اسلامی ریاست میں نظام عدل و انصاف

Waseem Haider

وسیم ساحل
عدل عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی برابری کے ہیں اس کے ایک معنی یہ بھی ہے کہ کسی بوجھ کو دو برابر حصوں میں اس طر ح تقسیم کیا جائے کہ ان میں کسی قسم کی کمی بیشی نہ ہو اس اعتبار سے ہم جو بھی کام کریں اور جو بھی بات کریں اس میں میزان صداقت کسی جانب بھی جھکنے نہ پائے بلکہ صرف وہی بات کی جائے اور وہ کام کیا جائے جو انصاف کی کسوٹی پر پورا اترتا ہو، کسی بھی اسلامی ریاست میں نظام عدل و انصاف کا قیام بنیادی ضرورت ہے اس کے بغیر کوئی بھی سلطنت یا مملکت استحکام حاصل نہیں کر سکتی ۔ انصاف کا دامن چھوڑنے والی قوم ہجوم بن جاتی ہے-
سرکار دوعالم نے استحکام کی راہ میں رکاوٹ بننے والے عوامل کی بیخ کنی کی اور فوری آسان انصاف مہیا کرنے والا نظام رائج کیا۔ رسول پاک نے ساری دنیا کے سامنے عدل و انصاف کا وہ نظام رائج کیا جس کی مثال کہیں نہیں ملتی ,آپ کے دشمن بھی آپ کو صادق اور امین کہتے تھے اور آپ کے عدل و انصاف کے معترف تھے ۔
اسلام کی آمد سے قبل جہاں دوسرے بہت سے معاملات حد سے زیادہ تجاوز کر چکے تھے وہیں یہود کے قبائل بنو نضیر اور بنو قریظہ میں عزت و شرافت کا بالکل غیر فطری اورنہایت غیر معقول معیار رائج تھا جس کے مطابق بنو قریظہ کا کوئی شخص بنو نضیر کے کسی شخص کو قتل کر دیتا تو قصاص میں قاتل کو بھی ماراجاتا تھا لیکن اگر بنو نضیر کا کوئی شخص بنو قریظہ کے شخص کو مار دیتا تھا تو قصاص میں اس کو قتل نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اس کا خون بہا سووسق کھجور کی کھجور میں دیا جاتا تھا یعنی شرف و مرتبے کے لحاظ سے بنو نضیر کو بنو قیظہ سے فوقیت حاصل تھی ۔
اسلام کی آمد کے بعد عہد نبوی میں جب اس قسم کا کوئی واقعہ پیش آیا تو بنو قریضہ نے سارا قصہ حضور پاک کی خدمت میں پیش کیا تو آپ نے توریت کے حکم کے مطابق تمام قبائل میں برابر کا قصاص جاری کیا اور ان کے درمیان موجود یہ غیر فطری اور غیر منصفانہ تقسیم ختم کر دی ۔ایک صحابی حضرت سرقؓ نے ایک اعرابی سے اونٹ خریدا مگر اس کی ادائگی بر وقت نہیں کر سکے چنانچہ وہ اعرابی ان کو پکڑ کر حضور پاک کی خدمت اقدس میں لے کر حاضر ہوا اورشکایت پیش کی ۔آپ نے اپنے ساتھی اور صحابی ہونے کے لحاظ سے حضرت سرقؓ سے کوئی رعایت نہ برتی بلکہ حقدار کو اس کا حق ادا کرنے کا حکم دیا ۔انہوں نے رقم نہ ہونے کا عذر پیش کیا یہ سن کر اللہ کے محبوب  نے فرمایا ان کو بازار جا کر فروخت کر دو ۔ فیصلہ سنتے ہی اعرابی ان کو بازار لے گیا اور ایک صحابی نے ان کو خرید کر آزاد کر دیا۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاصؓ سے روایت ہے حضور پاک نے فرمایا کہ عدل و انصاف کرنے والے بندے روز محشر اللہ کے پاس نور کے منبروں پر ہوں گے  یہ وہ لوگ ہوں گے جو اپنے فیصلوں میں اور اپنے اہل و عیال کے معاملات میں اور اپنے اختیارات کے استعمال میں عدل و انصاف سے کام لیتے ہوں گے ۔

اپنا تبصرہ لکھیں