اردو بولنے پر جرمانہ
محسنہ جیلانی
پچھلے دنوں پاکستانی ٹیلیوژن پر ایک خبر سنی۔ خبر اور وہ بھی بے حد اندوہناک ۔ایک پرایٹ اسکول میں جہاں اردو بولنا منع ہے اور اگر کی بچہ غلطی سے اس جرم کا مرتکب ہو جے تو اسے پانچ روپہ جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے ۔ اس اسکول کے ایک گیارہ سالہ بچے نے اچانک خود کشی کر لی۔کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ آخر اس نے خود کشی کیوں کی۔ جب گھر والوں نے اس لڑکے کی ڈایری دیکھی تو پتہ چلا کہ اس نے یہ اقدام کیوں کیا۔ اس نے اپنی ڈایری میں لکھا تھا کہ اسے اسکول میں اردو بولنے پر ٹیچر نے پانچ روپے کا جرمانہ مانگا تھا۔ اس کے پاس پیسے نہیں تھے۔ ٹیچر نے زبردستی اس کی جیب کی تلاشی لی۔ یہ تو صرف جیب تلاشی کی بات تھی اس پر نہ جانے کیا بیتی کہ اس نے خود کشی کر لی۔ اس بچے نے اپنی ڈایری میں ماں کے نام لکھا تھا کہ میری قبر پر مت آنا ۔اور تم رونا نہیں۔
یہ خبر سن کر جس قدر تکلیف ہی وہ بیان سے باہر ہے۔ذرا سوچیے اس ماں کا کیا حال ہوا ہوگا جس کا گیارہ سالہ ہونہار بیٹا ٹیچر کے ظلم و ستم سے تنک آ کر خودکشی کرنے پر مجبور ہو جائے۔
اگر یہ سانحہ کسی مہذب ملک میں ہوا ہوتا تو ٹیچر کے ساتھ ساتھ اسکول بھی بند کردیا جاتا لیکن پاکستان میں کس قدر بے حسی طاری ہے ۔ اس اسکول اور اس کے ٹیچر کے خلاف کی کاروی نہیں ہی۔کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اسکول میں مادری زبان بولنے پر اتنی سخت پابندگی ہے کہ اس پر جرمانہ عاید کیا جاتا ہے ۔ حتی کہ اس زمانے میں جب ہم انگریزوں کے غلام تھے تب بھی اسکولوں میں اردو بولنے پر کی پابندی نہیں تھی اور نہ کی جرمانے کی سزا تھی۔
کسی بھی مہذب ملک میں اسکولوں میں بچوں پر یہ پابند ی نہیں کہ وہ کون سی زبان بولیں اور کون سی زبان نہ بولیں۔آخر پاکستان میں نجی اسکولوں میں یہ پابندی کیوں کہ وہ اپنی مادری زبان نہ بولیں۔ کیا یہ ملک کی قومی زبان نہیں ہے۔ کیا یہ رابطہ کی زبان نہیں ہے ۔ شاید یہ ذہنی غلامی کی علامت ہے کہ اپنی تہذیب اور اپنی زبان چھوڑ کر انگریزی کی تقلید کی جے۔ یہ کہاوت کس قدر سچ ہے کہ اگر آپ کسی قوم کا کلچر اس کی تہذیب اس کا تمدن مٹانا چاہتے ہیں تو اس کی زبان مٹا دیجیے ۔ مغربی طاقتوں نے بڑی ہوشیاری اورمنصوبہ بندی کے ساتھ ہمارا کلچر ہمارا ثقافتی اثاثہ ختم کر کے اپنا کلچر ہم پر تھوپ دیا ہے اور ہم بات کرتے کرتے بیچ میں ا نگیریزی ٹھونس کر ایسے اتراتے ہیں جیسے ہم نے اپنے آپ کو بقراط ثابت کر دیا ہے ۔ ہم اس شخص کو تعلیم یافتہ اور مہذب نہیں سمجھتے جو انگریزی نہ بول سکے۔ سلیس اردو بولنے والے کو ہم جاہل سمجھتے ہیں۔ میرے خیال میں جاہل وہ ہے جسے اپنی مادری زبان نہ آتی ہو۔ کہا جاتا ہے کہ ایک بچہ سات آٹھ سال کی عمر تک چھ زبانیں سیکھ سکتا ہے ۔
میری ساری ہمدردیاں اس بدنصیب ماں کے ساتھ ہیں جس کے گیارہ سالہ بیٹے نے خود کشی کر لی۔ اللہ اسے صبر عطا فرمے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ کسی صحافی نے صرف ایک بار اس کی خبر دے کر آگے کھوج نہیں لگی کہ اس ٹیچر کا کیا ہوا جس کی وجہ سے ایک کمسن بچے کی جان گئی.
