غزل
ڈاکٹر جاوید جمیل
مان بھی جائیے جو ہوا سو ہوا
اب تو لوٹ آئیے جو ہوا سو ہوا
میری تنہائیاں برف سی ہو گئیں
برف پگھلائیے جو ہوا سو ہوا
مانتے ہیں کہ سمجھوتہ آساں نہیں
دل کو سمجھائیے جو ہوا سو ہوا
اک نیا نغمہ رقصاں فضاؤں میں ہے
ناچئے گائیے جو ہوا سو ہوا
صرف میں نے خطا کی ہو ایسا نہیں
لب نہ کھلوائیے جو ہوا سو ہوا
پختہ وعدۂ ہے وعدۂ نباہیں گے ہم
اب نہ اترائیے جو ہوا سو ہوا
یہ حیا یہ جھجھک چھوڑ بھی دیجئے
اب نہ شرمائیے جو ہوا سو ہوا
پھینکئے گا نہ پتھر برائے کرم
پھول برسائیے جو ہوا سو ہوا
انتظار اور ہوتا نہیں آئیے
اب نہ تڑپائیے جو ہوا سو ہوا
ساری کڑواہٹیں چھوڑیے آئیے
جام پلوائیے جو ہوا سو ہوا
سب کا تھا جو وہ جاوید ہردلعزیز
اس سے ملوائیے جو ہوا سو ہوا
—