اب یہ چورن نہیں بکنے والا

کشمیر:

باعث افتخار۔ انجینئر افتخار چودھری
کشمیر کا مسئلہ اپنی نوعیت کے لحاظ سے منفرد ہے، اور اس کے ساتھ جڑے حالات و واقعات اکثر نہ صرف سیاسی بلکہ سماجی اور نفسیاتی پہلوؤں کو بھی زیرِ بحث لاتے ہیں۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے جو ظلم و ستم کیے، وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ لاکھوں لوگ شہید کیے گئے، ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کی گئی، گھروں کو جلایا گیا، اور کرفیو لگا کر پوری آبادی کو قید میں بدل دیا گیا۔ بھارت کی پالیسیاں ہمیشہ اپنی زمین بچانے اور کشمیریوں کو دبانے پر مرکوز رہی ہیں، چاہے اس کے لیے کتنے ہی ظلم کیوں نہ کیے جائیں۔
دوسری جانب، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں پاکستان کی پالیسی ہمیشہ مختلف رہی ہے۔ پاکستان نے کشمیری عوام کو اپنا بھائی سمجھا اور ان کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔ بجلی، پانی، اور دیگر وسائل کی قربانی دے کر بھی ان کی حمایت کی۔ پاکستانی ادارے اور فوج اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہیں لیکن کشمیری عوام کے ساتھ ویسا رویہ نہیں اپناتے جو بھارت مقبوضہ کشمیر میں اپناتا ہے۔ یہ پاکستان کی مجبوری نہیں بلکہ اس کے اسلامی اور انسانی اصولوں کا عکاس ہے۔
اب آتے ہیں ایک اور پہلو کی طرف، جو کہ اکثر بحث کا موضوع بنتا ہے: بہادری اور بزدلی کا سوال۔ میرپور کے لوگ بہادر کیوں سمجھے جاتے ہیں، جبکہ دینہ یا دیگر علاقوں کے لوگ بزدل کیوں سمجھے جاتے ہیں؟ یہ سوال جغرافیائی یا جسمانی ساخت سے نہیں بلکہ سماجی حالات اور طاقت کے استعمال سے جڑا ہوا ہے ورنہ میرپور کے لوگ کوئی طاقت کا ٹرننگ نہیں پیتے کہ وہ زیادہ بہادر ہے اور ضلع جلم کے لوگ وہ کھانے کا نہیں ملتا
دوسری جانب، پنجاب یا ہزارہ کے لوگ مختلف حالات سے دوچار رہے ہیں۔ ان پر اکثر وہ ظلم کیے گئے جنہیں دبانا پاکستان کے لیے آسان تھا، کیونکہ ان کے پاس ایسا کوئی بین الاقوامی سیاسی ہتھیار نہیں تھا جو کشمیری عوام کے پاس ہے۔ یہی فرق ہے جو کشمیری عوام کو ایک مضبوط کردار دیتا ہے، جبکہ دیگر علاقوں کے لوگوں کو خاموشی کی جانب لے جاتا ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی زیادہ بہادر ہے یا کم۔
ایک اور حقیقت یہ ہے کہ بہادری یا بزدلی کا تعلق جینز یا جسمانی ساخت سے نہیں بلکہ حالات، تعلیم، اور مواقع سے ہوتا ہے۔ دینہ کے لوگ بھی وہی کھاتے ہیں جو میرپور کے لوگ کھاتے ہیں، دونوں کا کلچر بھی ایک جیسا ہے، لیکن میرپور کے لوگوں پر پاکستان کبھی ایسا ظلم نہیں کر سکتا وگرنہ پنجاب کا ائی جی جو حربے پنجابیوں کے ساتھ اس نے استعمال کیے ہیں وہ مجبوری کی وجہ سے کشمیر میں استعمال نہیں کیے جاتے لہذا یہ نعرے لگانا کہ کشمیری بہادر ہے اور پنجابی بہادر نہیں ہے کشمیری بہادر ہزارے ول بہادر نہیں ہے یہ فضول قسم کا منطق ہے اج کل ایک فیشن بنا ہوا ہے کہ پنجابی بزدل ہے اور کئی لوگ پنجابی ہو کے بھی پنجابیوں کو یہ طعنے دیتے ہیں اور ظالم لوگو اپ کے پی کے کو کرتے ہیں جی بڑا بہادر ہے اپ کشمیر کو کہتے ہیں جی بڑے بہادر لوگ ہیں پتہ چلتا ہے نا اگر وہاں حکومت مریم کی ہوتی تو پھر دیکھتے نا کہ کس طرح بہادری دکھاتے ہیں وہاں پہ کے پی کے میں ہماری حکومت ہے تحریک انصاف کی حکومت ہے وہ مزے سے الیکشن لڑتے ہیں جن دنوں میں 2024 کا الیکشن ہوا وہاں نوید بتا رہا تھا کہ جب علی محمد خان کے حلقے میں گیا تو اتنے مزے سے وہاں پہ لوگ الیکشن لڑ رہے تھے تقریریں ہو رہی تھی جھنڈے لگے ہوئے تھے اور ادھر پنڈی میں جناب ہم گھروں میں چھپ رہے تھے اور چھپ کر اس وجہ سے نہیں رہے کہ پاکستان کی سیاست میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ظالم لوگوں نے ماؤں بہنوں کو استعمال کیا ہے پنجاب کو گالیاں مت دیں سب سے زیادہ ٹیکس پنجابی لوگ دیتے ہیں بجلی کے بل سب سے زیادہ دیتے ہیں
یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ کشمیری سب سے زیادہ بہادر ہیں اور دوسرے نہیں۔ ہر علاقے کے لوگ اپنے حالات کے مطابق ردعمل دیتے ہیں۔ کشمیریوں نے اپنی جدوجہد کو برقرار رکھا کیونکہ ان کے پاس کھونے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا، جبکہ پنجاب اور دیگر علاقوں میں عوام کو اپنے معاشی اور سماجی تعلقات کا خوف ہوتا ہے۔
یہ بھی اہم ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت جو کچھ کرتا ہے، وہ اپنی زمین بچانے کے لیے ہے۔ وہ کشمیریوں کو انسان نہیں بلکہ ایک مسئلہ سمجھتا ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان کشمیریوں کو اپنے بھائی سمجھ کر ان کے ساتھ وہ ظلم نہیں کرتا جو بھارت کرتا ہے۔ یہاں پاکستانی ادارے اپنی قربانیاں دیتے ہیں تاکہ کشمیری عوام محفوظ رہیں۔بریانہ ڈار سیالکوٹ کی رہنے والی ہے نا اور وہ بھی کشمیری ہے ڈار ہے نا اس سے ساتھ جو پنجاب پولیس نے کی ہے کیا یہی پنجاب پولیس چند کلومیٹر کے فاصلے پر کسی کشمیری خاتون کے ساتھ یہ کر سکتی ہے وہ جس کی بات میں کر رہا ہوں کہ پاکستان کشمیر کے ساتھ ایسا کرے گا تو کشمیر اس کے ہاتھ سے نکل جائے اور میں اپ کو بتا رہا ہوں کہ رائے شماری کا وقت قریب ہے سازش یہ ہے کشمیریوں کے ساتھ کوئی اس طرح کا ظلم کیا جائے اسی طرح کا کوئی ایک چلنے والا باغ وہاں پہ ہو جائے اور اس کے بعد اقوام متحدہ داخل ہوگی اور کشمیر کو ازاد کروا لے گی یہ تیمور کا واقعہ یاد ہے نا اپ کو کتنے غم ہے وہاں پہ ہوئے تھے انڈونیشیا اور وہاں پہ خریز نامے ہوئے اور اس کے بعد،، تیمور ،،کے لوگوں کو کہا گیا کہ اپ ووٹ کریں کیا انڈونیشیا کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا نہیں اور وہ کرسچن کمیونٹی تھی ان کا ملک کا الگ بن گیا اور پھر جنوبی سوڈان میں کیا ہوا ان کے ساتھ بھی ایسے ہی ہوا اور وہ بھی غلط ملک بن گیا اقوام متحدہ کے دورے میں ا رہے ہیں پاکستان کو کمزور کرنے کی ایک بڑی سازش ہے اور پاکستانی حکومت ہوش کے ناخن لے کشمیری اگر تین روپے یونٹ بجلی کا خرید رہے ہیں تو ان کو مفت بھی دے تو اچھا ہے اور الحاق پاکستان کے خلاف کشمیری بھی مجبوری سے فائدہ اٹھا رہے ہیں
آخر میں یہ کہنا ضروری ہے کہ بہادری اور بزدلی کے یہ القابات صرف معاشرتی دھارے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ ہر قوم اور ہر علاقے کے لوگ اپنے حالات کے مطابق جیتے اور لڑتے ہیں۔ کشمیری، پٹھان، پنجابی، ہزاروی، یا بلوچی، سب کے دل ایک جیسے دھڑکتے ہیں، سب کے جذبات ایک جیسے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ حالات کس طرح انہیں آزماتے ہیں۔اور دوسری بڑی بات یہ فارم 47 والی حکومت جو ہے نا اس کو عقل اور شعور ہے ہی نہیں یہ اس طرح کا ایک داماد کرتی ہے کہ ملک ٹوٹے اب پٹھانوں کے ساتھ جو سلوک کیا ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ اپ ڈی چوک سے بھاگے کیوں اور ظالموں اپ کو تو ذرا بھی عقل اور سمجھ نہیں ہے کہ نہتے لوگوں کے اوپر گولی چلانے والے اپ کیسے بہادر ہو گئے ہاں البتہ کشمیر کے ساتھ ان کا معاملہ اور ابھی تک درست جا رہا ہے جس دن مظفراباد کا کوئی ڈی چوک بنا تو ان کو پتہ ہے کہ کشمیر ہمارے ہاتھ سے جائے گا اب کشمیریوں کا ساتھ جو رشتہ کے لا الہ الا اللہ وہ کوئی بھی نہیں اس منطق کو مانتا یہ چورن اب نہیں بکنے والا

اپنا تبصرہ لکھیں