نیلاب
نیلوفر کھر
از خود نوٹس ۔۔ جناب چیف جسٹس آف پاکستان
ّّّّ_________________
عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اہم قومی معاملات پر ازخود نوٹس لے کر جہاں قومی دھارے کی سمت درست کرنے کی کوشش کی ہے وہاں قومی اداروں کے معاملات بھی بہتری کی طرف گامزن ہوئے ہیں اور قوم کو انصاف کے عام ہونے کی اُمید نظر آنے لگی ہے۔ توانائی کے بحران نے قوم کو جن مشکل حالات سے دو چار کیا ہوا ہے ۔ اس کے حل کے لئے ہماری وفاقی و صوبائی حکومتوں اور اربابِ اختیار کے پاس بظاہر کوئی فارمولا نہیں ہے۔ معاملات روز بروز بگڑتے جا رہے ہیں۔ اب تو وا ضح طور پرتوانائی کے ساتھ ساتھ پانی کے سنگین بحران کے قدموں کی چاپ بھی سنائی دینے لگی ہے۔ ماہرین ان مسائل کا حل نئے ڈیموں کی تعمیر کو قرار دیتے ہیں۔ فنی ماہرین کے بقول موجودہ حالات میں کم ازکم دو نئے سٹوریج مرحلہ وار تعمیر ہونے چاہئیں اور ان میں کالاباغ ڈیم کا منصوبہ ہر لحاظ سے تیار ہے۔سب جانتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے ایک طرف تو 601 ملین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت بڑھے گی اور دوسری طرف 3600 میگا واٹ سستی بجلی بھی حاصل ہو گی۔صرف یہی نہیں بلکہ کالاباغ ڈیم کی تعمیر سے گندم اور دوسری اجناس کی سالانہ درآمد میں چار ملین ٹن سے زائد کی بچت ہوگی یوں ہم اپنا تین ارب روپئے سے زائد زرِ مبادلہ بھی بچا سکیں گے۔ دیکھا جائے تو بڑے ڈیم قوم کی اسٹرٹیجک ضرورت کی بھی ہیں۔
لیکن یہ ہماری قوم کی بد نصیبی اور ہمارے سیاستدانوں کی کوتاہ نظری ہے کہ کالاباغ ڈیم جیسا کثیر المقاصد فنی منصوبہ متنازعہ بن گیا ہے۔حالانکہ اس منصوبے کی فزیبلٹی رپورٹوں اور دیگر معاملات پر اب تک اربوں روپئے خرچ ہو چکے ہیں۔لیکن بعض مفاد پرستوں نے اپنے مفادات کی خاطر کالاباغ ڈیم کو اس قدر متنازعہ بنادیا ہے کہ موجودہ حالات میں ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے فیڈریشن کی اکائیوں کے درمیان سنگین نوعیت کے اختلافات پیدا ہو چکے ہیں۔جوفنی ماہرین کی نذر میں تکینکی لحاظ سے بلا جواز خدشات کے علاوہ کچھ نہیں ہیں۔
دورِ حاضر میں کوئی بھی حکومت یا سیاسی جماعت کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا بوجھ اُٹھانے کی سکت نہیں رکھتی۔ قیادت کے قحط الرجال میں صرف عدالت عظمیٰ ہی امید کی ایک کرن کے طور پر سامنے آتی ہے۔ میری دانست میں ملک و قوم کے لئے ناگزیر فنی منصوبے کی تعمیر کو سپریم کورٹ آف پاکستان ممکن بنا سکتی ہے۔ اگر جناب جسٹس اس معاملے پر از خود نوٹس لیتے ہوئے فُل کورٹ بنچ تشکیل دیں جو چاروں صوبوں کے فنی ماہرین کی مشاورت اور وفاق کی اکائیوں کا موقف سُننے کے بعد کالاباغ ڈیم کے حوالے سے اپنا فیصلہ صادر فرمائے۔تو اِ س عظیم الشان فنی منصوبے کی تعمیر ممکن ہو سکتی ہے۔ایسا امریکہ میں ہو چکا ہے۔ دریائے ٹیمز یا ٹیمز کینال کی تعمیر کا معاملہ ریاستوں کے درمیان اختلاف کی وجہ بنا تو وہاں کی سپریم کورٹ نے معاملے کو تکینکی بنیادوں پر حل کیا جِسے وہاں کی تمام قوتوں نے تسلیم کیا اور ٹیمز کی تعمیر ممکن ہو سکی۔
اس سے پہلے بھی لاہور ہائی کورٹ نے کالاباغ ڈیم کی تعمیر کو تعمیر کرنے کا حکم صادر کیا تھا۔ یہ معاملہ شاید اب سپریم کورٹ میں زیر غور ہے۔ ملک کے فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ عدلیہ کی بحالی کی تحریک کے نتیجے میں پاکستان کی عدلیہ کا جودور شروع ہوا ہے اس نے پاکستان کے اس قابلِ ذکر ادارے کا وقار اور ساکھ بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیاہے۔ لاپتہ افراد کے کیس، کراچی کے صورتحال اور بلو چستان کی مخدوش صورتحال کے حوالے سے عدالتِ عظمٰی کے اقدامات قوم کی نظروں میں انتہائی مستحسن اقدامات ہیں۔
