ادیبوں کی حیران کر دینے والی عجیب عادات کا اِنسان کے ساتھ بہت گہرا رشتہ ہے۔ ہر دور کا ادب اپنے عہد کا آ ئینہ ہوتا ہے۔ کامیاب ادیب اسی کو کہا جاتا ہے جو اپنی تحریروں میں اپنے اردگرد پیش رُونما ہونے والے واقعات، معاشرتی رویوں اور بدلتے رجحانات کی تہذیبی اقدار اور طرزِ زندگی میں ہونے والی تبدیلیوں کی بھرپور عکاسی کرسکے۔ شاید اسی لیے ادیب کو اپنے عہد کا حقیقی عکاس سمجھا جاتا ہے۔ ادیب اور قاری کا رشتہ اسی صورت میں مستحکم ہو سکتا ہے جب پڑھنے والے کو اس کی تحریروں میں اپنی زندگی کی تصویر نظر آئے اور وہ ان تحریروں کو اپنے دل کی آواز سمجھے۔
وہ لوگ جو ادب سے لگائو رکھتے ہیں اور مطالعے سے جن کو خاص شغف ہے وہ یقینا مشہور و معروف ادیبوں کی کتابوں کے بارے میں کچھ نہ کچھ جانتے ہیں۔ لیکن لکھتے وقت یہ بڑے ادیب جو عجیب و غریب طریقے اختیار کرتے ہیں، ان سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ حالانکہ وہ نہایت دلچسپ ہیں۔ یہ ادیب لکھتے وقت نہایت منفرد اور دلچسپ انداز اختیار کرتے تھے اور عام قاری بھی یقینا جاننا چاہتا ہے کہ اُس کا پسندیدہ ادیب کیسے اتنی منفرد و شاہکار تحریریں تخلیق کر ڈالتا ہے۔
اس مضمون میں ہم ان چند مشہور ادیبوں کے متعلق جاننے کی کوشش کریںگے جو بڑے انوکھے انداز سے اپنے ادبی شہ پارے تخلیق کرتے تھے۔
اُردو کے مشہور اور منفرد افسانہ نگار سعادت حسن منٹو لکھتے وقت صوفے پر بیٹھ کر دونوں گھٹنے سکیڑ لیتے اور ایک چھوٹی سی پنسل سے لکھتے۔ افسانہ شروع کرنے سے پہلے وہ 786ضرور لکھتے تھے جو بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ہم معنی سمجھا جاتا ہے۔
اُردو کے مشہور افسانہ نگار اور ناول نگار کرشن چندر تنہائی میں کمرا بند کرکے لکھتے تھے۔ ایک بار ان کی بیگم نے چپکے سے کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ کرشن چندر اردگرد سے بے خبر اپنے لکھنے کے پیڈ پر جھکے ہوئے تھے۔ اس لمحے ان کا چہرہ بہت گمبھیر، بھیانک اور اجنبی سا لگا، تیوریاں چڑھی ہوئی تھیں، ہونٹ بھینچے ہوئے تھے اور ان کے ہاتھ میں قلم خنجر کی طرح نظر آرہاتھا۔کچھ دیر بعد کرشن چندر کمرے سے نکلے اور سیدھے کھانے کی میز کی طرف آئے۔اس وقت ان کا چہرہ پُرسکون،تازہ اور بہت معصوم تھا۔
فرانسیسی ناول نگار وکٹر ہیوگو کی یہ عادت تھی کہ وہ لکھتے وقت سیدھے کھڑے ہوجاتے اور لکھنے کے لیے اپنے کندھے جتنی اونچی میز (ڈیسک)استعمال کرتے۔ ونسٹن چرچل بھی ابتدا میں لکھتے وقت اسی قسم کا انداز اپناتے تھے۔
انگریزی کے مشہور ادیب آسکروائلڈ تو سب سے بازی لے گئے۔ انہوں نے اپنا سالِ پیدائش1854ء کے بجائے 1856ء کر لیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ لوگوں کے سامنے خود کو کم عمر ثابت کرسکیں۔
