علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان موبائل نمبر0300-6491308
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیکر امن و محبت بنایا ۔اُنس نہ ہو تو انسان انسانیت کے قابل نہیں ۔اسی طرح سعادت اور شقاوت ، فطرت انسانی کے دو عنصر ہیں ۔سعادت آدمی کو آدمیت کا جامہ پہناتی ہے اور شقاوت انسان کو درندہ بناتی ہے ، اسلام کے رہنما اصول ہمیں سعادت سے ہم آغوش کرتے ہیں اور شقاوت کی راہ سے دورو نفور رہنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
کاروان حیات کا تصور اجتماعیت کے بغیر ممکن نہیں ،اس لئے اسلام فرد کی اصلاح پر زور دیتا ہے ۔کیونکہ افراد ہی کے ذریعہ قوم اور جماعت تشکیل پاتی ہے ،سوسائٹی ،سماج اور معاشرہ افراد و قوم کے باہمی ربط ہی سے تشکیل پاتا ہے ۔لہٰذا ضروری ہے کہ ہر فرد کو جرائم سے دور رکھا جائے اور انہیں صالح تربیت دی جائے ،تاکہ معاشرہ کے اندر برائیاں عام نہ ہو سکیں ،انسان انسانوں کی دل آزاری کا سبب نہ بن جائے اور فرد اپنے اہل خاندان، اپنے احباب و اقرباء ، اپنے شہر کے باشندگان اور اپنی قوم میں ضم ہو کررہے مفکر پاکستان، شاعر مشرق ڈاکٹر اقبال رحمة اللہ علیہ مرحوم نے اس کی بڑی اچھی ترجمانی فرمائی ہے
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں موج دریا میںہے اور بیرون دریا کچھ نہیں
ایک صالح معاشرہ ،ایک ستھرا سماج اور ایک پاکیزہ سوسائٹی تشکیل کرنے کے لئے چو چیز یں مطلوب ہیں ،ایک وعظ و پند اور تبلیغ و ہدایت کا راستہ ، دوسرے آئینی حصار اور قانونی ناکہ بندی اور آئین و قانون کے نفاذ کے لئے قوت و اقتدار مطلوب ہے ۔لہٰذا مذہب اور سیاست دو الگ الگ چیزیں نہیں ہیں ،مذہبی اصول پر چلنے اور چلانے میں سیاسی قوت کو بڑاعمل دخل ہے ۔سعادت مند تبلیغ و ہدایت قبول کریگا اور شرارت پسند کو قانون کا تازیانہ راستہ پر لے آئیگا۔
غلبہ دین حق کے لئے تحریک ،تنظیم اور جماعتی شیرازہ بندی بھی از بس ضروری ہے ،تاکہ مخالف طاقتیں اور فتنہ پر ورقوئیں جب حق و صداقت کے سدراہ ہوں تو اجتماعی قوت اور جماعتی ہم آہنگی ان کا زور توڑ سکے اور باطل ذہنوں کی تخریب کاریاں ہمیشہ کے لئے مایوسیوں کے خاکستر میں دب کر رہ جائیں ،مذہب اور سیاست کو دو الگ الگ خانوں میں بانٹنے والے شاید اس نکتے تک نہیں پہنچ سکے ہیں کہ زاہد کا زہد اس کے دامن کو معصیت کی آلودگی سے تو ضرور بچا سکتا ہے مگر سماج میں بدکرداری کا زہر پھیلانے والوں کو قانون کی بالادستی ہی بے راہ روی سے باز رکھ سکتی ہے ،آپ کا دامن احتیاط آپ کو تقدس مآب تو ضرور بنا سکتا ہے مگر وہ پور ی ملت کی اصلاح و فلاح کا کفیل ہر گز نہیں بن سکتا ۔
