دسمبر 2015 بروز اتوار کو فیورست اوسلو میں نبیلہ رفیق کے ناول ’’ جھرنا ‘‘ کی افتتاحی تقریب ہوئی ۔
تقریب میں کُل 75 خواتین نے شرکت کی مخصوص مہمانوں میں ، محترمہ لولین جونی صاحبہ جن کا تعلق انڈیا سے ہے اور ناروے میں رہتے ہوئے آ ٹھ کتابوں کی مصنفہ ہیں اور محترمہ زیب صاحبہ محترمہ امتیاز صاحبہ جو کہ ??? جن کا تعلق ??
تقریب روایتی انداز سے تلاوتِ قرآن َ پاک اور نعت رسولِ مقبول ؐ
سے شروع کی گئی ۔ مہمانوں کے تعارف کے بعد ’’اُردو ہمارا قومی ورثہ ‘‘ کے عنوان سے انتہائی ادبی و معلوماتی تعارفی مضمون پڑھا گیا ۔ جسے بہت زیادہ پسند کیا گیا ۔تعارف کے بعد یکے بعد دیگرے مہمانوں نے ناول اور مصنفہ کی کاوش پر اپنے اپنے خیالات اور تجزئیات پیش کئے ۔ سب تجزیہ نگاروں نے ماشاہ اللہ انتہائی مہارت اور ناقدانہ اندازسے ناول کے مختلف پہلووٗں کو اُجاگر کیا اور ساتھ ہی ساتھ مصنفہ کے اندازِ تحریر اور اسکینڈے نیویا میں پہلی ناول نگار خاتون اورایک انتہائی اہم اور معاشرتی ناول کی مصنفہ ہونے کا اعلان کرتے ہوئے بہت سراہا ۔ مصنفہ کی اس کوشش کو بھی سراہا گیا کہ ناول میں خالصتاً مغرب میں دُنیا کے ہر کونے سے آ کر بسنے والے تارکین ِ وطن اور عموماً مسلمانوں کے حالات ، مسائل اور نئے ملک میں آکر ضم ہونے کی داستانیں انتہائی حسّاس انداز سے پیش کی گئی ہیں۔
یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ ناروے میں مقیم شاعرہ اور مصنفہ شازیہ عندلیب اپنی ذاتی مصروفیت کی وجہ سے تقریب میں شرکت نہ کر سکیں ۔ مگر انہوں نے ناول پر اپنا تبصرہ لکھ کر بھیجا جسے ۔ سویڈن سے آنے والی شاعرہ اور مصنفہ شاہدہ سجاد نے پڑھا ۔ آخر میں ’’جھرنا‘‘ ناول پر لکھی گئی ایک نظم پڑھی گئی جسے بہت زیادہ پسند کیا گیا ۔۔
یہ ادبی محفل چائے اور گرماگرم چٹ پٹے لوازمات کے ساتھ اختتام پذیر ہوئی۔ شرکاہ مجلس نے ناول جھرنا خریدا اور مصنفہ سے اپنے من پسند اشعار اور دستخط بھی کروائے ۔۔
نبیلہ رفیق جو شاعرہ مصنفہ اور کالم نویس بھی ہیں ۔ کا یہ ناول اپنی ذات میں نہ صرف منفرد بلکہ انتہائی اہم ہے ، کیونکہ اسکینڈے نیویا کے تارکینِ وطن اور مسلمانوں کے مسائل پر پہلی مرتبہ اظہار خیال کیا گیا ہے ۔۔
شرکاہ خواتین نے تجزیہ نگاروں کے اندازِ بیان کو بھی بہت پسند کیا ۔