المنصور ایجوکیشنل ٹرسٹ دربھنگہ کے زیر اہتمام اردو زبان کا فروغ اور ہماری ذمہ داریاں ‘‘کے عنوان سے سمینار کا انعقاد
دربھنگہ ( نمائندہ ) المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفےئر ٹرسٹ دربھنگہ کے زیر اہتمام مدرسہ حمیدیہ قلعہ گھاٹ دربھنگہ کے کانفرنس ہال میں’’اردو زبان کا فروغ اور ہماری ذمہ داریاں ‘‘کے عنوان سے منعقد ایک روزہ قومی سمینار کا انعقاد کیا گیا جس کی صدارت عالمی شہرت یافتہ شاعر پروفیسر حافظ عبدالمنان طرزی نے کیا جب کہ مہمان خصوصی کے طور اردو راج بھاشا کے ڈائرکٹر امتیاز احمد کریمی ،معروف ادیب و شاعر قاسم خورشید،ضلع اقلیتی فلاح کے آفیسر وسیم احمدتھے۔مہمان اعزازی کے طور پر ڈاکٹر امام اعظم(ڈائریکٹر ریجنل سنٹر کولکاتا)، حنیف ترین (دہلی)، خلیق الزماں نصرت ، نذیر فتح پوری شامل تھے۔ پروگرام کی نظامت معروف افسانہ نگار ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے بحسن و خوبی انجام دیا۔ ٹرسٹ کے سکریٹری نے کہا کہ آج پھر مجھے احساس ہوا کہ اللہ رب العزت کا خاص فضل میری ذات پر ہے ، اتنا بڑا ادبی کام اس خاکسار سے اس نے لے لیا۔ میں اپنے تمام ادباء ، شعرا ء اور سامعین کا بطور خاص شکر گذار ہوں کہ ان کے تعاون کے بغیر مجھ سے یہ کام ہر گز نہیں ہوسکتا تھا۔ میں اپنے تمام رفقائے کار کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے سکریٹری اردو سکریٹریٹ (راج بھاشا ) امتیاز احمد کریمی نے کہا کہ اردو بہار کی دوسری سرکاری زبان ہے اس کی بہتری کیلئے ریاستی حکومت پوری طرح کوشاں ہیں لیکن اردو والوں کو بھی اس طرف توجہ دینا اور فائدہ اٹھانا چائیے ۔محکمہ اردو ڈائریکٹریٹ جلد ہی۴۰۰؍ عہدو ں پر اردو ملازمین کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ سمینار کے مہمان خصوصی امتیاز احمد کریمی نے کہا کہ محکمہ راج بھاشا اپنے سطح پر کام کررہا ہے لیکن اس کیلئے اردو داں طبقہ کو بھی کو عملی پہل کرنا چائیے اور کم از کم چھ ماہ تک اردو میں درخواستیں دینا چائیے ۔سرکاری دفتر میں اگر اردوچلن میں لائیں گے توحکومت دو ہزارمزید ویکنسی لاسکتی ہے ۔انہو ں نے مزید کہا کہ ہم ایسی تعلیم حاصل کریں کہ دوسری زبان کے لوگ ہمارا مقابلہ نہ کرپائیں۔ اردو دانوں کیلئے آج روزگار کی کمی نہیں ہے البتہ صلاحیت ہونی چائیے ۔ ہم اہل اردو کی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کو اردو پڑھائیں اور انہیں مادری زبان سے آراستہ کریں ۔ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے معروف ادیب و شاعر قاسم خورشید نے کہا کہ ارد وکی آبیاری ہم نہیں کرتے بلکہ یہ زبان ہماری آبیاری کررہی ہے ۔ یہ کبھی ختم نہیں ہوسکتی ہے ۔ اگر کسی ایک زبان میں بھی مہارت حاصل کرلی جائیں تو دوسری زبانیں بھی آسان ہوجاتی ہے ۔ یہ زمین مظہر امام کی ہے اس لئے مایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے ضلع اقلیتی فلاح افسر محمد وسیم احمد نے کہا کہ جب بھی اردو کے پروگرا م میں جاتا ہو ں تو دو پہلو سے بڑی مایوسی ہوتی ہے ۔ ایک اردو کو سننے والوں کی تعداد کم رہتی ہے ۔ دوسرے مقالہ نگار ان مقالہ پڑھ کر غائب ہوجاتے ہیں ۔ ادیب اور شاعر کو اچھی کتابوں کو منظر عام پر لانا چائیے تاکہ اس کے تئیں پڑھنے والو ں کی دلچسپی قائم رہے ۔ اس موقع پر ڈاکٹر قیام الدین نے کہا کہ اردو فروغ کے لئے یہ لازمی ہے کہ ہم سب مل جل کر قدم سے قدم ملا کر کام کریں اور اخبارات ، رسائل وجرائد ضرور خریدیں ، خود پڑھیں اور اپنے بچوں کو پڑھائیں۔ڈاکٹر منظر سلیمان نے کہا کہ ابتدائی سطح پر اردو کی تعلیم کا انتظام بڑے اچھے طریقے سے ہونا چاہئے ۔قواعد کی پڑھائی شروع کی جانی چاہئے۔صدر عالم گوہر نے کہاکہ بچے ابتدائی دور میں اردو پڑھ کر جب آگے جاتے ہیں تو انہیں ساری کتابیں ہندی یا انگریزی میں ہوتی ہیں اس وجہ سے وہ کافی پیچھے رہ جاتے ہیں اس لئے اعلیٰ تعلیم کے لئے کتابوں کی فراہمی اردو زبان میں ہونی چاہئے۔ اس موقع پر ڈاکٹر مجیر احمد آزاد نے کہا کہ ہمیں اپنی زبان میں کسی طرح کی شرمندگی نہیں کرنی چاہئے ۔ انگریزی ہندی کی تعلیم تین ہزار ماہانہ دے کر پڑھواتے ہیں لیکن تین سو روپے میں اردو پڑھانے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ جناب خورشید حیات نے فرمایا کہ دربھنگہ ایک ایسا شہر ہے جس کی ایک تہذیب بھی ہے اور تاریخ بھی۔ انہوں نے مزید کہا کہ انگریزی پڑھئے لیکن اردو کو مت چھوڑئیے۔ دوسروں کو ذمہ دار نہ ٹھہراکر خود پر ذمہ داری لینی چاہئے ۔ ڈاکٹر امام اعظم ریجنل ڈائرکٹر مانو کولکاتا نے اپنے خطاب میں کہاکہ اردو تلفظ کی زبان ہے ، اردو قومی یکجہتی کی زبان ہے ۔ہمیں ہرگزمایوس ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہمیں اردو زبان کو بہتر ڈھنگ سے پڑھنا ہے اس سے ہماری ہر زبان بہتر ہوگی ۔مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے زیر اہتمام اردو کی خدمت کا بڑا کام ہو رہا ہے ۔ دہلی سے تشریف لائے مہمان ڈاکٹر حنیف ترین نے فرمایا کہ اردو کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔ مدتوں سے زبان زندہ ہے اور زندہ رہے گی ۔ اردو محبت کی زبان ہے اردو مختلف مذاہب کی زبان ہے ۔اسی طرح ابرار احمد اجروی نے کہا کہ ہمیں منفی طریقہ کا ر اختیارنہیں کرنا چاہئے بلکہ مثبت رویہ اختیار کرنا چاہئے ۔ اردو کا گہرا رشتہ مدارس سے ہے ۔ جب تک مدرسہ زندہ رہے گا اردو مر نہیں سکتی۔سراج اللہ صاحب نے کہا کہ اردو بہت سی خوبیوں کی وجہ سے دنیا کے بہت سے ملکوں میں پڑھی جاتی ہے ۔ اس زبان میں ہماری ثقافت اور مذہب کا معاملہ مضمر ہے ۔ اسکول کے طالب علموں میں اردو زبان سے رغبت پائی جانی چاہئے۔ اسکالر علاّم الدین صاحب نے اپنی گفتگو کے دوران فرمایا کہ لوگ کہتے ہیں کہ اردو مر رہی ہے اور اس کے لئے سرکاریں ذمہ دار ہیں لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے ۔ ہم خود بھی اس کے ذمہ دار ہیں ۔ ہمیں بنیادی سطح پر آکر اپنی کمزوریوں کو تلاشنا ہوگا تب اگلی نسلوں میں جا کر ہمیں کچھ حد تک کامیابی مل سکتی ہے ۔وہیں غلا م نبی کمار نے کہا کہ اردو کا دائرہ بہت وسیع ہو چکا ہے ۔ واٹس ایپ ، فیس بک اور انٹر نیٹ کے دور میں اردو دنیا ایک دوسرے سے جڑ گئی ہے ۔ عالمی سطح پر اس کے فروغ میں کافی مدد لی ہے ۔ امید ہے اردو کی ترقی اور زیادہ ہوگی۔ کشمیر کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ اردو کے اخبارات کی سب سے یادہ نشو ونما یہاں ہو رہی ہے ۔ رسائل کے معاملہ میں دہلی کاد وسرا نمبر ہے ۔ بہار ایسی ریاست ہے جہاں اردو اچھی حالت میں ہے ۔ مستفیض احد عارفی نے اپنی بات رکھتے ہوئے کہا کہ اردو جسے ہم زبان کے زمرے میں رکھتے ہیں یہ زبان عوامی زبان ہے لوگ کہتے ہیں کہ اردو زبان مر رہی ہے یہ بات بالکل غلط ہے ۔ اس طرح کا پرچار صرف اردو کو نقصان پہنچانے والا ہے ۔ وہیں اس موقع پر انور آفاقی صاحب نے کہا کہ ’’ذہن کی تاریکیاں مٹ جائیں گی۔شمعِ فکر وفن جلاتے جائیے۔ڈاکٹر احسان عالم نے اپنی گفتگو میں کہا کہ گذشتہ چند سالوں سے دربھنگہ میں اردو کی سرگرمیاں کافی تیز ہوئی ہیں۔نئی نسل کے افراد کا شوق بھی اردو کی جانب بڑھا ہے ۔ المنصور ایجوکیشنل اینڈ ویلفئر ٹرسٹ اور ساہتیہ کار ادبی سنگم نے اس سلسلے میں کئی پروگرام شروع کیا ہے ۔اس موقع پرڈاکٹرعبدالمتین قاسمی نے کہا کہ اردو کے فروغ کے لئے عملی اقدامات کیا جانا چاہئے۔ اویناش امن نے کہا کہ سارے جہاں میں اردو کی دھوم ہے ۔ اردو سینکڑوں دلوں پر راج کررہی ہے ۔یہ سچ ہے کہ اردو کا دائرہ کچھ حد تک سکڑتا جا رہاہے ہمیں بنیادی سطح پر اس کے فروغ کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے ۔پروفیسر طرزی نے اس شعر سے ہمت افزائی فرمائی ہے:آج ثابت جشن کی پھر کامیابی سے ہوا*فضل ہے منصور خوشتر پر خدائے پاک کا
کنوینر ڈاکٹر منصور خوشترنے مہمانوں کاشکریہ ادا کیا اور شرکاء کی ستائش پراحسان مندی ظاہر کرتے ہوئے اپنے عزائم پر کار بند رہنے کااعلان کیا ۔ پروگرام میں کمیٹی کے معروف ادیب انور آفاقی،ڈاکٹر انتخاب ہاشمی، نوجوان ناقد احسان عالم، معروف رومانی شاعر جنید عالم آروی، منظر سلیمان، راجا خاں، وسیم اختر، رفیع نشتر، حبیب حسین ، نوشاد خاں، جاوید اختر، محمد افضل ، محمد شمشاد پیش پیش رہے ۔