تحریر ! محمد اکرم خان فریدی
کسی بھی ریاست میں قائم شدہ حکومت کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ مسائل کو حل کرنے کے لئے عوام کو زیادہ سے زیادہ حکومتی امور میں شریک کیا جائے جو کہ صرف مقامی حکومت کے قیام کے بعد ہی ممکن ہے ۔کیونکہ مقامی لوگ ہی مقامی وسائل کو استعمال میں لاکر مقامی مسائل کو حل کرنے کی بہتر صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں ۔عظیم سیا سی مفکرین کے خیال میںجمہوریت کی ترقی مقامی حکومت کے ادارے کے بغیر ممکن نہیں جبکہ اُن کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ مقامی حکومتوں کے ادارے ہی ہیں جنکے ذریعے جمہوری قدروں کو فروغ دیا جا سکتا ہے اس لئے کہ مقامی حکومت کے ادارے شہریوں کو حقوق و فرائض سے آگاہی حاصل کرنے کے مواقع فراہم کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ ہوکر اپنے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں ۔یہ ادارے نہ صرف عوام میں اپنے مسائل خود حل کرنے کے لئے راہیں تلاش کرنے کا شعور پیدا کرتے ہیں بلکہ عوام مقامی طو پر نظم و نسق کا تجربہ حاصل کرتے ہیں اور پھر یہ تجربہ قومی سطح پر بہت مفید ثابت ہوتا ہے ۔فی الحقیقت یہ وہ سطح ہے جہاں قوم کے مستقبل کے رہنمائوں کو نظم و نسق کی مسلسل تربیت دی جاتی ہے جسکی بناء پر ملک میں قومی لیڈر شپ کا خلاء پیدا نہیں ہونے پاتا۔مقامی حکومتوں میں شمولیت سے لوگوں کو نہ صرف اپنے علاقے کی انتظامیہ کو سمجھنے اور چلانے کا شعور ملتا ہے بلکہ لوگوں کو اعلیٰ سطح کی صوبائی اور مرکزی انتظامیہ اور دیگر سرکاری اور نیم سرکاری اداروں کی انتظامیہ کے معاملات کو سمجھنے کا موقع بھی ملتا ہے ۔مقامی حکومت کے پیروکار اگر اس نظام کی افادیت کے زکر میں مصروف رہیں تو شائد ہی اس زکر کا خاتمہ ہو سکے لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اس نظام کی اتنی افادیت کے باوجود ہمارے پیارے پاکستان کے مفاد پرست حکمرانوں کی عوام دشمن پالیسیوں کی وجہ سے اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی محض ایک خواب بنتا جا رہا ہے اور مقامی حکومتوں کا تصور ختم ہو کر رہ گیا ہے ایک طرف دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مقامی سطح پر عوام کے منتخب نمائندوں کی حکومت ہوگی تو دوسری طرف بہت سارے اختیارات عوامی نمائندوں کے انتخاب کے بعد انہیں سونپنے کی بجائے بیوروکریسی کو سونپ دئیے گئے جبکہ یہ حکومت کے سوچنے کی بات ہے کہ بیوروکریسی اس نظام کی کامیابی کی راہ میں کیا رکاوٹیں پیدا کر رہی ہے یا کرتی رہی ہے اور شائد اسی بناء پر اوپر سے نچلی سطح پر اختیارات کی تقسیم کی یقین دھانیوں پر عملدرآمد کی کوئی موثر اور نتیجہ خیز صورت ابھی تک سامنے نہیں آئی ۔یہ درست ہے کہ اس نظام کو چلانے کے لئے بعض تبدیلیوں کی ضرورت ہے لیکن اگر حکمران حقیقی معنوں میں اس نظام کو چلانے کے لئے سنجیدہ ہوںتو یقیناً اس میں خاطر خواہ تبدیلیاں لا کر مقامی حکومتوں کے نظام کو عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے ۔جب حکومت نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی کو یقینی بنادے گی تو یقیناً مقامی حکومتوں کے نمائندے ذمہ داری محسوس کرتے ہوئے صحت و صفائی ،خراب عمارات کے امور ،صفائی ستھرائی،قبرستانوں کی دیکھ بھال ،پانی کی بہم رسانی،نکاسی آب کے لئے سیوریج سسٹم کی بحالی ،پانی کے نکاس کی سکیمیں تیار کرنا،پرائیویٹ مارکیٹوں سے متعلقہ امور کو کنٹرول کرنے ،ذبح خانوں کی تعمیرات ،مردہ جانوروں کو تھکانے لگانا ،تعلیمی ادارے قائم کرنے کے بعد لوگوں کی اعلی تعلیم تک رسائی دلوانا،شہری دفاع،سیلاب کی روک تھام ،شہری منصوبہ بندی،ترقیاتی سکیموں کی تیاری،عمارات کے متعلق قوانین،شہریوں کی سہولت کے لئے عام گلی