ادبی دائجسٹ
تحریر راشد اشرف
ہر وہ شخص جو سن اسی کی دہائی میں کراچی سے شائع ہونے والے ڈائجسٹ پڑھتا رہا ہے، اقیلم عیلم کے نام سے بخوبی واقف ہے۔ سسپنس ڈائجسٹ میں شائع ہونے والے مشہور سلسلے “موت کے سوداگر” اور “مفرور” آج بھی لوگوں کے ذہنوں میں تازہ ہیں۔ ڈائجسٹوں کا شمار ادب میں نہیں کیا جاتا، یہ الگ بات ہے کہ ان سے واپستہ کئی لوگ ادب میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ جون ایلیا کے عالمی ڈائجسٹ اور شکیل عادل زادہ کے سب رنگ کا شہرہ تو چہار دانگ عالم میں رہا۔ شکیل صاحب نے تو سب رنگ کو اس معیار پر پہنچا دیا تھا جس کی گرد کو بھی کوئی نہ پہنچ سکا۔ ایک زمانے تک سب رنگ میں شائع ہونے والے مضامین، افسانوں کے انتخاب اور عالمی ادب سے کیے جانے والے تراجم کی دھوم مچی رہی۔ افسوس کہ اب یہ دونوں مرحوم ہوچکے ہیں۔ ماہانہ سرگزشت نے ان دونوں پرچوں کی کمی خاصی حد تک پوری کی جسے ڈاکٹر ساجد امجد اور علی سفیان آفاقی جیسے لکھنے والے میسر آئے جنہوں نے اپنی تحریروں سے پرچے کو معیار کے اعلی درجے تک پہنچا دیا۔ اسی طرح لاہور سے نکلنے والے اردو ڈائجسٹ اور سیارہ ڈائجسٹ بھی بلاشبہ انتہائی معیاری پرچے کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔بقول شخصے جب اردو ڈائجسٹ جناب الطاف حسن قریشی کی ادارت میں ایک نئی سج دھج سے شائع ہوا تھا۔ اس وقت ادبی پرچوں کا سورج تقریبا غروب ہو رہا تھا اور ایک نئے پرچے کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی تھی۔ یہ اردو کا پہلا پرچہ تھا جس نے زندگی اور بندگی کے ہر شعبے کی نمائندگی کی تھی۔ موت کے سوداگر اور مفرور کے مصنف اقلیم علیم نے کسی بھی اخبار کو پہلی مرتبہ انٹرویو دیا ہے،تصاویر یہ مزین یہ انٹرویو روزنامہ امت میں دو اقساط کی صورت میں یکم اور دو اپریل 2012 کو شائع ہوا۔ زیر نظر پوسٹ کے ہمراہ انٹرویو کی پی ڈی ایف فائل منسلک ہے۔ دیوتا کے مصنف محی الدین نواب کی ایک تصویر بھی منسلک کی جارہی ہے اور نواب صاحب کا مختصر تعارف بھی قارئین کی دلچسپی کے لیے پیش خدمت ہے اقلیم علیم اپنی خدنوشت لکھنے میں مصروف ہیں۔ ڈائجسٹ میں لکھنے والے ہر مصنف کی طرح ابن صفی، اقلیم علیم کے بھی آئیڈیل رہے ہیں، مذکورہ انٹرویو کے آخر میں اقلیم صاحب نے بیان کیا ہے کہ ابن صفی عمر کے آخری حصے میں علاج کی غرض سے بیرون ملک گئے تھے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ ابن صفی صاحب کا علاج کراچی میں واقع رب میڈیکل اسپتال کے مالک ڈاکٹر رب نے کیا تھا، ان کے علاوہ وہ ڈاکٹر سید اعجاز اور ڈاکٹر سید حسن منظور زیدی کے زیر علاج بھی رہے لیکن علاج کے لیے کسی بھی موقع پر بیرون ملک نہیں گئے تھے۔