تاریخ کے آئینے میں آج بھی دیکھا جا سکتا ہے حضور خیر مجسم ۖ نے اپنے دس سالہ مدنی زندگی کے دور میںوھ کچھ کر دکھا یا جو تیرہ سالہ زندگی میں نہ دیکھا جا سکا ۔ظاہری وجہ اس کے سوا نہیں بتائی جا سکتی کہ مکہ مکرمہ میں انفرادیت تھی ،عرض و معروض کا راستہ تھا اور تبلیغ و دعوت کے صرف مخلصانہ جذبات تھے ۔جسے سعید روحوں نے قبول کیا ، خیر پسند طبیعتوں کے دل جھکے اور نیکو کار لوگوں نے اطاعت اختیار کی پھر جب مدینہ منورہ میں مسلمانوں کواجتماعی زندگی نصیب ہوئی ،نیک سرشت لوگوں پر مشتمل ملّی تنظیم بنی اور صالح افراد کی نگرانی میں ایک اسلامی ریاست کی تشکیل ہوئی تو اُس ذریعہ اصلاح عمل کی قیمتی دفعات نافذ کی گئیں ،یہاں وعظ و پند کا راستہ بھی اپنایا گیا اور جزاوسزا کا دروازہ بھی کھولا گیا ،افہام و تفہیم کا سلسلہ بھی رکھا گیا اور بے راہ روی کے سدِ باب کے لئے قانونی بالادستی کے ذریعہ سزائوں کی گنجائش بھی رکھی گئی ۔
اب انجام کار جو سامنے آیا وہ یہ تھا کہ سلیم طبیعت افراد نیکو کاروں کی روش پر چل رہے تھے اور شر پسند افراد قانون کے تازیانہ کے خوف سے ہدایت قبول کر رہے تھے ،وعظ و پند کا راستہ جن کی سرشت سے ہم آہنگ نہ ہوتا ،قانونی گرفت بڑی آسانی سے انہیں راہ پہ لے آتی ،شیطان جب بھی شرارت نفس کو مہمیز کرتا ،قانون کی ساحری اپنے لپیٹ میں لے کر ہمیشہ کے لئے اسے دگور کر دیتی۔
اسلام کو جاحیت کا مذہب اور مسلمانوں کو دہشت گرد قوم قرار دینا اسلام کے محکم اصولوں سے بے خبری کی دلیل یا دیدہ دا نشتہ تنگ نظری کی بد تر ین مثال ہے ،اسلام ہمیں مذہبی اور قومی تشخص بر قرار رکھنے کے لئے عمل پیہم اور جہد مسلسل کی اجازت ضرور دیتا ہے اور تبلیغ و ہدایت کی ہر ممکن کوشش خوش اسلوبی کیساتھ طے کرنے کی تعلیم بھی دیتا ہے ۔
ادع الی سبیل ربک بالحکمة والموعظة الحسنة وجادلھم بالتی ھی احسن۔”اپنے رب کے راستے کی طرف دانائی اور اچھے وعظ کے ذریعہ بلائو اور ان سے خوبصورت پیرائے میں بحث کرکے انہیں رب کی بندگی کا قائل بنائو۔”(القرآن)
یہ تعلیم ان لوگوں کو دی جاتی ہے جن کے پاس فوج و سپاہ نہیں ہے ،آلات حرب و ضرب نہیں ہیں ،صرف زبان کی طاقت ہے اور قلم کی قوت ہے اور زبان و قلم کو استعمال کرنے کے لئے بھی حسن گفتار اور طریقۂ احسن کی قیدلگا دی گئی ہے ،تبلیغ و ہدایت کے نتیجے میں اسلام قبول کرنے والوں کے ساتھ تالیف قلوب اور حسن معاملت کا درس دیا گیا اور تلقین وہدایت کی ہر ممکن کوشش کے بعد بھی اسلام سے منحرف رہنے والوں کیساتھ درگزر سے کام لینے کا فرمان جاری کیا گیا، علماء ، مشائخ نہ صرف یہ کہ ان احکامات پر کار بند رہے بلکہ انہوں نے سلاطین و امراء کو بھی اسی سانچے میں ڈھال رکھا تھا۔
تاریخ کے دریچے سے آج بھی جھانک کر دیکھا جا سکتا ہے کہ بیت المقدس پر جب عیسائیوں نے تسلط حاصل کیا تھا مسلمانوں کا خون جانوروں سے بھی ارزں قرار دے دیا گیا تھا ،انہیں بھیڑ بکریوں کی طرح سٹرک پر ذبح کر کے ان کا خون نالیوں میں پانی کی جگہ بہایا گیا تھاعورتوں ،بوڑھوں اور مریضوں کیساتھ کوئی امتیاز نہیں برتا گیا تھا لیکن تاریخ گواہ ہے کو نوے سال بعد جب حضرت سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس فتح کیا تو عام شہریوں کو امان دے دی گئی ،حتیٰ کہ ہتھیار ڈال دینے والے سپاہیوں کی بھی جان بخشی کر دی گئی اور پورے شہر میں منادی کر دی گئی کہ جو کوئی یہاں سے جانا چاہے وہ نہ صرف اپنی جان بلکہ اپنا سارا مال سمیٹ کر لے جا سکتا ہے ۔