فرانسیسی ناول نویس الیگزینڈر ڈومالکھتے وقت لیموں کے علاوہ اور کسی پھل کا مشروب نہیں پیتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ الیگزینڈر ڈوما رسالوں کے لیے مضامین لکھتے وقت گلابی کاغذ، اپنی شاعری پیلے کاغذ اور ناول کے لیے نیلے رنگ کا کاغذ اِستعمال کرتے تھے۔
اُردو کے منفرد اور ممتاز مزاح نگار شفیق الرحمن ہمیشہ کھڑے ہوکر لکھا کرتے تھے۔اِسی طرح انگریزی کی ادیب کیرولین ویج وڈ کہتی تھیں کہ لکھتے ہوئے بعض اوقات ریڈیو سُننے سے انہیں خیالات مجتمع کرنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔
آئرلینڈ کے مشہور ناول نگار جیمز جوائس نے اپنی تمام تحریریں بستر پر اُلٹے لیٹ کر لکھیں۔ ان کا کہنا تھا: ’’میں اس طریقے سے لکھتے ہوئے آرام محسوس کرتا ہوں۔‘‘
بچوں کے عظیم محسن حکیم محمد سعید عام طور پر رَف لکھتے وقت اشتہارات کے پچھلے حصے کا اِستعمال کرتے تھے۔ یہ اشتہارات مختلف اخبارات میں ہوتے تھے یا عموماً ایڈورٹائزنگ کے لیے لوگ ان کا اِستعمال کرتے تھے۔ حکیم صاحب کے بقول۔’’ یہ قوم ابھی اتنی امیر نہیں ہوئی کہ بہترین کاغذ کا اِستعمال کرسکے۔‘‘ حالانکہ حکیم صاحب کے پاس کس چیز کی کمی نہ تھی لیکن اُن کی یہ بات اِس قوم کو سادگی اور کفایت شعاری کا درس دیتی ضرور نظر آتی ہے۔
کئی ادیب و شاعر لکھتے وقت سگریٹ کا اِستعمال کرتے تھے کیونکہ اُن کے مطابق سگریٹ اُن کے دماغ کو متحرک رکھتی ہے۔ حالانکہ اسی سگریٹ نوشی کی وجہ سے وہ مہلک بیماریوں میں مبتلا رہے۔
میں ایک بُک سٹال پر کھڑا تھا۔اسی دوران ایک شخص سے مختلف ادیبوں کے حوالے سے بات چیت شروع ہوگئی۔ جب اُسے پتا چلا کہ میں لکھتا ہوں، تو اُس نے سگریٹ سُلگائی اور مجھے آفر کی۔ جب میں نے کہا بھائی صاحب میں سگریٹ نہیں پیتا، تو کہنے لگا۔’’حیرت ہے، آپ لکھتے ہیں مگر سگریٹ نہیں پیتے۔‘‘
اسی طرح بعض ادیب لکھتے ہوئے چائے پینے کے عادی ہوتے ہیں۔ مشہور ادیب ایڈگر رائس اپنی دلچسپ اورچونکادینے والی کہانیاںچائے کی بے شمار پیالیاں پی کر لکھتے تھے۔ فرانسیسی ادیب بالزاک چائے کے بجائے کافی پیتے تھے۔ وہ آدھی رات سے لے کر اگلے دن کی دوپہر تک لکھا کرتے تھے۔ اس دوران وہ کافی کی لاتعداد پیالیا ں پی جاتے۔ ایک دفعہ انہوں نے مذاقاً کہا تھا۔ ’’میں کافی کی دس ہزار پیالیاں پی کر مروں گا۔‘‘
بعض ادیب ایسے بھی گزرے ہیں جو لکھنے کے دوران اپنے قریب سیب یا شہد رکھتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سیب یا شہد کی خوشبو سونگھنے سے ان کے خیالات کو تحریک ملتی تھی۔
ایک زمانہ تھا، جب ادیب اتنے نازک مزاج ہوتے تھے کہ بلی کی میائوں میائوں اور مُرغ کی ککڑوں کوں سے پریشان ہوجاتے اور ایک دم ان کے قلم رُک جاتے۔ آپ اسے ملکہ وکٹوریہ کا دور کہہ سکتے ہیں۔ تاہم آج کے بیشتر ادیب لکھتے وقت اردگرد ہلکا پھلکا شور گوارا کرلیتے ہیں، شاید وہ شور کے عادی ہوگئے ہیں۔