کوچوں اور آمدورفت کے لئے عام سڑکوں کی تعمیر اور انکا انتظام،تجاوزات کی روک تھام ،گلی کوچون میں روشنی کے مناسب انتظام ،عام گلیوں میں پانی کے چھڑکائو کا انتظام ،لوگوں کے مفاد کے لئے آمدو رفت کا کنٹرول ،پبلک گاڑیوں سے متعلق فرائض کی انجام دہی،صحت عامہ کو فروغ دینا ،مراکز صحت و زچگی اور عورتوں اور شیر خوار بچوں کی بہبودی کے مراکزقائم کرنا،ہسپتال اور شفاء خانوں کا قیام ،طبی امداد اور سہولتوں اور طبی تعلیم عام کرنے کے اقدامات کرنا،دھوبی اور دھوبی گھاٹ سے متعلق قوانین بنانا ،پتن ہائے عام کا انتظام و انصرام ،مچھلی کی عام شکار گاہوں کی حیثیت مقرر کرنا،کھانے پینے کی اشیاء سے متعلق زیلی قوانین ،دودھ کی فراہمی کا بندوبست،عوامی منڈیوں کا قیام ،حیوانات کے علاج کے لئے شفاء خانے قئم کرنا،مویشی خانے اور مویشیوں کی پرورش گاہیں ،مویشیوں کی فروخت کا رجسٹر میں اندراج کرنا،مویشیوں کی افزائش کے لئے اقدامات کرنا،قحط کی صورت میں ضروری انتظامات کرنا ،لوگوں کو تفریح و آسائش کے لئے باغات لگانا ،لائبریریوں کا قیام ،میلے اور نمائش لگانا،اپنی حدود میں رہنے والے شہریوں کی معاشرتی بہبود کے کام کرنا اور مناسب جگہوں پر شجر کاری کے ساتھ ساتھ بہت سارے ایسے امور ہیں جنکی نگرانی کے زریعے مقامی حکومتوں کے عوامی نمائندے عوام تک با آسانی ثمرات پہنچا سکتے ہیں ۔لیکن افسوس کے ہمارے ملک کے حکمران عوام تک بنیادی سہولتوں کی فراہمی کو اپنے اختیارات میں کمی کا باعث سمجھتے ہوئے لوکل گورنمنٹ سسٹم کو کامیابی کی طرف لیجانے کی بجائے اسکی ناکامی کے لئے ہر قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں کو آزماتے ہیں ۔امریکہ جیسا ترقی یافتہ ملک جہاں مقامی حکومتوں کا نظام دنیا کا طاقتور ترین جمہوری نظام تصور کیا جاتا ہے وہاں مقامی حکومتوں کے وجود کی بدولت عوام بنیادی سہولتوں سے محروم نہیں بلکہ عوام تک ہر قسم کی بنیادی سہولت مقامی حکومتوں کے ذریعہ منتقل ہو رہی ہے لیکن ہمارے ہاں تو مقامی حکومتوں کے نظام کا بیڑہ ہی غرق کر دیا گیا ہے اور اسکی افادیت سے مکمل طور پر عوام کو محروم کر دیا گیا ہے ۔موجودہ حکومت شائد اس خوف سے مقامی حکومتوں کے انتخابات میں تاخیر برت رہی ہے کہ شائد ملک میں صوبائی اور قومی اسمبلی کے اراکین اور مقامی نمائندوں کے درمیان اختیارات اور سہولیات کی نئی جنگ نہ چھڑ جائے ۔یہ حقیقت ہے کہ ہمارے ملک میں موجود جعلی ڈگریوں والے اراکین اسمبلی اختیارات سے بہت محبت کرتے ہیں لیکن اسمبلیوں میں ایسے اراکین بھی موجود ہیں جو اختیارات سے محبت کی بجائے پاکستان سے محبت کو ترجیح دیتے ہیں ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ہمیں ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت ہے جو پاکستان سے محبت کو اپنی عبادت سمجھتے ہوئے عوام کی خدمت کرے اور حکومتی اختیارات اپنے تک محدود کرنے کی بجائے عوام تک انکی منتقلی کو یقینی بنائے جبکہ ایسی قیادت کی قطعی ضرورت نہیں جو عوام کو بنیادی سہولتوں سے محروم کرنے کو اپنی بنیادی ذمہ داری تصور کریں ۔ قائد اعظم کے قریبی ساتھی اور عظیم سیاسی مفکر چوہدری مشتاق احمد ورک آف کلے ورکاں کے خیال میں کہ پاکستان میں اختیارات کی عوام تک منتقلی کے بغیر نہ تو ترقی کا تصور کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی عوامی خوشحالی کی ضمانت دی جا سکتی ہے لہذا کوئی بھی حکمران اگر حقیقی معنوں میں عوام کی خدمت کا جذبہ رکھتا ہے تو اسے بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے بعد اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کو یقینی بنانا ہو گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محمد اکرم خان فریدی (کالم نگار)،624ایف،سیٹلائٹ ٹائون ،راولپنڈی
فون نمبر :03024500098