چنانچہ ایک معروف گرجا کے پادری سے متعلق سلطان کو یہ کہا گیا کہ گرجا میں جمع شدہ کروڑوں کا سونا بٹور کروہ لے جا رہا ہے ، اُسے سرکار ی خزانہ میں جمع ہونا چاہئے تو سلطان نے کہا اسے نہ روکو، میرے اعلان کی خلاف ورزی ہو گی ۔چشم فلک نے ایسے صدہا واقعات دیکھے ہیں اور آج بھی تاریخ کے سینے میں محفوظ ہیں ،اسلام بلاشبہ امن و شانتی کا مذہب ہے اور رہے گا،اگر کچھ لوگ دشمنوں کے مظالم سے عاجز آکر ”تنگ آمد بہ جنگ آمد” کی راہ پر کھڑے ہوگئے ہیں تو اس سے اسلام کا دامن داغدار نہیں ہو سکتا۔
جن لوگوں نے خراج ادا کر کے رہنا پسند کیا ،ان کیلئے منادی کر دی گئی :دماتھم کدمائنا واموالھم کاموالنا۔یعنی خلیفۂ اسلام پر جس طرح ایک مسلمان کے جان و مال کی حفاظت ضروری ہے اسی طرح ایک ذمی یعنی اسلام کی امان میں رہنے والے کافر کی جان و مال کی حفاظت لازم ہے ۔
کیا یہ سچ نہیں کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے ایک آبادی کے ذمیوں سے لیا جانے والا خراج یہ کہہ کر واپس کر دیا کہ ہم ایسی مہم پر جار ہے ہیں جہاں سے پلٹ کر تمہاری حفاظت کو نہیں آسکیں گے ۔لہٰذا اب تمہارا یہ خرچ رکھنے کے ہم حقدار نہیں ہیں۔
مسلمانوں کے سالار کے اس حسن سلوک پروہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور سب کے سب حلقہ بگوش اسلام ہو گئے ،عالمی تاریخ میں کوئی ایسا مذہب جو اسلامی نظام عدل کی ایسی کوئی نظیر پیش کر سکے ۔دیکھا دو۔مگر نہ دکھا سکو گے ۔۔۔۔ نہ دکھا سکو گے۔۔۔۔
عہد فاروقی کا یہ بے مثال کارنامہ کیا ساری دنیا کو حیرت میں ڈال دینے کے لئے کافی نہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ایک بوڑھے ذمی کو بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ کیوںبھیک مانگ رہے ہو؟ اس نے عرض کیا،جزیہ ادا کرنے کے لئے ،وہ بیچارہ نہ جان سکا کہ سائل کون ہے ِ آپ نے اسی وقت اعلان کر دیا کہ ایسے سارے ذمی جن کے پاس ذرائع آمدنی نہیں ہیں ان کا جزیہ معاف کیا جاتا ہے ۔اسکے بعد تمام ریاستوں کے گورنر کو لکھ بھیجا کہ ایسے مفلوک الحال ذمی جو بڑھاپے یا بیماری کے سبب کما نہیں سکتے ان کو بھیک مانگنے کی ذلت سے بچا یا جائے اور خزانہ شاہی سے ان کا وظیفہ مقرر کر دیا جائے ۔اسلام کے محکم اصولوں کو چیلنج کرنے والو! خدا کی قسم ! اگر اسلام کی دھول بھی تم پر پڑ جائے ،تو انسانی قدروں کو پامال کرنا تم بھول جائو۔
”خربوزہ کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے ”اگر جرائم کی راہ پر روک نہ لگائی جائے ،ظلم کی دہلیز پر پہرہ نہ بٹھایا جائے ۔کمزوروں کی دادرسی نہ کی جائے ۔مفاسد کے دروازے بند نہ کئے جائیں اورستم گروں کو تعزیر کے تازیانے نہ لگائے جائیں تو لازماًبدکردار کا زہر مرض متعدی کی طرح پھیلے گا ۔ عیوب کا سلسلہ لا محالہ دراز ہو گا ۔آہستہ آہستہ پہلے گائوں پھر شہر ،اس کے بعد پورا ملک تباہی کی لپیٹ میں آجائے گا۔
