تحقیق و ترتیب : ڈاکٹر شہلا گوندل
2024 کے نوبیل انعام برائے ادب کی حقدار جنوبی کوریا کی معروف مصنفہ ہان کانگ بنیں۔ انہیں یہ انعام ان کی “شدید شاعرانہ نثر” کے لیے دیا گیا، جو انسانی زندگی کی ناپائیداری اور تاریخی صدمات کا گہرائی سے احاطہ کرتی ہے۔
ہان کانگ کا شمار کوریا کے ان ممتاز ادیبوں میں ہوتا ہے جنہوں نے نہ صرف ملکی بلکہ عالمی سطح پر اپنی منفرد تحریروں کے ذریعے ادب کے معیار کو بلند کیا۔ ان کے کام میں گہرے فلسفیانہ موضوعات، انسانی جسم اور روح کے درمیان پیچیدہ تعلقات، اور ماضی کے سانحات کا بیان شامل ہے۔
ہان کانگ کی مشہور تصانیف میں “دی ویجیٹیرین” شامل ہے، جس نے انہیں عالمی شہرت دلائی۔ اس ناول میں ایک عورت کی کہانی بیان کی گئی ہے جو گوشت کھانے سے انکار کرتی ہے اور یہ انکار آہستہ آہستہ سماجی، ثقافتی اور ذاتی کشمکش میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس کتاب نے قارئین کو انسانی آزادی، دباؤ، اور مزاحمت کے موضوعات پر گہرائی سے سوچنے پر مجبور کیا۔
ان کی دیگر اہم تصانیف میں “ہیومن ایکٹس” شامل ہے، جو 1980 کی گوانگجو قتل عام کے گرد گھومتی ہے۔ اس ناول میں انہوں نے اجتماعی جبر اور انفرادی تجربات کی عکاسی کرتے ہوئے تاریخی صدمات کو نہایت طاقتور انداز میں بیان کیا ہے۔
ہان کانگ کی تحریروں کو ان کی شاعرانہ خوبصورتی اور نفسیاتی گہرائی کے لیے سراہا جاتا ہے۔ ان کا اسلوب اکثر سادہ لیکن پراسرار ہوتا ہے، جو قارئین کو انسانی جذبات اور حقیقتوں کے پوشیدہ پہلوؤں سے روشناس کراتا ہے۔ ان کی کہانیوں میں اکثر ظلم، جسمانی تشدد، اور صدمات کا ذکر ہوتا ہے، لیکن وہ ان موضوعات کو انسانی فطرت کے بارے میں گہری تفہیم کے ساتھ پیش کرتی ہیں۔
نوبیل کمیٹی نے ہان کانگ کے کام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کی تحریریں انسانی زندگی کی نزاکت اور صدمات کے اثرات کو نمایاں کرتی ہیں۔ ان کے کام نے قارئین کو اپنے اندر جھانکنے اور دنیا کے بارے میں نئے انداز میں سوچنے کی ترغیب دی۔
ہان کانگ کے نوبیل انعام جیتنے کے بعد کورین ادب کو عالمی سطح پر مزید پذیرائی ملی ہے۔ ان کی کامیابی نے نہ صرف کوریا بلکہ ایشیا بھر کے دیگر ادیبوں کے لیے ایک نئی راہ ہموار کی ہے۔
ہان کانگ کی ادبی خدمات ان کے قاری کو یاد دلاتی ہیں کہ ادب نہ صرف تفریح کا ذریعہ ہے بلکہ یہ انسانیت کے گہرے تجربات کو سمجھنے کا ایک اہم ذریعہ بھی ہے۔
نوبل انعام برائے ادب 1901 سے ہر سال ان ادیبوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے ادب کے میدان میں نمایاں خدمات انجام دی ہیں۔ اب تک 117 مرتبہ یہ انعام 121 ادیبوں کو دیا جا چکا ہے۔
نوبل انعام یافتہ ادیبوں کی مکمل فہرست اور ان کے کارناموں کی تفصیلات نوبل پرائز کی سرکاری ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔
