تحریر شازیہ عندلیب
اکثر ادیب اور بیشتر شاعر حضرات اپنی تخلیقات میں حد سے تجاوز کر جاتے ہیں۔انکی بیخودی اور جذباتی پن اخلاقی اور مذہبی حدوں کوعبور کر جاتا ہے جو کہ درحقیقت معیوب بات ہے۔اس طرح ان تخلیقات سے مستفید ہونے والے کسی نہ کسی حد تک اس غلطی میں شریک ہو جاتے ہیں اگر وہ اس پر اعتراض نہ کریںتو۔مگر یہ اعتراض اور تنقید اصلاحی نقطہ نظر سے ہونا چاہیے تنقیدی اور استہزائیہ نہ ہو۔یہ خیال تو اکثر اس قبیل کی تخلیقات اور ڈرامے دیکھ کر آتا تھا مگر ایک شاعر کی شاعری سننے کے بعد س خیال نے شدت اختیار کر لی۔ان شاعر نے اپنی نظم میں اپنی مرحوم ماں کے نام ایک محبت بھری نظم لکھی۔مگر اس میں انہوں نے ایک شعر میں ماں کا درجہ نعوذباللہ خدا سے جا ملایاجو کہ بالکل درست بات نہیں ہے۔اسی طرح کچھ لوگ لطائف میں اللہ تبارکو تعالیٰ کے بارے میں غیرحقیقی باتیں گھڑ لیتے ہیں جو کہ انتہائی نامناسب بات ہے۔حساب قبر اور روز قیامت کے حساب کے بارے میںجھوٹے قصے گھڑ لیتے ہیں اور ہنسی مذاق کرتے ہیں۔
کسی سیانے کا قول ہے کہ ایسی خوشی سے دور رہو جو بعد میں غم کا کانٹا بن کر چبھے۔
ایسا نہ ہو کہ ہماری یہ غلط باتیں ہمارے لیے مصیبت یا سزا بن جائیں۔اسی طرح اکثر ٹی وی ڈراموں میں ایسے ایسے غیر اخلاقی اور دہشتناک قسم کے ڈائیلاگ بولے جاتے ہیں جنہیں سن کر ایک باشعور انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔دیکھنے اور سننے والا سوچتا ہی رہ جاتا ہے کہ اگر یہ سب باتیں سچ ثابت ہو جائیں تو انکا کیا حشر ہو۔اس بارے میں ڈرامہ نگاروں اورمکالمہ نگاروں کوں کو بھی سوچنا چاہیے۔فیصل آباد کے ایک بوائز کالج کا واقعہ ہے کہ لڑکوں کا گروپ کالج ٹرپ پر گیا۔وہاں انہوں نے مذاق کا پروگرام بنایا ۔ایک لڑکے کو چارپائی پر ڈال کر پیسے اکٹھے کرنے شروع کیے۔انہوں نے لوگوں سے یہ کہا کہ یہ لڑکا فوت ہو گیا ہے اور اس کی تدفین کے لیے رقم چاہیے۔جب چندہ اکٹھا ہو گیا تو انہوں نے اس لڑکے سے کہا کہ اب اٹھو پیسے اکٹھے ہو گئے ہیں چلو موجیں کریں۔ مگر وہ لڑکا اس کے بعد کبھی نہ اٹھا۔کونکہ وہ واقعی اس دنیا میں نہیں تھا۔
ٹی وی آرٹسٹوں کو بھی عجیب و غریب کردار ادا کرنے پڑتے ہیں۔میری باجی کی ایک دوست جو کہ سینیر ٹی وی آرٹسٹ ہیں انہوں نے جب نیا نیا ٹی وی پر کام کرنا شروع کیا۔ان کے والدین اس بات کے بہت مخالف تھے مگر وہ چھپ چھپ کر کام کرتی تھیں۔اس زمانے میں ٹی وی بہت کم لوگوں کے گھروں میں ہوتا تھا اس لیے گھر والوں کو جلد پتہ نہ چل سکا۔مگر بعد میں وہ کافی مشہور ہو گئیں۔ابھی بھی اکثر ڈراموں میں میں انہیں دیکھتی ہوں۔شروع شروع میں انہیں ایک ڈرامے میں ہیروئن کا کردار ملا اس ہیروئن کی ماں ڈرامہ میں فوت ہو جاتی ہے۔جب وہ اس کی شوٹنگ کر چکیں تو چند ہفتوںبعدان کی اپنی ماں حقیقت میں فوت ہو گئیں۔غرض یہ کہ آدھ گھنٹے کے اس ڈرامے میں آرٹسٹ اپنی روزی اور شہرت کی خاطربہت کچھ دائو پر لگا دیتے ہیں۔اس حوالے سے ایک اور واقعہ بہت حیرت انگیز اور سبق آموز ہے۔ایک سینیر فلمسٹار جس کی آجکل چالیسویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔وہ راولپنڈی کے ایک ڈرامہ سیریل میں خاکروب کا مزاحیہ کردار ادا کرتا تھا ۔