قبل اسکے کہ فرد پوری قوم کی ہلاکت کا سبب بنے ،فرد واحد ملت کی تباہی کا سامان مہیا کرے اور فتنہ پوری ریاست میں کالے زہر کی طرح پھیل جائے ۔قرآن حکیم اس کے سد باب کے لئے اللہ سبوح قدوس کا یہ فرمان جاری کرتا ہے :تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر وتومنون باللّٰہ۔”لوگوں کو نیکی کا حکم دو ۔ انہیں برائیوں سے روکواور اگر اس امر کی انجام دہی میں خطرات سامنے آئیں تو اللہ کی نصرت پر ایمان رکھو۔”(القرآن)
ایسا ہر گز نہیں ہے کہ قوت و اقتداد حاصل ہونے کی صورت میں مومنین کو یہ حکم دیا جارہا ہے بلکہ معاملہ اگر بر عکس ہو یعنی جرائم پیشہ افراد ہی اقتدار کی کرسی پر قابض ہوں ۔ان ہی کے پاس فوج و سپاہ کی طاقت ہو ،وہی پوری طرح ایٹمی اور آہنی ہتھیاروں سے لیس ہوں تو بھی حق کے علم بردار خاموش تماشائی نہ بنیں یا ضمیر کی آواز کو دبا کر ازراہ تقیہ باطل کا ساتھ نہ دیں ۔
کیونکہ ایسا اگر کیا گیا تو ظلم ستم کا سیلاب حق کی بساط کو ہی بہالے جائے گا۔ سرکار امام حسین رضی اللہ عنہ نے قوت و اقتدار کا صفایا کر کے حق کا تحفظ نہیں فرمایا ۔بلکہ جان شیریں جاں آفریں کے سپرد کر کے باطل کا قلع قمع کر دیا اور آج تک انکی اس عظیم قربانی کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے ۔
فرمان الٰہی کے اسرار کا انکشاف سرکار دو عالم ۖ کی اس حدیث پاک سے بھی ہوتا ہے حق بیانی کی ترغیب دیتے ہوئے حضور پرُ نور ۖ ارشاد فرماتے ہیں :افضل الجھاد کلمة حق سلطان جابر۔”ظالم و جابر بادشاہ کے رو برو کلمہ حق کہنا افضل ترین جہاد ہے ۔”
جفا پیشہ فرماں روائوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آوازہ ٔ حق بلند کرنا ،برسی ہوئی تلواروں کے سائے میں کو دجانے سے بڑھ کر کیوں ہے ؟
اس لئے کہ اپنے سے زیادہ طاقتور سے لڑ کر جنگ جیتی بھی جا سکتی ہے ،مگر اس کا سلطان کی سرزنش کر کے عتاب شاہی سے بچنا ممکن نہیں ہے ۔ ہم اپنے اس دعویٰ کے ثبوت میں تاریخ کے اوراق سے ایک دل دوز واقعہ نقل کرتے ہیں ۔
حجاج بن یوسف ضحاک کے بعد دوسرا سفاک گزرا ہے ، عوام کا کیا شمار ،ہزاروں تقدس مآب صحابہ ،جلیل القدر تابعین ،بلند پایہ محدثین اور عظیم المرتبت فقہاء اسکے عتاب کا شکار ہو گئے ۔عمر کیساتھ ساتھ اس کا ظلم بڑھتا ہی جا رہا تھا کہ خاک حجاز سے ایک مرد غازی اُٹھا اور سر پر کفن باندھ کر حجاج کے دربار میں آکھڑا ہوا اور برسراجلاس اُسے ڈانٹ کر خدا کا خوف دلایا ۔محشر کی ہولناکی سے ڈرایا اور رعایا کیساتھ عدل و انصاف سے پیش آنے کا وعظ فرمایا ،کہتے ہیں کہ جب دولت کا نشہ دماغ پر چڑھ جاتا ہے تو خیر و شر کی تمیز اُٹھ جاتی ہے اور آدمی اپنی اصلی راہ بھول جاتا ہے ،حجاج کو اقتدار کی مدہوشی نے انجام کار سے غافل کر دیا تھا ،اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کے لئے کوئی بھی دن آخر ہو سکتا ہے ۔ اس کے مزاج برہم کو یگانہ روزگار محدث ،جلیل القدر تابعی حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ کی کلمہ حق سے لبریزتقریر اس پر اثر انداز نہ ہو سکی ناہنجارنے اسی وقت آپکے قتل کا حکم صادر کر دیا۔