چند منتخب لوگوں کے نام درج ذیل ہیں
مزید تفصیلات کے لیے ویب سائیٹ :
https://www.nobelprize.org/prizes/lists/all-nobel-prizes-in-literature/
1901-1910
1. 1901: سولی پرودھوم (فرانس) – ان کی شاعری اور فلسفیانہ تحریریں۔
2. 1902: تھیوڈور مومسن (جرمنی) – قدیم روم پر ان کی تاریخی تحریریں۔
3. 1903: بیورنستیرن بیورنسن (ناروے) – نارویجین ادب میں ان کا کردار۔
4. 1904: فریڈرک مسترال (فرانس)، جوزے ایچےگاری (اسپین) – شاعری اور ڈراما۔
5. 1905: ہنریک سینکیوچ (پولینڈ) – ان کے تاریخی ناول۔
6. 1906: گوسیپے کارڈوچی (اٹلی) – ان کی شاعری۔
7. 1907: روڈیارڈ کپلنگ (برطانیہ) – ان کے ناول اور کہانیاں۔
8. 1908: روڈولف کرسٹوف ایوکن (جرمنی) – فلسفیانہ تحریریں۔
9. 1909: سیلما لاگرلوف (سویڈن) – سویڈش ناول نگاری۔
10. 1910: پال ہائزے (جرمنی) – شاعری اور افسانے۔
1911-1920
11. 1911: ماریہ رولینڈسن (بیلجیئم) – شاعری۔
12. 1912: گیرہارٹ ہاپٹمین (جرمنی) – ڈراما۔
13. 1913: رابندر ناتھ ٹیگور (بھارت) – شاعری۔
14. 1915: رومن رولان (فرانس) – ناول اور ڈراما۔
15. 1916: ورڈاڈم ہیلیم بئرنسٹر (ڈنمارک) – شاعری۔
16. 1917: کارل گیللروپ، ہینریک پونٹوپیدان (ڈنمارک) – شاعری اور ناول۔
17. 1919: کارل اسپٹیلر (سوئٹزرلینڈ) – شاعری۔
1921-1930
18. 1923: ڈبلیو بی یِیٹس (آئرلینڈ) – شاعری۔
19. 1925: جارج برنارڈ شا (آئرلینڈ) – ڈراما۔
20. 1926: گرازیا ڈیلیڈا (اٹلی) – ناول۔
21. 1929: تھامس مان (جرمنی) – ناول۔
1931-1940
22. 1932: جان گالزورتھی (برطانیہ) – ناول۔
23. 1938: پرل ایس بَک (امریکہ) – ناول۔
1941-1950
24. 1945: گیبریلا میسترال (چلی) – شاعری۔
25. 1949: ولیم فاکنر (امریکہ) – ناول۔
26. 1950: برٹرینڈ رسل (برطانیہ) – فلسفیانہ تحریریں۔
1951-1960
27. 1953: ونسٹن چرچل (برطانیہ) – تاریخی تحریریں۔
28. 1954: ارنسٹ ہیمنگوے (امریکہ) – ناول۔
29. 1957: البرٹ کامو (فرانس) – فلسفیانہ ادب۔
1961-1970
30. 1962: جان اسٹین بیک (امریکہ) – ناول۔
31. 1964: ژاں پال سارتر (فرانس) – فلسفہ، لیکن انہوں نے انعام لینے سے انکار کر دیا۔
32. 1969: سیموئل بیکٹ (آئرلینڈ) – ڈراما۔
1971-1980
33. 1971: پابلو نیرودا (چلی) – شاعری۔
34. 1975: ایجینیو مونتالی (اٹلی) – شاعری۔
35. 1980: چیسیوا میواوش (پولینڈ) – شاعری۔
1981-1990
36. 1982: گیبریل گارشیا مارکیز (کولمبیا) – ناول۔
37. 1988: نجیب محفوظ (مصر) – عربی ادب۔
1991-2000
38. 1993: ٹونی موریسن (امریکہ) – ناول۔
39. 1997: ڈاریو فو (اٹلی) – ڈراما۔
2001-2010
40. 2006: اورحان پاموک (ترکی) – ناول۔
41. 2009: ہیرٹا مولر (جرمنی) – ناول۔
2011-2024
42. 2016: باب ڈیلن (امریکہ) – شاعری اور نغمہ نگاری۔
43. 2021: عبدالرزاق گورنا (تنزانیہ) – ناول۔
