانی کر جاتا ہے۔ مگر جب اسے کوئی یاددلاتا ہے تو اس کو یہ سب باتیں یاد آجاتی ہیں ۔ابن صفی کے ناولوں نے بڑے پیمانے پر انسانوں کو ان کی متاع گمشدہ لوٹانے کا کام کیا اور ان کے مردہ ضمیر وںمیں عقابی روح پھونکی۔یہی وجہ ہے کہ فریدی،عمران ،صفدر،حمید ،انور، رشیدہ ان کے کارنامے ہمیں اپنے کارنامے لگتے ہیں اوران کو پڑھ کر ہمارے اندر یہ احساس پیدا ہونے لگتا ہے کہ ہم بھی خطرات سے کھیلتے ہوئے اور انسانیت دشمن عناصر سے لوہا لیتے ہوئے اسی طرح ظلم و ناانصافی اوربدی کا خاتمہ کر سکتے ہیں نیز قانون کی عظمت و اہمیت کو دوبالاکر سکتے ہیں ۔ لوگوں کو قانون کا احترام کر نا اورظلم سے متنفر ہونا سکھا سکتے ہیں ۔یقینی طورپر یہ بات بھی دلوں میں بیٹھ جاتی ہے کہ یہ کردار کہیں دور کوہِ قاف سے نہیں آئے اور نہ ہی ان کا تعلق کسی ایسے سماج،طبقے اور خاندان سے ہے جن کا ہم تصو ربھی نہیں کر سکتے ۔اپنے ہی ہیں اور اپنے لہجے میں بات کر تے ہیں ۔
جب نبیوں اور رسولوں سے ان کی امتوں نے سوال کیا کہ….. ”تم نبی کیسے ہو سکتے ہو جب کہ تم کھاتے پیتے ہو،شادی کر تے ہو ،ہماری طرح بودوباش اختیار کر تے ہو،ہماری طرح بولتے اور بات کر تے ہو،نبی توکوئی ایسا ہونا چاہیے جو فرشتہ ہو اور جس کا تعلق ہمارے گروہ سے نہ ہو…… ”
اس کا جواب ان کو اس طرح دیا گیا:
”بے شک نبی تم میں سے ہے تاکہ وہ تمھاری زبان بولے اور تمھاری زبان میں تمھیں میرا پیغام پہنچائے ۔تمھیں اچھائیوں کی تلقین کرے اور برائیوں سے روکے۔تمھارے سماج اور معاشرے میں اس کا رہنا اس لیے ہے تاکہ تم اسے اجنبی او ریگانہ نہ سمجھواور اس کی باتوں کو سمجھنے سے انکار کر دو۔”
ابن صفی کے ناولوں اور ان کے کردارو ںکا ماجرابھی کچھ ایسا ہی ہے۔زبان عوامی ،انداز ہلکا پھلکا ،اسلوب سلیس اور رواں ،کر دار ہمارے ہی سماج اور معاشرے کے ،کھاتے پیتے ،ضرور ت مند،دشمنوںسے لڑائی او رمقابلے کے دوران زخمی ہوتے ہو ئے اور جعل سازوں کے جعل میں پھنستے ہوئے ،مجرموں کے ہتھے چڑھتے ہوئے ،گاڑیاں ،بندوق،پستول اور بم گولے چلاتے ہوئے۔قانون کی عظمت اور شان پر قربان ہوتے ہوئے۔کسی بھی طرح ان میں اجنبیت اور یگانگت نہیں اور نہ ہی وہ دیو مالائی نظر آتے ہیں ۔اپنے انسانی کرداروں کے ذریعے ابن صفی اپنے قارئین کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم میں سے ہر کوئی فریدی،عمران،حمید ،صفدر، جولیا ،ریکھا،خاور،نعمانی، جگدیش ،رمیش اور ظفر الملک بن سکتا ہے۔دلچسپ ترین بات تو یہ ہے کہ ان کے نام بھی ایسے ہیں جو ہمارے یہاں اکثرو بیشتر رکھے جاتے ہیں ۔ہمبانگ ، رابان ،تھامو،بدرو،نیسن ،ترانزو،بینازوغیرہ جیسے نام نہ ہمارے معاشرے سے میل کھاتے ہیں اور نہ ہی انھیں کوئی اپنانا پسند کر تا ہے۔