جنگل کی آگ کی طرح یہ خبر پھیل گئی اور شہر میں کہرام مچ گیا، لوگوں کا ہجوم حجاج کے دربار میں اُمڈ پڑا ،وہ ایک مقدس تابعی کے قتل کے خلاف احتجاج کر رہے تھے ۔لیکن اُس سنگدل کا جواب بس ایک ہی تھا ۔حضرت سعید بن جبیررضی اللہ عنہ اجلاس میں کھڑے ہو کر اپنے جرم کی معافی مانگ لیں ،خون معاف کر دیا جائیگا ،جب اہل عقیدت منت و سماجت کے لئے آپ کے پاس پہنچے تو آپ نے انکی گزارشات کے جواب میں فرمایا ،اگر میں کوئی جرم کرتا تو حجاج کیا ،حجاج کے غلام سے برسربازار معافی مانگ لیتا ۔لوگو! ظالم کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہوجانا قطعاً کوئی جرم نہیں ہے ۔مومن کے اندر حق گوئی کی جرأت رندانہ نہیں ہے تو اس پر حمایت حق کا دعویٰ حرام ہے، ہادی عالم ۖ نے ایسی ہی نازک گھڑی کے لئے ارشاد فرمایا:من رای منکم منکر ا فلیغیرہ بیدہ وان لم یستطع فبلسانہ وان لم یستطع فبقلبہ۔”تقاضائے ایمان یہ ہے کہ مومن جب کسی شخص کو فعل نامشروع کا مرتکب پائے تو اسے بزورقوت روک دے ۔اگر اپنے اندر اتنی قوت نہ پائے تو زبان ہی کے ذریعہ اس کی سرزنش کرے اور اتنی بھی قدرت نہ رکھتا ہوتو کم از کم دل ہی سے اُسے برا جانے ۔”
حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے لوگوں سے کہا کہ حجاج کے مظالم کے سد باب کے لئے میرے پاس عسکری قوت تو موجود تھی نہیں ،ہاں! حمایت حق کے لئے رب قدیر نے مجھے گویائی کی قوت دی ہے ،پھر میں جان کے خوف سے خاموشی کیوں کر اختیار کر سکتا تھا۔میں اپنے رب کی مشیت پر راضی ہوں تم بھی صبر کا دامن اپنے ہاتھوں سے نہ جانے دو، اس تقریر کے بعد جلاد آپ کو مقتل کی طرف لے کر چلے تو آپ ہنس پڑے ،لوگوں کے ساتھ خود حجاج کو سخت تعجب ہوا آخر اس نے سوال کر دیا کہ یہ ہنسی کا کون سا وقت ہے ؟ آپ نے جواب دیا۔”خدا کے مقابلے پر تیری جرأت دیکھتا ہوں ،پھر خدا کا تیرے ساتھ معاملہ درگز رملاحظہ کر تاہوں۔”اس سے بڑھ کر تعجب کی اور کیا بات ہو سکتی ہے ،یہ سن کر حجاج اور بھی لہک اُٹھا۔
جلاد نے مقتل میں ،چمڑے کے فرش پر جب آپ کو اوندھے منہ لٹایا تو کسی کو تاب نظارہ نہ رہا ،آپکے فرزند ارجمند دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ اس وقت آپ نے سر اُٹھا کر فرمایا! بیٹے! روتے کیوں ہو، تمہارے باپ کی بس اتنی ہی عمر تھی ۔اللہ کا شکر ادا کرو، کہ دم واپسی بھی میں اپنے رب کے حضور سربہ سجود ہوں ،اسکے بعد آپ نے زندگی کی یہ آخری دعا فرمائی:”خدایا! میں خوش ہوں جو تو چاہے لیکن میرے خون ناحق کا اتنا فیصلہ ضرور عطا فرما کہ میرے بعد تیرے بندوں میں حجاج کے ظلم کا نشانہ کوئی اور نہ بنے ۔”
مشہور ہے کہ بعد شہادت آپکے جسم اطہر سے اس قدر خون جاری ہوا کہ حجاج دیکھ کر گھبرا گیا ،اس نے اطباء سے وجہ پوچھی ،انہوں نے جواب دیا کہ یہ خدا ترس آدمی تھا ،تمہارے فرمان قتل سے خائف نہیں ہوا ،شوق شہادت نے اس کی رگوں کا خون رواں رکھا۔حجاج یہ سن کر شرمند ہ ہو امگر اب اس کے برے دن شروع ہو چکے تھے ۔
کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے وہ کبھی نہ سویا ،جب سوتا ،چیخ مارکر اُٹھ جاتا ،لوگ وجہ پوچھتے تو کہتا سعید بن جبیر میرے سرہانے کھڑے تھے ۔انکے ہاتھ میں ننگی تلوار تھی ۔ساتھ ہی دو سپاہی بھی تھے جن کے ہاتھوں میں رسی تھی ،وہ کہہ رہے تھے اس ظالم نے مجھے کس جرم میں قتل کیا؟ اسے باندھو، میں اس سے اپنا بدلہ لوں گا ،بس ایک چیخ کیساتھ میں بیدار ہو جاتا ہوں ،نیند سے محرومی نے اسے مہلک بیماری میں مبتلا کر دیا جس نے آخر دم تک اس کا پیچھا نہ چھوڑا ،حال یہ تھا کہ : ”مرض بڑھتا گیا ۔جوں جوں دوا کی۔”
حجاج کی بربادی کا فقط قصہ بیان کرنا مقصود نہیں ہے ،بتانا یہ چاہتا ہوں کہ اسلام نے عالمی امن و سلامتی کے لئے جو رہنما اصول بیان کئے ہیں انکے نفاذ میں کس طرح داعیانِ اسلام نے ثبات قدمی کا مظاہرہ فرمایا ہے ۔حتیٰ کہ جان بھی دینے سے دریغ نہیں کیا۔ایسی صد ہا مثالیں اسلامی تاریخ میں موجود ہیں ،غیر مسلموں تک کے تحفظ میں لوگوں نے اپنی جانیں قربان کر دی ہیں ۔ان ہی رہنما اصولوں کی ہمہ گیری کی طرف غیب داں پیغمبر حضرت سیدنا محمد مصطفےٰۖ نے ان الفاظ میں ارشاد فرمایا تھا:”عنقریب ایک عورت اونٹ کی پشت پر صنعا سے مکہ تک کا سفر تنہا طے کرے گی اور کوئی ان پر انگشت نمائی کرنیوالانہ ہو گا۔”
تاریخ گواہ ہے کہ عہد فاروقی میں یہ پیش گوئی حرف بہ حرف پوری ہوئی ۔اسلام امن کا داعی ہے اور امن بحال کرنے کے لئے ہی امن کی راہ میں رکاوٹ کو راستے سے دور کرنے کی اجازت دیتا ہے ۔وہ لوگ دھوکے میں ہیں جو اسلام کو جبر وا کراہ کا مذہب سمجھتے ہیں اور جہاد کا معنی قتل و قتال اور خون خرابہ لیتے ہیں۔
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰ ۖ کے ظاہری پردہ فرماتے ہی فتنہ ارتداد نے جس شد و مد کیساتھ سر اُٹھا یا تھا ،مانعین زکوٰة جس کروفر کیساتھ بغاوت پر کمر بستہ ہوئے تھے اور مسلمہ کذاب کی طاغوتی فوج اسلام کو نیست و نابود کر دینے کے لئے جس عزم و حوصلہ کے ساتھ آگے بڑھی تھی اسے روکنے کے لئے کیا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا زہد ،جناب ابو ذر غفاری کا تقویٰ اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی ریاضت کافی تھی؟یہ سب اپنی جگہ عظمت و بزرگی والے تھے مگربلاشبہ اس وقت صدیقی تدبیر ،فاروقی جلال،حیدری شجاعت اور سیف اللہ کی ہی دُنیا کو ضرورت تھی ۔
تہذیب ،شائستگی ،حیااور غیرت کی دولتوں سے محروم اہل یورپ کے نزدیک اسلام کے بعض قوانین ظلم یقینا قرار پا سکتے ہیں ۔ کیونکہ حیا سوز حرکتوں کا کھلے عام ننگا ناچ انکے یہاں فیشن شمار کیا جاتا ہے ،ورنہ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ قاتلوں کے لئے حکم قصاص ، چوروں کے لئے قطع ید اور زانیوں کے لئے سزائے رجم اسلامی قوانین کی وہ قیمتی دفعات ہیں جن کے بغیر بد ترین جرائم پر قابو پایا ہی نہیں جا سکتا۔آج کے مشاہدات کیا یہ ثابت نہیں کر رہے کہ جن ریاستوں کی حدود میں آج بھی یہ قوانین نافذ ہیں وہاں سفید پوشوں کے ملک سے نوے فیصد کم جرائم وقوع پذیر ہیں۔
