اردوکی ایک مشہور خاتون ادیب نے اپنے ایک اِنٹروِیو میں بتایا تھا کہ جب وہ بالکل کم عمر(غالبا پانچ برس کی) تھیں تو ان کے والد نے انھیں خواجہ الطاف حسین حالی کی مشہورِ زمانہ مسدس مدو جزرِ اسلام باقاعدہ حفظ کرائی تھی۔ اسی انٹروِیو میں محترمہ نے یہ بھی بتایا تھا کہ جب یہ مسدس وہ حفظ کر رہی تھیں تو ا نکے والد کے وہ دوست جنکا گھر میںآنا جانا تھا، ان کے والد سے وہ کہتے تھے کہ میاں! اس کم سِن پر کیا ظلم کر رہے ہو۔؟ مگر بزرگوار اپنے منصوبے سے باز نہیں آئے۔ہم نے اس آخری جملے میں ایک لفظ منصوبے لکھا ہے۔ جی ہاں، یہ لفظ ہم نے جان بوجھ کر لکھا ہے۔ اس زمانے میں شرفا کے گھروں میں اسی طرح بچوں کی تربیت ہوتی تھی۔ نئی نسل کے اردو والوں کو یہاں یہ بتاناغیر ضروری نہیں کہ خواجہ حالی کی یہ مسدس چند بند کی کوئی عام سی نظم نہیں ہے یہ باقاعدہ ایک کتاب ہے۔ مسدس کا ہربند چھ مصرعوںکا ہوتاہے اور یہ پوری نظم2862 =126+ 2736 (یعنی دو ہزار آٹھ سو باسٹھ )مصرعوںپرمشتمل ہے ۔
اس تربیت کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ پانچ سالہ بچی آج جب اڑسٹھ برس کی ہوگئی تو اسے اردو دنیا کے وہ تمام لوگ ایک ادیبہ کے طور پر جانتے اور مانتے ہیں جواردو زبان سے محبت اور ادب کا ستھرا ذوق رکھتے ہیں ۔ ان محترمہ کے صرف فکشن کی کوئی آدھا درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ فکشن کے علاوہ بھی دیگر موضوعات پر ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ یہ محترمہ کئی برس سے پاکستان کے ایک ممتاز روزنامے میں کالم بھی لکھتی ہیں۔ جسے گاہے بہ گاہے ہم اپنے اخبار کے جمعہ میگزین میں شائع کرتے رہتے ہیں۔ ہم نے ان کے جس اِنٹرویو کا ذکر کیا ہے اس میں ایک جگہ انہوں نے یہ بھی بتایاتھا کہ کم عمری ہی سے انھیں ایک تجسس کی عادت سی پڑ گئی تھی مثلا گھر میں بنیے کی دکان سے کوئی چیز منگائی گئی تو وہ چیز جس کاغذ کی پڑیا میںآتی تھی تو وہ کاغذ گول مروڑ کر گھر کے کسی کونے کھدرے میں پھینک دیا جاتا تھا اور آتے جاتے جب ان(محترمہ ) کی نظر اس توڑے مروڑے کاغذ کے گولے پر پڑتی تو انھیں تب تک چین نہیں پڑتا تھاکہ جب تک وہ اس کاغذ کو سیدھا کرکے اس پر لکھے یا چھپے ہوئے کو پڑھ نہ لیں کہ نجانے اس میں کون سا علم چھپا ہو!!
