اوروں میں نظر آئیں تو ٹالے نہیں جاتے
اپنے ہوں اگر عیب اچھالے نہیں جاتے
پتھر ترا لہجہ مرا شیشے کا دل ہے
پتھر کبھی شیشوں میں سنبھالے نہیں جاتے
قندیل کی حاجت ہے سیاہی کو دلوں کی
جگنو سے کبھی غار اجالے نہیں جاتے
اک بار محبت کا سفر دل نے کیا تھا
اس دن سے بیچارے کے چھالے نہیں جاتے
ہر شخص کادل چاک نہیں عشق گری کا
سو عشق کے بت سب سے تو ڈھالے نہیں جاتے
اس دور کے انساں سے وفاؤں کی طلب کیوں
دریا کبھی صحرا سے نکالے نہیں جاتے
سوچ کی مکڑی جو لگاتی ہے ذہن میں
ہاتھوں سے اتارے تو وہ جالے نہیں جاتے
زندان کے تالوں کو بہت توڑنے والے
توڑے مگر ہونٹوں کے تالے نہیں جاتے
سو عیب گناتے ہیں شرابوں کے شرابی