44. 2023: جون فوسے (ناروے) – ڈراما۔
نوبل انعام برائے ادب 1901 سے لے کر آج تک ایسے ادیبوں کو دیا جاتا ہے جنہوں نے اپنی تحریروں میں انسانی تجربات، جذبات، اور مسائل کی گہرائی کو بے مثال انداز میں پیش کیا۔ اس انعام کا پہلا حقدار 1901 میں فرانسیسی شاعر اور فلسفی سولی پرودھوم کو قرار دیا گیا، جن کی شاعری اخلاقیات اور جمالیات کے حسین امتزاج کی عکاس تھی۔ 1902 میں تھیوڈور مومسن کو ان کی تاریخی تصانیف کے لیے نوازا گیا، جنہوں نے قدیم روم کی تاریخ پر بے نظیر تحقیق پیش کی۔
1923 میں آئرش شاعر ڈبلیو بی یِیٹس کو ان کی شاعری کی خوبصورتی اور روحانی گہرائی کے لیے منتخب کیا گیا۔ 1925 میں جارج برنارڈ شا کو ان کے ڈراموں میں سماجی مسائل کی عکاسی اور مزاحیہ انداز میں اصلاحات کی ترغیب دینے پر نوبل انعام دیا گیا۔ 1946 میں ہرمن ہیس کو ان کے فلسفیانہ ناول “سدھارتھ” کے لیے اس اعزاز سے نوازا گیا، جس میں مشرقی فلسفے اور انسانی روح کی تلاش کو اجاگر کیا گیا۔
1954 میں ارنسٹ ہیمنگوے کو ان کے ناول “دی اولڈ مین اینڈ دی سی” کے لیے انعام دیا گیا، جس نے انسانی عزم اور فطرت کے ساتھ جدوجہد کو شاعرانہ انداز میں بیان کیا۔ 1962 میں امریکی ادیب جان اسٹین بیک کو ان کے سماجی مسائل پر مبنی ناولوں، خاص طور پر “دی گریپس آف ریتھ” کے لیے یہ اعزاز دیا گیا، جس میں اقتصادی بدحالی کے اثرات کا اثر انگیز بیان شامل تھا۔
1982 میں کولمبیا کے گیبریل گارشیا مارکیز کو ان کے ناول “ون ہنڈرڈ یئرز آف سولیچیوڈ” کے لیے نوبل انعام ملا، جس نے جادوئی حقیقت نگاری کو عالمی سطح پر متعارف کرایا۔ 1988 میں مصری ادیب نجیب محفوظ عرب دنیا کے پہلے نوبل انعام یافتہ ادیب بنے، ان کے ناولوں نے مصری معاشرت اور سماجی تبدیلیوں کی منفرد تصویر کشی کی۔
1993 میں امریکی ادیبہ ٹونی موریسن کو ان کے ناولوں میں افریقی نژاد امریکی تجربات اور نسل پرستی کے اثرات کو شاعرانہ انداز میں بیان کرنے پر نوبل انعام دیا گیا۔ 2016 میں امریکی گلوکار اور شاعر باب ڈیلن کو ان کی نغمہ نگاری اور شاعری میں نئے امکانات پیدا کرنے پر یہ انعام دیا گیا۔ 2021 میں تنزانیہ کے عبدالرزاق گورنا کو ان کے ناولوں میں پناہ گزینوں کی زندگیوں اور نوآبادیاتی اثرات کی غیر جانبدارانہ تصویر کشی کے لیے نوازا گیا۔
اردو ادب کے تناظر میں سعادت حسن منٹو، فیض احمد فیض، اور قرۃ العین حیدر جیسے ادیبوں کی تحریریں نوبل انعام کے معیار پر پورا اترتی ہیں۔ منٹو نے انسانی نفسیات اور معاشرتی منافقت کو بے نقاب کیا، جبکہ فیض کی شاعری عالمی انقلابی تحریکوں کی ترجمان بنی۔ قرۃ العین حیدر نے اپنے ناولوں میں ہندوستانی تاریخ اور ثقافت کی شاندار عکاسی کی۔ نوبل انعام کے ذریعے ادب کے ان شہ پاروں کو عالمی سطح پر پذیرائی ملی جو انسانی تجربات کی عکاسی کرتے ہوئے دل و دماغ کو جھنجھوڑتے ہیں۔