پریس ریلیز
پانچ سو 500 منظورشدہ پراجیکٹ میں صرف 163لوگوںکو پروگرام کیوں دیاگیا؟ ‘
اردو سے وابستہ لوگوں کی حق تلفی کی وجہ؟
اردو کے مشہورومعروف ناول نگار مشرف عالم ذوقی نے اردو اخبارات کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اردو اخبارات نے ہمیشہ ہی اردو کے حق کے لیے آواز اٹھائی ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ ڈی ڈی اردو چینل کے ساتھ معتصبانہ رویہ پر ایک بار پھر اردو اخبارات نے احتجاج کی آواز بلند کی ہے۔لیکن محض بیان بازی سے ڈی ڈی اردو کا بھلا ہونے والا نہیں ہے۔ پچھلے تجربوں سے میں دیکھ چکا ہوں کہ اس سے نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔ اگر ڈی ڈی اردو کے لیے مثبت نتائج کی امید کرنی ہے تو سنجیدگی سے اپنی باتیں پرسار بھارتی کے اعلیٰ حکام اور حکومت تک پہنچانی ہوگی۔ جب تک کہ اس جڑ یا Root کو ہم نہیں سمجھتے، محض جذباتی بیانات لا حاصل ہیں کہ ایسے بیانات حکومت تک بھی نہیں پہنچ پاتے۔ ٢١ اگست ٢٠٠٩ کو فیاض شہریار (اس وقت کے ڈی جی دوردرشن) کی نگرانی میں پہلی بار ڈی ڈی اردو کے کمشنڈ پروگرام کا خاکہ تیار کیا گیا۔ ٢٠١٢ میں دوردرشن نے ٥٠٠ پروگراموں کو ہری جھنڈی دکھائی جبکہ صرف ١٦٣ لوگوں کو پروگرام دیا گیا اورزیادہ تر اردو والوں کو نظر انداز کیاگیا۔ ابھی سب سے بڑی آواز منظور شدہ ٣٨٧ پراجیکٹ کے لیے اٹھنی چاہئے، جسے ڈی ڈی ارردو کے حکام ٹھنڈے بستے میں ڈالنے والے ہیں۔ اگر یہ منظور شدہ پروگرام دوبارہ دیئے جاتے ہیں تو ڈی ڈی اردو کے پاس نہ صرف اچھے پروگرام ہوں گے بلکہ ڈی ڈی اردو کو ختم کرنے اور پرانے پروگراموں کو بار بار چلا کر سامعین کی توجہ کم کرنے کی سازش بھی ختم ہوگی۔ ذوقی کے مطابق، خوشی اس بات کی ہے کہ معزز رکن پارلیمنٹ جناب م افضل، علی انور، سالم انصاری جیسے لوگوں نے اس سمت آواز بلند کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ابھی ضروری اقدام یہ ہے کہ پارلیامنٹ میں منظور شدہ ٣٨٧ پراجیکٹ کے لیے فنڈ فراہم کرنے کا مدعا اٹھایا جائے۔ ذوقی کے مطابق شروعاتی ٥٠٠ پراجیکٹ میں جن ١٦٣ لوگوں کو پروگرام دیئے گئے، ان میں اردو نہ جاننے والوں کا ہی بھلا ہوا ہے۔ یہ پروگرام ایسے غیر اردوداں لوگوں کے حوالے کیے گئے جو نہ قرة العین حیدر کے قد اور فن سے واقف تھے اور نہ اردو کے مزاج ومعیار کی سمجھ رکھتے تھے۔ ذوقی کے مطابق میں نے ایسے بے شمار پروگرام دیکھے ہیں جن میں اردو کے ساتھ اردو شاعروں اور اردو کی اہم ترین کتابوں کا مذاق بنا کر رکھ دیاگیا ہے— ذوقی نے آگے کہا کہ جو ٣٨٧ پروگرام دوردرشن نے منظور کرنے کے بعد بھی روک رکھے ہیں، ان میں بیشتر میں اردو والے شامل ہیں۔ جبکہ اس سے قبل جن ١٦٣ لوگوں کو پروگرام دیئے گئے، ان میں غیر اردو داں طبقہ شامل تھا، جسے اردو زبان وادب میں کوئی دلچسپی نہیں تھی اور اسی لیے جہاں معیاری پروگرام کی گنجائش تھی، وہاں ناقص سطح پر اردو شعر وادب کو پیش کیا گیا۔ حقیقت میں یہ معاملہ محض ڈی ڈی اردو کوختم کرنے کا نہیں ہے، بلکہ یہ مکمل اردو زبان کے ساتھ ہونے والی سازش ہے۔ مرکزی حکومت کو محض مکتوب لکھنے سے اس کا کوئی حل نہیں نکلے گا؟ جب تک اس معاملے کی گونج پارلیمنٹ میں نہ ہو۔ اور اس کے لیے یقینا متحد ہوکر بڑی لڑائی لڑی جاسکتی ہے۔
ذوقی نے آگے کہا کہ پرسار بھارتی بورڈ کے جواہر سرکار کہتے ہیں کہ اردو کے پروگرام غیر معیاری ہیں اور اس لیے اس سلسلہ کو آگے بڑھانا مشکل ہے۔ اس کا جواب بہت آسان ہے کہ آپ نے ١٦٣ لوگوں میں غیر اردو دان طبقے کو شامل کیا، جن سے اردو زبان وادب پرکسی معیاری پروگرام کی امید کی ہی نہیں جاسکتی تھی۔ جو شخص اردو شاعری کی روایات سے واقف نہ ہو، جو شخص اردو نثر کے آغاز وارتقا اورقرة العین حیدر کے ناولوں تک رسائی نہ رکھتا ہو، وہ ان شاہکار اور فن پاروں کو کسی بھی حیثیت سے پروگرام کی شکل نہیں دے سکتا۔ قومی یکجہتی کی ترجمان اردوزبان کو زندہ رکھنے کے لیے اردو ٹی وی چینل بڑی ذمہ داری اور اہم کردار ادا رکر سکتے ہیں۔ لیکن یہ ممکن اسی صورت ہے، جب اردو والوں کو یہ حق ملے۔ ڈی ڈی اردو میں پروگرام کی منظوری کے وقت جواہر سرکار (سی او، پرسار بھارتی) نے اردو والوں کی خدمات لی تھیں۔ مگر اردو کے ذمہ داران اپنا کردار ایمانداری اور انصاف سے ادا کرنے میں ناکام رہے۔ ہمیں اردو زبان سے واقعی محبت ہے تو اس جنگ میں تیزی لانی ہوگی۔ جذباتی بیانات اور غیر متعلق حکمت عملی سے الگ پہلا کام یہ ہونا چاہئے کہ اردو والے ٥٠٠ منظور شدہ پروگرام میں باقی کے ٣٨٧ پروگراموں کی جانب حکومت اور وزیر اطلاعات ونشریات کو توجہ مبذول کرائیں۔ ذوقی نے کہا، مجھے خوشی اس بات کی ہے کہ اردو کے حقوق کے لیے اردو اخبارات نے ہمیشہ کی طرح مثالی کردار ادا کرتے ہوئے ایک بار پھر ڈی ڈی اردو کی طرف توجہ کیا ہے۔ اردو اخبارات کا اس جنگ میں شامل ہونا سب سے ضروری ہے کیونکہ ان تمام معاملات میں جو کردار اردو اخبارات ادا کرسکتے ہیں، وہ کوئی ادا نہیں کرسکتا۔