افسوس کی بات ہے کہ ہم مدرس ڈے فادرس ڈے اور ویلنٹین ڈے مذہبی جوش و خروش سے مناتے ہیں یہ جانے بغیر کہ ان تقریبات کا پس منظر اور تاریخ کیا ہے۔ ہمارے بچے جب کتابی انگلش بولتے ہیں تو ہم وارے نیارے ہوتے ہیں۔اور ہمارے بچے جب نہایت جوش و خروش سے انگلش رائم گاتے ہیں تو ہم خوشی کے مارے پھولے نہیں سماتے۔ یہ سب اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنی تہذیب اور کلچر سے دور ہوتے جارہے ہیں اور ہم اس خام خیالی میں مبتلا ہوئے ہیں کہ مادری زبان کو ترک کر کے اور الٹی سیدھی انگریزی بول کر ہم مغربی بن جیں گے۔ یہ ایک اہم سوال ہے ۔ یہاں مجھے نیلسن مینڈیلا کا ایک قول یادآیا ہے۔ انہوں نے کہا تھاIf you talk to a man in foreign language it goes to his head and if you talk to him in his mother tounge it goes to his heart.
اگر آپ کسی سے غیر ملکی زبان میں بات کریں تو وہ اس کے دماغ تک جیگی اور اگر آپ اس کی مادری زبان میں بات کریں تو وہ اس کے دل میں جگہ پائے گی۔
اردو زبان ہماری شخصیت اور ہماری تہذیب کو کس طرح اجاگر کرتی ہے اس کے بارے میں فراق گورکھپوری نے بڑی اہم بات کہی ہے ۔ اردو زبان ہندوستان میں کس کی زبان ہے ،،اس عنوان سے اپنے مضمون میں رام پرکاش کپور صاحب لکھتے ہیں۔ فراق گورکھپوری اپنے طلب سے کہا کرتے تھے کہ وہ اردو ایسے پڑھیں کہ افسر بننے کے بعد افسر دکھی دیں ۔ اس جملے کی معنویت ئی پر مغز مقالوں کا درجہ رکھتی ہے ۔ اس رائے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اردو صرف زبان ہی نہیں بلکہ ایک تہذیب ہے ۔ تو کیا ہم اپنے بچوں کوابتدی مرحلے سے اردو پڑھا کر انہیں اپنی صدیوں پرانی تہذیب روا داری شرافت کا سفیر نہیں بنا سکتے ؟ یہ سوال بے شک غور طلب۔ آگے چل کر رام پرکاش کپور صاحب لکھتے ہیں اس بیان میں یہ اضافہ کردوں کہ میں اب بھی اپنی دھارمک کتابیں اردو میں ہی پڑھتا ہوں۔ میری مادری زبان پنجابی ہے لیکن میرا اوڑھنا بچھونا اردو ہے ۔ ایک محب وطن ہندوستانی کی حیثیت سے میں اردو زبان کو ایک ایسی زبان سمجھتا ہوں جس کی ترقی میں مجھے ہندوستان کی ترقی پنہاں نظر آتی ہے ۔ میں اردو سے بہت پیار کرتا ہوں اس ے نہیں کہ بچپن سے اسے پڑھتا آیا ہوں بلکہ اس ے کہ اردو چیز ہی ایسی ہے،،
یہ بڑی بدقسمتی ہے کہ اردو بر صغیر میں مسلم لیگ اور کانگریس کی رقابت میں بری طرح سے کچلی ئی ہے ۔ کانگریس نے جب دیو ناگری رسم الخط میں ہندی کو قومی زبان کا درجہ دینے کا نعرہ بلند کیا تو اس کے جواب میں مسلم لیگ نے اردو کو قومی زبان اپنانے کا اعلان کیا۔نتیجہ یہ کہ ہندی ہندو ہندوستان ،، کے نعرہ کے جواب میں اردو مسلمانوں کی زبان قرار دی گئی ۔اب بھی ہندوستان میں اردو کے شیدئی مذہب کے کھانچوں میں زبانوں کو ٹھونسے کے سخت خلاف ہیں اور اردو کو ہندوستان کی زبان قرار دیتے ہیں۔ یہ کیسی بد نصیبی ہے کہ اردو کو اپنی قومی زبان قرار دینے کے باوجود پاکستان کے نجی اسکولوں میں اردو بولنے پر پابندی ہے اور اس جرم،، میں بچوں کو جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے ۔
یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جب ہم چالیس سال پہلے اس ملک میں ئے اور بچوں کو اسکول کی نرسری میں داخلے کے لیے پہنچے تو ہم سے کہا گیا کہ ان سے اپنی مادری زبان نہ بولیں صرف انگلش میں بات کریں ورنہ بچے کنفیوز ہو جیں گے ۔ یہ کس قدر غلط بات تھی۔ یہ بھی اپنی تہذیب اور کلچر تھوپنے کا ایک انوکھا طریقہ تھا۔ اگر چہ ہم گھر میں اپنے بچوں سے اردو زبان ہی بولتے رہے لیکن وہ بات نہ بن سکی۔ بچے انگلش لہجے میں اردو بول تو سکتے ہیں لیکن ہماری دوسری نسل اردو کے رسم الخط سے یکسر محروم ہوئی ہے اور اس کے ساتھ اپنی تہذیب سے بھی دور ہوئی ہے۔
MashAllah bhut acha article lika hay urdu zaban kay baraye may or Allah Pak urdufalak.net ki in koshisho may barkat day.(Ameen