معروف ادیب جے بی پریسٹلے صرف کِسی تحریر کو درست کرنے یا دستخط کرنے کے لیے پنسل اِستعمال کرتے تھے۔ اس کے برعکس لارڈ ڈیوڈ سسلی نے اپنی طویل سوانح عمری پنسل سے لکھی تھی۔
اُردو کی مشہور افسانہ نگار، ڈراما نگار عصمت چغتائی اوندھی لیٹ کرلکھتی تھیں اور لکھتے ہوئے عموماً برف کی ڈلیاں چباتی جاتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈلیاں چپانے سے میرے ذہن میں نت نئے خیالات آتے ہیں۔
مشہور انگریز ادیب جارج برنارڈشا ابتدا میں اِس قدر شرمیلا تھا کہ وہ اپنے دوستوں کو ملنے سے بھی گھبراتا تھا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ وہ اپنے دور کا بہترین مقرر تھا۔
انگریزی کے ادیب ڈیکسٹر اپنی تحریر میں کامے، فل اسٹاپ اور ڈیش وغیرہ نہیں لگاتے تھے۔ وہ اپنی تحریر میں انگریزی لکھائی کے اس قاعدے کا بھی لحاظ نہیں رکھتے تھے کہ ہر نیا جملہ بڑے حروفِ تہجی سے شروع ہو۔ اس وجہ سے ان کی تحریر ایک طویل ترین جملہ لگتی تھی۔ ان کی کتاب کے ناشر نے ایک دفعہ پریشان ہوکر انہیں لکھا کہ اس میں نہ تو کاما ہے، نہ فل اسٹاپ، میں کیا کروں؟ ڈیکسٹر کو تائو آگیا۔ انہوں نے کچھ کاغذوں پر بے شمار کامے، ڈیش، فل اسٹاپ وغیرہ لکھے اور انہیں ناشر کو اِس نوٹ کے ساتھ روانہ کردیا کہ جہاں جہاں ضرورت ہو، وہ اس کاغذ سے کامے، ڈیش اور فل اسٹاپ وغیرہ لے لے۔
برطانیہ کے معروف ادیب کومپٹن میکنزی لکھتے وقت پسِ منظر میں کلاسیکی موسیقی کی دُھنیں سُنا کرتے تھے۔ میکنزی کا کہنا تھا کہ ایسی موسیقی اس کے خیالات کو توانائی بخشتی ہے۔
اب توکمپیوٹر کا دورآگیا ہے، لیکن اگلے وقتوں میں تحریر صاف رکھنے کے لیے عموماً ٹائپ رائٹر اِستعمال کیا جاتاتھا۔ مشہور ادیب چارلس ڈکنز اس کااِستعمال نہیں جانتے تھے، اس لیے ڈکنز کے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریریں پڑھنا بہت دشوار ہوتا تھا۔ ان کی تحریریں خاردار تاروں کی طرح اُلجھی ہوئی نظر آتیں۔ یقینا ڈکنز کی تحریروں نے ناشرین کو بڑا پریشان کیا ہوگا۔ چارلس ڈکنز کے بارے میں یہ پڑھ کر آپ یقینا حیران ہوں گے کہ اگر اِس کے بستر کا رُخ شمال کے بجائے مشرق یا مغرب کی طرف کر دیا جاتا، تو اسے نیند ہی نہیں آتی تھی۔ وہ تمام رات جاگ کر گزار دیتا لیکن جب بستر کا رُخ شمال کی طرف کردیا جاتا، تو وہ گہری نیند سو جاتا تھا۔
سب سے عجیب عادات و حرکات اُن ادیبوں کی تھیں جو خاص قسم کے ماحول میں خاص قِسم کا لباس پہن کر لکھتے تھے۔ مثلاً مشہور ادیب ڈیوما لکھتے ہوئے ایک اونچی لمبی ٹوپی، پھول دار جاپانی چوغے کے ساتھ پہنتے۔ وہ کہتے تھے:
’’میرے آدھے خیالات اس ٹوپی کے اندر ہوتے ہیں اور آدھے اِس چوغے میں، جو میں روحانی مناظر لکھتے وقت پہنتا ہوں۔‘‘
مختصر افسانے کے بانی مشہور مصنف ایڈگرایلن پو کے متعلق کہا جاتاہے کہ وہ لکھتے وقت اکثر اپنی پالتوبلی کو کندھے پر بٹھا لیتا تھا۔