ابن صفی کی ولایت
آج کل کچھ لوگ ایک صاحب قلم کو ولی ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اس دوڑ میں ہند وپاک اور دیگر جگہ مقیم اہل اردو خود ساختہ و مقبول عام دونوں قسم کے اہل قلم شامل ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ایک ناول نگار جناب ابن صفی ان دنوں لوگوں کی سوچ پر حاوی ہیں۔ ان کے سبھی مداح ان کے کارناموں کو نہ صرف منظر عام پر لانے کے لیے بیتاب ہیں بلکہ انہیں دنیائے ادب کے شہنشاہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔شاید اس لیے کہ حال ہی میں ترقی پسندوں نے منٹو صدی منائی اور اخلاقی اقدار کے حامی ادب نوازوں کے پاس اس وقت کوئی نام موجود نہیں تو اس لیے زبردستی ابن صفی کو آگے بڑھا کر انھیں منصب ولایت تک پہنچانے کے لیے یہ سب تہلکہ مچایا جارہا ہو۔میں منٹو کی تحریروں کو سخت ناپسند کرتا ہوں کیونکہ منٹو کی تحریروں میں صرف ایسی عورت ہوتی ہے جو اپنے جسم کا فائدہ اٹھانا جانتی ہے یا پھر لوگ اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ منٹو اس عمل کو چٹپٹے اور چٹخارے دار انداز میں بیان کرتاہے ۔ پھر اس عورت کو اس کے ساتھی کے ساتھ کمرے میں بند کر قاری کو ان کی گرم سانسیں یا پھر دھمی سرگوشیاں ہی سناتا ہے۔ ابن صفی نے بھی اپنے ناولوں میں یہی کچھ کیا ہے۔ وہ کسی خاتون کا جب حلیہ بیان کرتے ہیں تو منٹو کو بھی اس معاملے میں پیچھے چھوڑدیتے ہیں اور قاری کے ذہن میں اس عورت کا تصور جنم لینے لگتا ہے ۔ جب ابن صفی کی تحریر سے قاری گرما جاتا ہے اور دل ہی دل میں اس کردار خاتون سے لطف اندوز ہونے لگتا ہے تب ابن صفی اس عورت کو اس کے ساتھی کے ساتھ کمرے میں بند کرنے کے بجائے اپنے کسی ہیرو کو وہاں بھیج دیتے ہیں جو اکثر کرنل فرید ہی ہوتا ہے۔ غالبا عمران بھی ایسے ہی موقع پر وارد ہوجاتا ہے۔یوں ابن صفی کسی طرح سے قاری کی دلچسپی اور تشنگی بڑھا کر دوسری جانب موڑ دیتے ہیں۔ ابن صفی کے مداح اسے بے شک اسے یوں تعبیر دے سکتے ہیں کہ ابن صفی منفی جذبات کو مثبت رویہ میں تبدیل کر دیتے ہیں اور یہ سچ بھی ہے ۔ مگر یہ منفی جذبات قاری کے اندر پیدا کرنے والے بھی ابن صفی ہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح منٹو بھی اپنے بعض افسانوں کے اخیر میں درس محبت، انسانیت دینے میں کامیاب رہتا ہے مگر کبھی کبھار ہی ۔منٹو کی ادبی غلاظت چند صفحات بھر کی ہوتی ہیں جبکہ ابن صفی صاحب کے ایک ہی ناول میں کئی اوراق ایک قول کے مطابق منٹو زدہ ہوتے ہیں۔ ابن صفی نے اپنے کرداروں کو بلا کا ذہن دیا لیکن نہ جانے کیوں اس کے تمام اہم کردار شادی سے دور ہیں اور تجرد کی زندگی گذار تے ہیں۔ شاید ابن صفی خیال کرتے ہوں کہ اگر وہ ایسا نہ کریں گے تو اہل و عیال کے جھمیلے میں پھنس کر ان کا ٹیلنٹ خطرے میں پڑ جائے گا۔ اس معاملے میں اپنے ایک کردار قاسم کو ابن صفی نے شادی کے باوجود اپنی بیوی کے قریب بھی نہ جانے دیا اور اسے ہوس کا مارا بھیڑیا بنا رکھا ہے جو لڑکیوں، عورتوں کی بو باس پاتے ہی ان کے پیچھے ہوجانے کا عادی ہے ۔ اکثر اسی وجہ سے خود کو اور دیگر کو پریشانی میں مبتلا کردیتا ہے۔ قاسم ہوس کے مارے جب موقع ملتا ہے عورتوں کی تاک میں لگ جاتا ہے مگر با اخلاق ادیب ہونے کے ناطے ابن صفی قاسم کو لاکھ پاپڑ بیلنے کے باوجود ٹھینگا ہے دکھاتے ہیں۔حمید کا کردار کسی پلے بوائے سے کم نہیں ۔ ابن صفی مانو اسے جمال یوسفی دے بیٹھے ہوں ۔ وہ جوان کم سن سے لے کر ادھیڑ عمر کی عورتوں سے بھی آنکھ لڑاتے رہتا ہے ۔ جن میں سے اکثر کو بڑے آرام سے رام کرلیتا ہے ۔ ابن صفی کی یہ حرکت سمجھ کے باہر ہے ۔ وہ عورتوں کو جو شادی شدہ ہی کیوں نہ اس قابل سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے شوہر یا عاشق سے بے وفائی کر حمید جیسے دھوکہ باز وں کے چنگل میں آجاتی ہے۔ یہ ممکن نہیں۔ کیونکہ کہ دنیا کی ساری عورتیں اس قدر بے غیرت نہیں ہوتی کہ وہ کسی اجنبی سے ایک یا دو ملاقاتوں میں بے حد گھل مل جائیں۔ قاسم، حمید جو کہ ہمیشہ ابن صفی کے ہیرو ہی رہے ہیں ان کے ذہن میں ابن صفی ہر وقت موٹی گالی کو گردش دیتے رہتے ہیں۔ ابن صفی جہاں ناول میں دلچسپی اور تحیر پیدا کرنے میں کامیاب رہتے ہیں وہیں وہ قاری کو اندھیرے میں بھی رکھتے ہیں ۔ جاسوسی ناول پڑھتے یا کسی جاسوسی سریز پر مبنی کہانی یا فلم کو دیکھنے کے بعد قاری ایک اندازہ قائم کرلیتا ہے کہ مجرم کون ہے اس نے کس طرح واردات یا وارداتین انجام دیں ہیں مگر ابن صفی قاری کا یہ حق بھی چھین لیتے ہیں ۔ اکثر ناول کے اخیر میں حمید گرفتار ہوجاتا ہے ۔ فریدی کا بھی کچھ دیر بعد یہی حال ہوتا ہے۔ پھر اچانک دشمن کا دست راست قہقہ بلند کرتا ہے اور کہتا ہے کہ فریدی میں ہوں او ر وہ حصہ جسے قاری کو محروم رکھا گیا اسے اپنے زبانی بیان کرتا ہے مانو خود کی بڑائی کر رہا ہو۔ ابن صفی نے جو کام کیا اس نے انھیں شہرت اور روزگار دونوں فراہم کیے ۔ اب جو لوگ انھیں مرتبہ ولایت پر پہنچانا چاہتے ہوں وہ ان کی مرضی ۔ امید ہے کہ وہ اس تحریر پر ضرور رد عمل کا اظہار کریں گے جواب کا انتظار رہے گا۔
شیخ حیدر(+91) 9325684644nahid_shaikh02@yahoo.in