کالاباغ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ بہت سادہ ہے۔یہ صرف رائلٹی کا مسئلہ ہے۔مذکورہ ڈیم کا پاور ہاؤس صوبہ پنجاب کے علاقے میں تعمیر ہوگا۔اس لئے اس کی رائلٹی بھی پنجاب کو ملے گی۔میں تو یہی کہوںگی کہ یہ صرف رائلٹی اور Compensaition کا معاملہ ہے۔رائلٹی کے حوالے صوبہ خیبر پختونخواہ کے تحفظات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ماضی میں تربیلا ڈیم کی رائلٹی صوبہ خیبر پختونخواہ کو درست طریقے سے نہیں دی گئی۔اس کے ذمہ دار سابق صدور فیلڈ مارشل ایوب خان ، اسحٰق خان سمیت وہ حضرات ہیں جن کا تعلق صوبہ خیبر پختونخواہ سے تھا اور وہ واپڈا کے چیئر مین رہے۔سپریم کورٹ آف پاکستان وفاق سے آئینی اور قانونی ضمانت حاصل کرکے صوبہ خیبر پختونخواہ کے رائلٹی سے متعلق خدشات کو دور بھی کر سکتی ہے۔
توانائی اور پانی کے بحران نے ہماری زراعت اور صنعت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر انسان نے آبی ذخائر کی تعمیر و ترقی کے عمل کو بالائے طاق رکھ کر موجودہ شرح سے پانی کے استعمال کو جاری رکھا تو آئندہ پانچ سالوں میں دنیا کے دو ارب اور 70 کروڑ انسان پانی سے محروم ہو جائیںگے۔المیہ تو یہ ہے کہ ہمہ جہتی آلودگی کی وجہ سے زمین پر تازہ پانی کی مقدار میں اضافے کا عمل رُک چُکا ہے۔سائنس اور ٹیکنالوجی کی تمام تر ترقی کے باوجودا س وقت عالم یہ ہے کہ دنیا میں ایک ارب بیس کروڑ افراد کو پینے کا صاف پانی میسرو مہیا نہیں ہے۔ہر سال 50 لاکھ سے زائد انسان مضرِ صحت پانی کے استعمال کی وجہ سے مہلک بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔بڑا ڈیم نہ ہونے اور آب رسانی کے نظام میں اسقام اور نقائص کی بھر مار کی وجہ سے پاکستان میں ہر سال لاکھوں ایکڑ فٹ پانی ضائع ہو رہا ہے۔اگر پاکستان کو درپیش پانی کے زبردست اور سنگین بحران پر قابو پانے کے لئے جنگی بنیادوں پر فوری اور ہنگامی نتائج خیز اقدامات نہ اُٹھائے گئے تو آنے والے دنوں میںپاک سر زمین کے بہت سے علاقے بھی موزمبیق اور ایتھوپیا کے ریگزاروں کی طرح بنجر اور ویران ہو جائیں گے۔ملکی اقتصادی ترقی اور توانائی کی ضروریات اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ محب وطن قیادت بڑے ڈیم کی تعمیر جیسے اہم ، حساس اور ناگزیر منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ایک میز پر سر جوڑ کر بیٹھے اور ملک و قوم کے بہتر اور وسیع تر مفاد میںکوئی مشترکہ لائحہ عمل اختیار کرے۔آثار و قرائن یہی بتاتے ہیں کہ بڑے ڈیمز کی تعمیر کے معاملہ کو اب مزید موخر کرنا اجتماعی خود کُشی کے مترادف ہے۔ اگر اس معاملے میں مزید تاخیر کی گئی تو یہ معاشی ترقی کے حوالے سے چاروں صوبوں باالخصوص چھوٹے صوبوں کو مزید پسماندہ رکھنے کی ایک سازش ہو گی۔سنجیدہ حلقے با خبر ہیں کہ اب لمحوں کی تاخیر بھی عوام کو عشروں کے لئے غربت اور پسماندگی کی دلدل میں دھکیلے گی۔لہذا اب مزید وقت ضائع کئے بغیر کسی بڑے ڈیم کی تعمیر سے متعلق جلد فیصلہ کرنا ہوگا۔۔۔ جناب چیف جسٹس قوم آپ کی جانب دیکھ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔ ایک از خود نوٹس اور
نیلو فر کھر
neelofarkhar@yahoo.co