مشاعرہ رپورٹ جدہ
فرحت اللہ خان فرحت
معتمد نشر واشاعت
۱۱ جون ۲۰۱۵ کی شب اردو گلبن کی جانب سے ہندوستان سے آنے والے مہمان شعرا حضرت نادر اسلوبی ، اقبال شانہ ، شاہد عدیلی اور قابل حیدرابا دی کے علاوہ ریاض سے آنے والے ملک محی الدین کے اعزاز میں محفل شعر و سخن منعقد کی گئی۔ پروگرام کا آغاز پُرتکلف عشائیہ سے ہوا۔ قاری محمد نظیر کی تلاوت کلام پاک کے بعد اطہر اسلوبی نے اپنے والد ماجد کی نعت پیش کی ، بعد ازاں صدر اردوگلبن مہتاب قدر نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے انکا مختصر تعارف بھی پیش کیا۔
ورنگل اور حیدرابادسے تعلق رکھنے والے کہنہ مشق اور بزرگ شاعرحضرت نادر اسلوبی نے مشاعرے کی صدرات فرمائی جبکہ جدہ کے معروف اور کہنہ مشق شاعر اردو گلبن کے نائب صدر ناصربرنی نے بحسن و خوبی نظامت کے فرائض انجام دئے۔ اختتامی مراحل میں اردوگلبن کی جانب سے مہمانوں کی خدمت میں محترم فضا الرحمن صاحب نے خوبصورت گلدستے بھی پیش کئے ۔ جدہ کی تاریخ کا یہ منفرد مشاعرہ جس میں کثرت سے مقامی شعرا نے بھی شرکت کی رات دیر گئے تقریباََڈھائی بجے کے بعد اختتام پذیر ہوا۔ آخر میں ناظم مشاعرہ نے مشاعرے کے انتظامات میں اردوگلبن کے معتمدمالیہ اطہر اسلوبی اور انکے ساتھیوں کے حسن انتظام کو بہت سراہا اور تمام شرکاء کا شکریہ بھی ادا کیا۔ مدعو شعرا میں اطہر عباسی ، نعیم بازیدپوری اور اقبال بیلن کی کمی محسوس کی گئی۔
شرکت کرنے والے شعرا کا نمونہ کلام ملاحظہ ہو،
یاور مظفرپوری
کبھی صبح کبھی شام پہ رونا آیا
کبھی برما کبھی آسام پہ رونا آیا
کام کرتے ہیں زمانے میں وہی دہشت گرد
یہی وہ کام ہے جس کام پہ رونا آیا
کامران خان
دوست یوں تو ہزار ملتے ہیں
پر کہاں غمگسار ملتے ہیں
جب ضرورت نہ ہو سہاروں کی
آسرے بے شمار ملتے ہیں
فرحت اللہ خان فرحت
: ابتدا تشنگی انتہا تشنگی
زندگی قول وقراروں میں ڈھلتی رہی
بڑھ گئی بدگمانیاں کیسے
خیر کی کر کے ہم دعا بیٹھے
بدرالدین کامل:
آنکھوں کے آس پاس سمندر نہیں رہا
یعنی کہ مجھ میں اب وہ سخنور نہیں رہا
دیکھا گیا ہوں چاندنی راتوں میں اس طرف
گھر سے تمام عمر تو باہر نہیں رہا
الطاف شہریار:
یہاں ہر موڑ پر خطرے بہت ہیں
بڑے شہروں میں اندیشے بہت ہیں
نئے گھر کی عجب دشواریاں ہیں
دریچے کم ہیں دروازے بہت ہیں
افسربارہ بنکی:
تار جڑنے لگے ہیں تاروں سے
بات ہونے لگی اشاروں سے
گل کھلے گا توخوشبو آے گی
فائدہ کیا ہے اشتہاروں سے
فیصل طفیل:
نقش قدم جو صحراوں سے ملتے ہیں
قیس کے ہیں یامیرے پاوں سے ملتے ہیں
شاید اک دن ہم بھی ایسے مل جائیں
دریا جیسے دریاوں سے ملتے ہیں
ڈاکٹر علیم خان فلکی:
ہمت و عزم و حوصلہ سب کچھ
جانے کب کیسے لٹ گیا سب کچھ
صرف ماں باپ ہی کو چھینا ہے
ورنہ ہجرت نے دے دیا سب کچھ
عبدالرحیم شاد بجنوری:
زخم اور زخم دینے والوں کو
چارہ سازی بگاڑ دیتی ہے
زندگی کیسے کھیلتی ہے تو
ساری بازی بگاڑ دیتی ہے
عرفان بارہ بنکی:
پرکیف خوشبئوں کے گلستاں تجھے سلام
انساں کے سے پہلے دبستاں تجھے سلام
دنیا میں تیراکام ہے تخلیق کار کا
ہستی عظیم ہے اے ماں تجھے سلام
تیور جدید لہجے کے، لہجہ غزل کا ہے
اس نازش غزل کا سراپا غزل کا ہے
ناصر برنی:
دل جو چھولے وہی تحریر میں لائی جائے
کیا ضروری ہے غزل گا کے سنائی جائے
راستہ کوئی نہیں ہے تو نکالا جائے
بات جو بگڑی ہوئی ہے وہ بنائی جائے