بدلتے حالات سے آگاہ ہونے ،سائنسی او ر تکنیکی ایجادات سے لیس ہونے اورتعلیم وتدریب سے روشناس ہونے کی دعوت ابن صفی کے ہر ناول کا اہم ترین خاصہ ہے ۔اتنا ہی نہیں بلکہ یہ ناول انسانیت،انصاف ،برابری ،مساوات ، حق و سچائی اور امانت و دیانت داری کی تعلیم بھی دیتے ہیں۔چنانچہ بسااوقات فریدی اور عمران اپنے حریفوں پر قابو پالینے کے باوجود بھی شرافت و انسانیت کا دامن نہیں چھوڑتے ،دشمن کو اتنی ہی سزا دیتے ہیں جس سے وہ رام اور بے بس ہوجائے اور پھر اسے عدالت کے حوالے کر کے دوسرے جرائم پیشہ عناصر کی سرکوبی میں مصروف ہوجاتے ہیں ،ان کے بر خلاف حریف چاہتا ہے کہ اس کا بس چلے تو وہ نہ صرف فریدی و عمران بلکہ ان کے پورے شہر ، نظام اور ملک کو کھنڈر بنا کر رکھ دے ۔نہ اسے دشمنوں کی تمیز ہوتی ہے اورنہ معصوموں کی جانوں کا خیال ۔
اکثر لوگ سوال کر تے ہیں کہ آخر ابن صفی کے ناولوں کا مقصد کیا ہے نیز خود ناول نگار کا مشن کیا ہے؟حالاں کہ ابن صفی کے ناولوں میں خود اس سوال کا جواب موجود ہے تاہم جو اُن کو پڑھتے ہی نہیں ان کی خدمت میں اتنا معروضہ پیش ہے کہ جس وقت پوری دنیا میں افراتفری ،ہاہاکار اور بد امنی کا دور دورہ ہے پھیلا ہوا ہے ۔نہتوں کو بے دریغ قتل و غارت کیا جارہا ہے ۔بلاامتیاز عزت وعصمت پامال کی جارہی ہیں اور بڑی طاقتیں چھوٹے ممالک کو غصب کر رہی ہیں ۔ عالم یہ ہے کہ صبح کو جاگنے والا انسان شام کی عافیت کی یقین دہانی نہیں کراسکتا اور رات کو سونے والے کو دید نیٔ صبح کا یقین نہیں ہے۔ ایسے حالات میں ابن صفی کا مشن ہمہ جہت اور ہر اعتبارسے امن و انصاف کا فروغ ہے۔
وہ چاہتے ہیں انسانیت پھرسے اپنے جامے میں آجائے اور پھر سے دنیا امن و آشتی و محبت و اخوت کا گہوار بن جائے۔ان کی کوشش ہے کہ ابنائے آدم پھر سے اس سبق کو پڑھ لیں جس کی انھیں حق جل مجدہ کی جانب سے تلقین ہوئی تھی ۔وہ انسانیت کا تحفظ اور ان کی زندگی کی ضمانت چاہتے ہیں ۔ اسی طرح وہ اپنی اخلاقی اور ادبی ذمے داری سمجھتے ہوئے پوری دنیا کو ان خطرات سے آگاہے کر نا چاہتے ہیں جو ان کی ہستی اور وجود مٹانے کو بے تاب ہیں ۔یہ وہ خُو ہے جو بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے۔
اردو کے مقبول عام ناول نگاروں میں تنہا ابن صفی ہی اس مشن کے مبلغ نظر آتے ہیں حالاں کہ یہ ہر قلم کار کاقلمی،علمی اور ادبی فریضہ ہے۔پھر بجائے اس کے کہ ابن صفی کے اس مشن کی تائید کی جاتی اور اسے سراہا جاتا ایسا نہ ہو سکا۔جس کا ہر اس انصاف پسند کو ملال ہے جو دنیا میں اچھائیوں کا طالب ہے اور بگڑتی صورت حال اسے خون کے آنسو رلادیتی ہے۔
تقریباً ٢٨سال ابن صفی اپنے اس مشن پر گامزن رہے اور کبھی کسی سے اس کی اجرت طلب نہ کی ۔جس طرح انبیائے کرام علیہم الصلاة والسلام زندگی بھر اپنی امتوں کو عذاب الٰہی سے ڈراتے اور متبعین کو بشارتیں سناتے رہے اور اپنی امت سے کبھی کوئی اجر طلب نہیں کیا۔انھیں دعا دیتے دیتے مولائے حقیقی سے جاملے۔یہی انداز تھا ابن صفی کا اور یہی ان کامدعا تھے کہ
اثر کرے نہ کرے سن تو لے مری فریاد
نہیں ہے داد کا طالب بندۂ ناشاد
ہاں !بہت کم لوگو ں نے یہ فریاد سنی اور وہ ظفریاب ہو گئے ۔

اپنا تبصرہ لکھیں