اساطیری افسانے کی موت

عمران عاکف خان

فکشن کی موجود ہ صدی اور اس میں لکھے جانے والا فکشن، خواہ موضوعات و عناوین،اسالیب و بیانیہ کے تنوع و جدت سے مالا مال ہو،اسی طرح وہ اپنی مقبولیت وعروج کے ساتویں آسمان پر ہو مگر ایک اہم ترین عنصر سے وہ کلی طور پر عاری ہو چکے ہیں ۔اس عنصر سے جس نے ایک عہد میں داستانوں اور روایتی کہانیوں میں شامل ہو کر ایک ایسی دنیا سے فکشن کے قارئین کو متعارف کرایا تھا جسے ہندی زبان میں ’رہسمیہ“ کہتے ہیں۔یعنی حیرتناکیوں اور مافوق الفطرت و دیومالائی عناصر و مخلوقات اور ان کی دنیا کے اسرار ۔ وہ ایسی دنیا تھی جو نفس الامر اور ظہور میں لاموجود ہوتے ہوئے بھی سمت غیب میں موجود تھی ۔اس کے احوال سن کر بچے تو بچے، بڑے بھی کانپ جاتے تھے۔اس کے باوجود دل چسپی اورتوجہ کا عالم یہ تھا کہ کہنے والا بھوت پریت ، پری ،دیو ،جادوگروں اورشعبدہ بازوں کی کہانیاں کہتا ہی رہے،رات گزرتی رہے اور اس کی کبھی سحر نہ ہو۔
قدیم داستان و روایت گویان سے جاری اس سلسلے کی آخری کڑیاںجب ممتاز شیریں،صدیقہ بیگم سیوہاروی، انتظارحسین،قرة العین حیدر،راجندر سنگھ بیدی،، جدید افسانہ نگاروں میںڈاکٹرسلیم اختر،انور سجاد،خالدہ حسین،محمد منشا یاد،رشید امجد اور اعجاز راہی تک آتے آتے دم ہی توڑگیا اور مابعد جدید اور موجودہ دور میں تو اس کی حقیقت پسندی کے بلڈوزروں نے اس کے پرشکوہ مزار کے نام و نشان ہی مٹا دیے۔
اردوافسانے سے اساطیری عنصر ایسے غائب ہو ا جیسے کبھی اس کا وجود تھاہی نہیں۔بے سمت اور تیز رفتار دوڑتی بھاگتی پوسٹ ماڈرن ایج کی سائنس و ٹیکنالوجی، الیکٹرونک گیجٹس کی چکاچوندھ اور ان کی عمل کاری نے انسان کوایسا حقیقت پسند بنا دیا کہ وہ ادب ،تاریخ،فلسفہ،اسلوب بیان وطرز تحریر، سب کو بے کار محض اور دھوکہ و فریب سمجھنے لگا ہے۔اسے سطورکے بین السطورکی مخفی حقیقتوں پر نہ اعتبار ہے اور نہ ان کی جستجو کی فکر ۔اس کا فارمولہ توصاف صاف 2+2=4ہے۔مگر وہ اس پر غور نہیں کرتا کہ یہ عدد 2+2=22بھی ہوسکتا ہے۔نیز اگر یہ ممکن ہے تو کیوں کر؟اگر وہ اس پر غور کرلے تو یہیں سے اساطیری عناصر کا وہ کرم خوردہ مضبوط دَر کھلنے لگتا ہے جس کے صحن ، دلان،برآمدوں،دریچوں میں بدنیت بھوت پریت،جادوگرایک معصوم،نیک ،پروین اور ننھی پری کی جان کو آئے ہوئے ہیں ،وہ اس کے کمروں و دریچوں میں چیخیں مارتی پھررہی ہے،اس معصوم کا باپ یا ماں، آہنی سلاخوں یا قد آدم آسیبی آئینے میں قید ہے۔یہ نہیں تو،کم سے کم اس کا تہذیبی ورثہ،ثقافتی قدریں،فوک اور لوک ہیریٹیج ضرور ہے۔ قصہ مختصر،آج کا حقیقت پسند انسان اس طرف جاتا ہی نہیں ۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اب اس کے لیے جو ادب تخلیق کیا جارہا ہے،اس کی بے ثباتی اور بے اثری کا عالم یہ ہے کہ چندلمحات کے لیے بھی وہ قاری کے دل و دماغ میں نہیں رہتا۔تھرڈ کلاس سگریٹ کے دھوئیں کی طرح وہ چند ساعات میں ہی زہریلی ہواو ¿ں میں تحلیل ہو کر رہ جاتا ہے۔اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مابعد جدید دور میں Fictionکوحقائق نامہ اور non-fictionبنا دیا گیا ہے۔ظاہر سی بات ہے ،اس کی دلچسپی ،دلکشی و جاذبیت کا عنصر توہَوا ،ہونا ہی تھا۔آج کی اچھی سے اچھی کہانی بھی اخبار کی بے حیثیت خبر یا نیوز چینلس کی غیر ضروری نیوز بن کر رہ گئی ہے۔آج کا افسانہ سائنس و ٹیکنالوجی ، مشینوں ، آن لائن و ای سرویسیز کی برزخ میں تڑپ رہا ہے۔امر وز اس کی کیفیت یہ ہے کہ وہ افسانہ ،نہ ہو کر بھی افسانہ ہے اور افسانہ ہو کر بھی افسانہ نہیں ہے۔
جملہ ہائے معترضہ:
ادبی اور لٹریری نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو اسطور، جس کی جمع اساطیر ہے، فی الواقع ما بعد الطبیعی دنیا ، کائناتی نیرنگی و بوقلمونی اور انسانی نفسیات کی پیچیدگی کو سمجھنے و سمجھانے کی تخیلی اور سرّی کاوش ہے۔یہ فطرت نہیں ہے اور نہ تاریخ ہے ،تاہم اسے طبیعی تاریخ ضرور کہا جاسکتا ہے ۔پھر الگ الگ دیار اور اماکن کے لحاظ سے ان کی اہمیت اور اثر کاری مختلف ہے۔اگر ہم ہندوستان کی ،گڑھیوں ،قلعوں،قدیم عہد میں بنے مندروں اور گپھاو ¿ں کی اساطیر کا جائزہ لیں تو ان کا اثرکاری مغربی دنیا کے پیلیسس،گرجاگھروں اور معابد سے زیادہ پُر اثر اور سحرکار ہوں گی۔ہندوستانی اساطیر و دیومالا ہماری قدیم تہذیب و تاریخ کا بنیادی متن تصور کیے جاتے ہیں۔ان سے آستھا وعقائد کی وابستگی ،ان کوتہذیب سے زیادہ مذہبی حیثیت عطا کرتی ہے۔بھارت ورش میں موجود مختلف مذہبی رسوم اور تہواروں کا ان اساطیری قصوں سے رشتہ، انھیں ایک خاص تہذیبی و ثقافتی سیاق بھی عطا کرتا ہے۔اس طرح ہمارے قدیم ادب یعنی وید، پران، رامائن اور گیتا وغیرہ سے ماخوذ اساطیر اپنے سروکاروں کے لحاظ سے مختلف ابعاد کے حامل ہوجاتے ہیں۔ہماری تخلیقی و تخیلی دنیا نے کس طرح اساطیر سے خود کو منسلک کیا اور اسطوری تلمیحات میں اردوفکشن کی حسیات میں ہندوستانی ذہن و تہذیب کو کس انداز سے پیوست کیا؟اس کے قدیم داستانوں ،کہانیوں اور روایتوں کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔یہ کہنا تحصیل حاصل ہے کہ کہانیوں تہذیب و ثقافت کی اہم ترین عکاس اور مظہر ہوتی ہے۔یعنی aspect of culture important۔انسانی تہذیبیں کہانیوں میں محفوظ ہوکر بعد والوں کے لیے یافت و دریافت کا ذریعہ بنتی ہیں۔
بہت مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس ضمن میں شکیل الرحمان کا قول اپنے خیالات کی تائید میں پیش کروں،جس میںوہ کہتے ہیں:
”فنون میں نفسیاتی تجربو ں کا سفر نہ جانے کب سے جاری ہے تخلیقی فنکاروں نے متھ کے دللکش معنی خیز تجربوں کو نفسیاتی صورتیں دی ہیں۔رومانیت کے اصول سے آشنا کیا ہے۔انہیں ڈرامائی پیکروں میں ڈھالا ہے اور اکثر استعاروں میں جلوہ گر کیا ہے۔اساطیر کا مطالعہ بنیادی طور پر معصوم، پرُاسرار اور حیرت انگیز اور قدیم تر انسانی تجربوں کی نفسیات کا مطالعہ ہے۔“(ادب کی جمالیات،ص:40،دہلی۔ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔2011)
القصہ ——— یہ بحث تو خالص ادبی تحقیقی ہے،اس کا تعلق سطور بالا سے صرف اتنا ہی ہے کہ اس کی شاندار تاریخ اور مضبوط روایت کے رشتوں کی کڑیاں ملائی جاسکیں اور آج کے قاری کو ان کی اہمیت و افادیت کا احساس کرایا جاسکے اور اسے بتایا جاسکے کہ حقیقت مآب ہونے کے بعد وہ اپنے لٹریچر سے کس قدر عظیم سرمائے اور نایاب جوہر کو گم کرچکا ہے۔اساطیر سے عاری کہانی ایسی ہی ہے جیسے کسی خوب صورت پیکٹ میں کنکر پتھر یا خالی ہوا بھر کے دیے جائے ۔بعض حضرات دلیل دیتے ہیں کہ جب شعرو شاعری سے اساطیر کا خاتمہ صدیوں پہلے ہوچکا ہے تو،پھر فکشن میں اب تک یہ رسم کیوں باقی رہی؟لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ شاعری اور فکشن دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔شاعری حقیقت پسندی اور سچائی کا ہی مظہر ہے اور روز اول سے اس کی بنیاد اسی پر رکھی گئی ہے اس کے برعکس فکشن کے تانے بانے اساطیر کے ریشم سے ہی بُنے گئے ہیں اور اس کے لباس زیبا میں ان ہی عناصر کے نقوش ابھارے گئے تھے۔پھر کیسے اسے بے لباس اور بے چہرہ کیا جاسکتا ہے۔یہی تو اس کی روح ہے،اب روح نکال دی گئی تو وہ خوب صورت وجود، پتھر کی مورت بن کر رہ گیا ہے۔اسی طرح آج کا انسان بھی اپنی اصل اور جڑے سے کٹ پر غیرمحفوظ و غیر مضبوط بن کر رہ گیا ہے۔

اپنا تبصرہ لکھیں