اترا ہے ایک حسن قیامت کا شہر میں


ڈاکٹر جاوید جمیل
 
طوفاں ہر ایک دل میں ہے حسرت کا شہر میں
اترا ہے ایک حسن قیامت کا شہر میں

وعدوں کے انہدام کی تاریخ ہے طویل
تعمیر کیا محل ہو محبت کا شہر میں

ناراض ہوکے ہاتھ جھٹک کر چلے گئے
فالودہ خوب نکلا ہے عزت کا شہر میں

اندیشہ۶_ فساد سے ہر گھر میں خوف ہے
اک جن پھر رہا ہے شرارت کا شہر میں

(جن کے ن پر تشدید ہے)

ہر لب پہ یہ دعا ہے ہر اک دل میں یہ امید
آئے کوئی فرشتہ محبّت کا شہر میں

دولت کا گہرا ربط سیاست سے ہو گیا
فقدان ہر طرف ہوا برکت کا شہر میں

کر دوں اسے بھی تیرے تصور کے نام میں
مل جائے ایک لمحہ ہی فرصت کا شہر میں

جاوید تو نے کیسے کیا فتح اس کا دل
چرچا ہے خوب تیری ذہانت کا شہر میں

 
 

 

— 

اپنا تبصرہ لکھیں