جس میں وہ مشہور امریکی فلم اسٹار کی نکل کیا کرتا تھا اور ایک خوبصوعرت فلمی اداکارہ سے شادی کا خوب دیکھا کرتا تھا۔آپ جانتے ہیں کہ ڈرامہ سیریل کے لیے لکھے جانے والے اس کواب کا کیا انجام ہوا اس خواب کو واقعی تعبیر مل گئی اور ان دونوں کی شادی ہو گئی اداکارہ کی ماں کے شدید اختلاف اور لڑائی کے باوجود۔اور یہ شو بز کا جوڑا آجکل ہنسی خوشی زندگی گزار رہاہے۔اسی لیے بزرگ نصیحت کرتے ہیں کہ ہمیشہ اچھی بات کرنی چاہیے کوئی پتہ نہیں ہوتا کہ کون سی گھڑی قبولیت کا لمحہ ہو اور آپکی اچھی بری باتیں بارگاہ ایزدی میں سن لی جائیں۔اسی طرح دیکھنے میں آیا ہے کہ بچے بہت شوق سے چور سپاہی کے کھیل خود بھی کھیلتے ہیں اور وڈیو گیمز پر بھی اسی طرح کی فلمیں مقبول ہیں۔پھر ایک روز یہ سین اور کھیل اس وقت سچ ثابت ہو جاتے ہیں جب چور ڈاکو سچ مچ ان کے گھروں پر دھاوا بول دیتے ہیں۔
ان سب باتوں کی حقیقت کیا ہے دانائوں کا قول ہے کہ انسان جو بوتا ہے وہی کاٹتا ہے۔شائید ایسا کوئی واقعہ آپ کے ساتھ بھی ہوا ہو جس میں آپ نے محض بے خیالی میں بار بار کچھ کہا ہو یا کیا ہو اور بعد میں وہ بالکل سچ ہو گیا۔سائنسی تحقیق کے مطابق ایک ہی عمل کو شعوری یا لا شعوری طور پر بار با دہرانے سے وہ عمل کائناتی انرجی کے ذریعے محفوظ ہو جاتا ہے۔چاہے وہ اچھا ہو یا برا۔دعا ہو یا بد دعاگالی ہو یا اچھے الفاظ۔جو بچے بچپن سے ہی عشقیہ فلمیں دیکھتے ہیں گیت گاتے ہیں وہ بڑے ہو کر عاشق مزاج ہی بنتے ہیںایک نہ ایک دن عشق کر کے ہی رہتے ہیں اور کئی کئی بار کرتے ہیں۔اپنے ہر عشق کو سچا بھی قرار دیتے ہیں۔جبکہ مذہبی اور ادبی و علمی ماحول میں پرورش پانے والے بچے لغو اور بیکار باتوں سے بیزار رہتے ہیں اور زندگی میں کوئی نہ کوئی اچھا کام کر کے دکھاتے ہیں۔
مذہبی توجیہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص صدق دل سے دعا کرتا ہے اور ساتھ میں کوشش بھی کرتا ہے تو حق تعالیٰ اس کے لیے ایک فرشتہ مقرر کر دیتے ہیں جو اسکی دعائوں کو اللہ کے ہاں مقبول بناتا ہے۔دعائوں کی قبولیت کا انحصار انسان کی نیت اور اس بات پر ہے کہ کس شدت سے مانگی گئی ہے۔اب یہ فیصلہ کرنا آپ کے ختیار میں ہے کہ آپ اپنے آپ کو کس طرح کامیابی اور خوشی سے ہمکنار کرتے ہیں۔
لاشبہ آپ نے بڑی فکر انگیز بات کی ہے۔ سینما، ٹی وی اور نیٹ نسلِ نو کا ذہن بگاڑنے میں اہم کردار ادا کررہا ہے اور اس کو روشن خیالی کا نام دے رہا ہے۔ جھوٹ پر مبنی فلمیں اور ڈرامے برائی اور بدکرداری کو حسین، رنگین اور اچھائی بنا کر پیش کررہے ہیں۔ زبانوں پر ذکر الہٰی کی بجائے گانوں کی دھنیں جاری ہوتی ہیں۔فلموں سے متاثر ہو کر ناجائز تعلقات استوار کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔مہم جوئی کے شوق میں جرائم کی راہ پر چل پڑتے ہیں۔”یہ میری زندگی ہے میں جو بھی چاہے کروں “قسم کے ڈائیلاگ زبانوں پر ہیں۔ ان حالات میں بچوں کی تربیت سے لاپروا والدین بالآخر اپنی اولادکے ہاتھوں دکھ اٹھاتے ہیں۔
والسلام
مخلص