سہسرام (بہار) میں5 ۔اکتوبر 1946کو پیدا ہونے والی ان محترمہ کو اردو کی ادبی دنیا زاہدہ حِنا کے نام سے جانتی ہے۔ وہ اشخاص جنہوں نے محترمہ کی کوئی کتاب نہ پڑھی ہو تو وہ ان کے اخباری کالم ہی پڑھ لیں تو انھیں ان کے ذوق اورعلم کے تنوع کا ایک اندازہ ضرور ہو جائے گا۔ ان کی ایک کتاب ( عورت: زندگی کا زنداں)جو ہم نے پڑھ رکھی ہے وہ تو ناقابل ِفراموش ہے۔ یاد رہے کہ یہ کتاب افسانوں کا مجموعہ ہرگز نہیں بلکہ حقیقت اور صداقت کی ایک دستاویز ہے۔ اگر آپ علمی ذوق و شوق کے حامل ہیں تو اس کتاب کو ضرور پڑھئے کہ یہ کتاب دہلی کے ایک پبلشر (رابطہ : 098116123731) نے بھی چھاپ دی ہے۔ یہاں اس کی وضاحت بھی کر دی جائے کہ محترمہ سے ہماری کوئی ذاتی ملاقات نہیں البتہ ان کے مضامین اور کتابوں کے حوالے ہی سے برسوں سے ایک غائبانہ ملاقات چلی آتی ہے۔
در اصل محترمہ اور ان کے بارے میں متذکرہ باتیں ایوت محل (مہاراشٹرا) کے ہمارے اخبار کے ایک قاری یعقوب الرحمان جو ساٹھ برس سے کچھ کم نہیں ، ان کی اخبار بینی اور کچھ نہ کچھ پڑھنے کی جستجو نے یاد دِلادِیں۔ ان موصوف کی ایک شکایت ہے کہ اکثر ان کے شہر میں اخبار نہیں ملتا۔ راقم کبھی کبھار انھیں بذریعہ ڈاک اخبار اِرسال کر دیتا ہے۔
کبھی فون پر اور کبھی بذریعہ خط وہ موصولہ اخبارات کی رسید ضرور دیتے ہیں۔ آج ان کا ایک خط ملا۔ جس میں وہ لکھتے ہیں کہ آج کا ِدن تو میرے لئے بڑا خوشگوار ثابت ہوا۔ممبئی سے اردو ٹائمز کے تین شمارے ، نئی دہلی سے اردو دنیا اور حیدر آباد سے شگوفہ ایک ساتھ ملے یوں جانیے کہ آج میری عید ہوگئی۔ وہ فون پر بتا چکے ہیںکہ ابا ہر سال ہمیں سالگرہ پر کتابوں کا تحفہ دیا کرتے تھے۔ لکھنو کا ٹافی رامپور کا نور دہلی کا کھلوناابا ہی نے ہمیں پڑھنے کو دِیے اور پھر ہم ان پرچوں کے اس قدر عادی ہوگئے کہ اگریہ رسالے کسی مہینے نہ ملتے توہمیں ایک الجھن سی ہو جاتی تھی۔ موصوف نے خط میں لکھا ہے کہ آپنے جس کاغذ پر پتہ اور ڈاک ٹکٹ لگا کر اخبار بھیجا ہے اسکی پشت بھی ہمارے لئے بڑی کارآمد ثابت ہوئی کہ اس میں دو کتابوں پر تبصرے بھی پڑھنا نصیب ہوئے، یعنی ردی بھی کام کی نکلی۔
مولانا انجم فوقی بدایونی صحیح کہہ گئے ہیں: قناعت باسلیقہ ہو تو انجم! پھلو ں کا کام دے جاتے ہیں چِھلکے
اردو زبان کی ایسی طلب رکھنے والے قاری اب خال خال ہی رہ گئے ہیں۔ ورنہ تو بڑے شہروں میں رہنے والے ان ادبا وشعراسے ہم واقف ہیں کہ ان کے محلے میں اردو اخبار نہیں آتاکچھ فاصلے پر دستیاب ہوتا ہے مگر انھیں اس کی توفیق نہیں ہوتی کہ وہ چندقدم کی زحمت کرکے اردو اخبارخرید لائیں جبکہ ہم دوسری قوم کے ایسے لوگوں کو بھی جانتے ہیں جو، اگر کسی دِن اخبار نہ پڑھیں تو وہ دِن انھیں بیکار محسوس ہوتا ہے۔ اب ذرا سوچئے کہ جو لوگ اخبار تک پڑھنے کیلئے ذرا سی زحمت گوارا نہیں کر سکتے وہ زبان و ادب کیلئے کتنے مخلص ہو سکتے ہیں۔ ایسے قلم کار وںکے ساتھ وقت کتنا مخلص ثابت ہوگا یہ ہمارے قارئین سوچتے رہیں ۔ ہمارے اِرد گرد اردو کے نام نہاد مصنفین کا حال یہ ہے کہ وہ اپنی کتابیں ا س طرح چھپوا رہے ہیں کہ جیسے ان کی کتابیں پڑھنے کولوگ بیتاب بیٹھے ہیں اور یہ کتابیںان کی آئندہ زندگی کا ذریعہ بن جائینگی مگر دِیمک ہے کہ اپنی آئندہ نسل کیلئے یہ خوراک دیکھ کر بہت خوش ہے۔ ن۔ ص