اسلام اگر صرف افہام و تفہیم کا مذہب ہوتا ،نیکی و راستی کا صرف سبق پڑھاتا ،خدا ترسی اور خدا طلبی کا صرف وعظ کہتا ،تادیب و سرزنش کی کوئی تعلیم اس میں نہ ہوتی تو ہرگز ان ہلاکت خیز فتنوں کا قلع قمع نہیں ہو سکتا تھا ۔بلکہ دیکھا دیکھی انانیت زور پکڑ تی ،خود سری سر اُٹھاتی اور جرائم کی گرم بازاری اسلام کا چہرہ مسخ کر کے رکھ دیتی ۔یہی وجہ ہے کہ رحمت عالم ۖ نے ہر طرح کا ستم برداشت کیا مگر حدود اللہ میں مداخلت کو کبھی گوارہ نہ فرمایا۔
اسلام عہد خلافت تک پہنچتے پہنچتے ایک منظم طاقت بن چکاتھا اور اصحاب رسول ۖ تعلیمات نبوی ۖکی بدولت شرعی نزاکتوں کیساتھ ساتھ سیاسی نوک پلک سے پوری طرح آشنا ہو چکے تھے ۔انہوں نے مداخلت فی الدین کے سد باب کے لئے ایسی حکمت عملی اختیار فرمائی کہ عیش پرستوں کے ہاتھ کے طوطے اُڑگئے اور قانون کے بندھن سے آزاد ہونے کا سارا نشہ کافور ہو گیا ۔
زبر دست فریب:دروغ گوئی کی اس سے زیادہ بد ترین مثال اور کیا ہو سکتی ہے کہ آج پور ی بے شرمی کیساتھ یہ افواہ پھیلائی جا رہی ہے کہ قرآن کہتا ہے کہ:”کافروں کو جہاں پائو قتل کر دو۔”کافر، اسلام کا ایک اصطلاحی لفظ ہے ۔اس سے صرف بت پرست مراد نہیں ہیں بلکہ جو لوگ بھی اللہ ،قرآن اور اس کے رسولۖ کو چھوڑ کر کسی اور دین و دھرم کے ماننے والے ہیں وہ سب کافر کہلاتے ہیں جس کے معنی صرف انکاری کے ہیں ۔ان انکاریوں (کافروں) کیساتھ اسلامی برتائو دیکھنا ہو تو تاریخ کے جھروکوں سے جھانک کر دیکھئے ۔
اسلامی فتوحات کے نتیجے میں جو بلا د و ممالک مسلمانوں کے زیر نگیں آئے وہاں کے کافروں کو نہ جبراً مسلمان بنایا گیا اور نہ انہیں قتل کیا گیا بلکہ اعلان عام کر دیا گیا کہ و ہ لوگ اسلامی ریاست میں رہنا پسند کریں تووہ بطور معاوضہ حفاظت جذیہ دینا قبول کریں اور جو لوگ جانا چاہیں ان کے جان و مال سے کوئی تعارض نہیں کیا جائے گا،وہ اپنے جملہ سازو سامان کیساتھ جہاں چاہیں جا سکتے ہیں ۔کیا یہ سچ نہیں کہ رسول اکرم ۖ نے اس کافرہ کی بھی عیادت فرمائی جو روزانہ آپ کی راہ میں کوڑاڈالا کرتی تھی ۔
کیا یہ سچ نہیں کہ رحمت عالم ۖ نے اس مشرکہ کا بوجھ بھی اُٹھا کر گھر تک پہنچایا ،جس نے آپ سے کہا تھا کہ بیٹا! تیرے اخلاق بڑے کریمانہ ہیں ،یہاں محمدۖ نامی ایک ساحر پیدا ہوا ہے اس کے پاس کبھی مت جانا۔
کیا یہ سچ نہیں کہ فاتحانہ تمکنت کیساتھ جب اسلامی فوج مکہ میں داخل ہوئی تو جو ش میں بھرے ہوئے جوانوں نے نعرہ لگایا:الیوم یوم المرحمة۔”آج در گزرکا دن ہے ۔آج لطف و کرم کا دن ہے ۔”
صرف نعرہ ہی نہیں بدلا گیا ،بلکہ بدترین دشمنوں کیساتھ حسن سلوک برتا گیا ۔جس پر شرق و غرب کی تاریخ آج تک حیرت زدہ ہے ،نہ زمین نے پھر ایسے جیالے پیدا کئے اور نہ آسمان نے کبھی ایسے اُجالے دیکھے ۔جذباتی سے جذباتی سپاہی جو ستم رسیدہ تھا ،امن کی راہ میں آڑے نہیں آیا اور اپنے پیغمبرحضرت محمد ۖ کے حکم سے سرموانحراف نہیں کیا ۔ان لوگوں کو معافی کا پروانہ دے دیا گیا جو خود اپنی معافی پر ششدررہ گئے ۔
کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ پیغمبر اعظم محمد مصطفےٰ ۖ نے جنگی ہدایت کے دوران فرمایا تھا کہ خبردار! عورتو ں، بچوں ،بوڑھوں اور مریضوں پر تلوار نہ اُٹھائی جائے ۔اسی حکم کی پاسداری کا نتیجہ تھا کہ ہندہ جیسی خونخوارہ ، حضرت ابو دوجانہ رضی اللہ عنہ کی تلوار کے نیچے سے بچ کر نکل گئی ۔
کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ خلیفہ دوم حضرت فاروق اعظم ۖ کا تمام جرنیلوں اور سالاروں کو حکم تھا کہ فتح کے بعد شہریوں کو کسی طرح گزندنہ پہنچایا جائے اور ان کے عبادت خانوں کو نقصان سے بچایا جائے ۔اگر جنگی جوان بھی ہتھیار ڈال دے تو اسے امن دیا جائے ۔
مذہبی تعصب سے اجتناب:مذہبی تعصب کے نتیجے میں اکثر فسادات ،ہنگامے اور فتنے کھڑے ہوتے ہیں ،اسلام ہمیں اس سے باز رہنے کی ہدایت کرتا ہے ۔ فرمانِ خداوند ی ہے:لا تسبو االذین یدعون من دون اللّٰہ فیسب اللّٰہ عدوا بغیر علم۔”تم انہیں برا بھلا نہ کہو، جو خدا کو چھوڑ کر دوسروں کی پوجا کرتے ہیں ۔کیونکہ وہ تمہاری دشمنی میں خدا کو گالیاں یہ جانے بغیر دینے لگیں کہ وہی ان کا بھی پروردگار ہے ۔”
اس فرمان کے ذریعہ اسلام پسندوں کو فسادات کی راہ سے روکا گیا اور فتنوں کے دروازے بند کر دیئے گئے ۔
اسلام کی ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ میں عہد بہ عہد اس فرمان پر عمل جاری ہے اور عالمی منظر نامے پر کوئی بھی مسلم حکمران اس کی خلاف ورزی کرتا دکھائی نہیں دیتا۔حتیٰ کہ عہد مغلیہ جسے بد نام کرنے کی مہم دن بہ دن زور پکڑ رہی ہے ۔اسلامی رواداری کی بے عیب نمونہ تھی ۔کسی کو کسی سے کوئی خطرہ نہ تھا ۔ہندو مسلم باہم شیرو شکر تھے اور سبھی اپنے اپنے مذہبی اصولوں پر قائم تھے ۔نہ کبھی مندر توڑی گئی اور نہ کسی کا معبد ویران کیا گیا ،دشمنانِ اسلام میں جن لوگوں کی تاریخ کے ان اوراق تک نگاہیں پہنچتی ہیں ان کی زبانیں انکار بھی کر رہی ہیں تو دل تاریخ کی ان روشن صداقتوں کا اقرار ی ضرور ہے ۔
پھر آج اسلامی مملکت میں دشمن سامراج کی ایماء پر خون کی ہولی کیوں کھیلی جا رہی ہے ۔یہاں مساجد و مدارس اور امام بارگاہیں خون سے رنگین کیوں ہیں؟ ڈرون حملوں سے نہتے انسانوں کا قتل عام کر کے حقوقِ انسانیت کے علمبرداروں اور اسلام مخالف قوتوں کو شرم نہیں آتی ۔ سوات میں نظام عدل کے نام پر خود ساختہ عدالتیں قائم کر کے عوام سے جینے کا حق چھیننے والے مذہبی بہروپیوں کو کیا اپنے اسلاف و مشاہیرِ اسلام کی روشن سیرت او ر فیصلے صادر کرنے کا اندازِ شفقت و محبت یاد نہیں آتا۔
معزز قارئین!میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ علمی مراکز کو تباہ کرنے والے ،ملکی امن کو سبوتاژکرنے والے اسلام کے نظام سے امن و شانتی سے آشناہی نہیں ۔ضرورت ہے کہ امنِ عالم کے قیام کے لئے اسلام کے سنہرے اصولوں کو روشناس کروایا جائے تاکہ اسلام کی تصویر جو دہشت گردوں کے برے کرتوت سے دھندلاگئی ہے اس کی خوبصورتی نکھر کر سامنے آئے ۔