غزل
افتخار راغبؔ
دوحہ قطر
اب دکھائیں گے کچھ امکانات رقص
بند کر رقّاصۂ خدشات رقص
روشنی کے ساتھ آئی روشنی
کیوں نہیں کرتے حسیں ذرّات رقص
اک گھڑی کی منتظر تھی زندگی
اک گھڑی کرتی رہی دن رات رقص
تجھ سے دل نالاں نہیں طاؤسِ غم
اچھا لگتا ہے بسا اوقات رقص
ایک ساعت روح کو برما گئی
ذہن میں کرتی رہی اک بات رقص
اور کب تک خون تھوکے زندگی
اور کب تک گردشِ حالات رقص
آب گیرِ دل میں اترا تھا کوئی
اب بھی کرتی ہے بَطِ جذبات رقص
نور پر راغبؔ رہے گا دل مرا
لاکھ دکھلائے شبِ ظلمات رقص