ملک محی الدین: ریاض سے تشریف لانے والے مہمان شاعر ادب اسلامی ریاض سے منسلک ہیں
برماکے مظالم کے پس منظر میں دردانگیز نظم سنائی اور دیگر خوبصورت اشعار سے نوازا،
خموش لمحے اگرچہ زبان رکھتے ہیں
قفس میں رہ کے بھی ذوق ِاڑان رکھتے ہیں
تلک لگانے کی ہم سے نہ ضد کرو بیجا
ہمارے ماتھے پہ سجدے نشان رکھتے ہیں
کم وسعت ِ جیبی میں فراغت بھی بہت تھی
چہروں پہ قناعت کی بشاشت بھی بہت تھی
انور انصاری: جدہ کے مشہور اردو روزنامہ اردو نیوز سے منسلک اردو کے معروف شاعر اور مصورہیں
صحرائے جنوں میں کوئی چوکھٹ نہیں ہوتی
رہتا ہوں جہاں میں وہاں آہٹ نہیں ہوتی
انورؔ کسی ہمزاد کا مقروض نہیں میں
دروازے پہ میرے کبھی کھٹ کھٹ نہیں ہوتی
مہتاب قدر:
اگر میں صفحہ قرطاس پر نہیں آتا
مرا وجود کسی کو نظر نہیں آتا
زمیں پہ پاوں رکھو گے تو آئے گی منزل
ٹریڈ مل پہ تو چلنے سے گھرنہیں آتا
مجاہد سید:
ہرگھڑی صدمہ پیکار اٹھانے والے
ہوے رخصت جو تھے تلوار اٹھانےوالے
اٹھ گئی بزم سخن ، اٹھ گئے مضموں سارے
ہے کہاں مصرعہ تہہ دار اٹھانے والے
ڈھونڈ چھپنے کی جگہ رخ ہے ہوا کابدلا
شہر سے جرات گفتار اٹھانے والے
ڈاکٹرنعیم الحامد:
روشنائی متحمل نہ ہوئی غم کی مرے
خون ِ دل میں ڈبویا تو قلم نے لکھا
آپ بیتی کو مری سن کے سبھی کہتے ہیں
ایسا لگتا ہے کہ تم نے نہیں ہم نے لکھا
ریگزاروں کوکیا میرے لہو نے گلزار
نام شاہوں کا مورّخ کے قلم نے لکھا
شاہدعدیلی: یکےازجانشینان صفی اورنگ آبادی،حضرت نظیر علی عدیل مرحوم کے فرزند اور مزاحیہ شاعر
’’دونوں جنتی‘‘ اور دیگر نظمیں سناے کے بعد مزاحیہ اشعار سے بھی نوازتے رہے۔ دیگر مزاحیہ شعرا کی طرح شاہد عدیلی نے بھی بعض لطیفوں کو شعری آہنگ میں ڈھال کر پیش کیا ، اگر مزاحیہ شعرا اس طور سے اجتناب کریں تو تخلیقی عمل زیادہ خوبصورت ہو سکتا ہے۔
تازہ غزل سنا کے مرے شیر خوار کو
ہلکا میں کر رہاہوں شکم کے غبار کو
لکھ کر غزل جو دی ہے تو اعراب بھی لکھو
ستّار پڑھ رہا ہے میاں وہ سِتار کو———-
اقبال شانہ:نامورمزاحیہ شاعر جنہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ خلیج میں گزارا اور تبوک میں قیام کے دوران بھی شعر وادب کی شمع جلائے رکھی۔ آپ کے کئی شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں
اس بزم میں تقریبا ہر کوئی دوانہ ہے
ان سارے دوانوں میں بس ایک ہی شانہ ہے
زندگی بے مثال دے مولٰی
مجھ کو رزق حلال دے مولی
ایک ملین ریال دے مولیٰ
مال مجھ پر اچھال دے مولی
سونے چاندی کی چار چھ ایٹیں
میری جھولی میں ڈال دے مولی
بخش دے مجھ کو کان سونے کی
سب کو لکڑی کی ٹال دے مولی
ابوالحسن قابل حیدرابادی: نعتیہ اور مزاحیہ شاعری کے حوالے سے جانے جاتے ہیں ، عرصہ دراز تک قطر کی ادبی محفلوں میں اپنے حصہ کی شمع جلاتے رہے۔
جائیں مدینہ پھر سے ارادہ یہی تو ہے
آنکھوں بس گیا جو نظارہ یہی تو ہے
لے کر قران ہاتھوں میں دنیا سے یہ کہو
دستور باوقار ہمارا یہی تو ہے
جن پر چلا نظر کا تری وار مرگیا
تیری قسم میں تجھ پہ لگاتار مر گیا
حضرت نادر اسلوبی: جنہیں حیدراباد میں مکتب صفی کے نمائندہ شاعرحضرت طالب رزاقی سے شرف تلمّذ حاصل رہا۔ کئی شعری مجموعوں کے خالق ہیں۔ بہت دیر تک داد و تحسین کی دھوم میں اپنا کلام سناتے رہے۔
زیست ہے رقص کناں آج جو چاہو وہ کرو
مانگ صندل سے بھرو چاند ستاروں سے بھرو
عشق ِ خودّار کو بھی حسن کے قدموں پہ دھرو
ہاں مگر یاد رکھو گردش ِ دوراں سے ڈرو