اسلام اور ایسٹر

فوزیہ وحید۔۔۔اوسلو

مسلمانوں کا کسی ایسی تقریب میں جہاں انکے اسلامی شعار کا مذاق اڑایا جا رہا ہو یا ان کے خلاف منصوبہ بندی کی جا رہی ہو یا مشرکانہ عبادت کی جا رہی ہو شرکت کرنا درست نہیں

آج کے دور میں مسیحی دنیا پر لا دینیت کا غلبہ ہے گو کہ بنیادی طور پہ تہوار بہت اہتمام سے منائے جاتے ہیں۔جن سے ماضی میں ان کی نسبت رہی ہو ۔تہوار کرسمس کا ہو یا ایسٹر کا ان کی حیثیت آج دنیاوی تہوار یا معاشرتی سرگرمی جیسی ہو گئی ہے۔عموماً ان دنوں میں خاندان کے افراد کا دور دراز سے سفر کر کے یکجا ہو کر مل بیٹھنے اور اکٹھے کھانا کھانے کا ایک رواج بن گیا ہے۔گویہ معاشی اور معاشرتی تہوار بن کے رہ گئے ہیں اور ان کی مذہبیت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔اس کے باوجود ایسٹر اور کرسمس کے موقع پر چرچوں میں خصوصی دعائیں بھی کی جاتی ہیں۔مسلمانوں کا کسی ایسی تقریب میں جہاں انکے اسلامی شعار کا مذاق اڑایا جا رہا ہو یا ان کے خلاف منصوبہ بندی کی جا رہی ہو یا مشرکانہ عبادت کی جا رہی ہو شرکت کرنا درست نہیں۔قرآن حکیم نے ایسے مواقع سے تیزی سے گزر جاناے یا اجتناب کرنے کی ہدائیت کی ہے۔

فرمان باری تعالیٰ ہے کہ
اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو جھوٹ اور کسی لغو چیز کا ان پر سے گزر ہو جائے تو شریف انسانوں کی طرح گزر جاتے ہیں۔
الفرقان
اس لیے اگر یہ معلوم ہو کہ کسی دعوت میں شراب اور اس کے لوازمات کا ہتمام ہونا لازمی ہے تو اس میں شرکت سے اجتناب ضروری ہے۔جو لوگ مسلم ممالک سے باہر مقیم ہیں ان کے لیے ایسے تہواروں پر خود کو ان سے بچانا مشکل ہے گو کہ ناممکن نہیں۔جبکہ اگر کس غیر مسلم پڑوسی کو اسکے تہوار کے موقع پر مبارکباد کا کارڈبھیجا جائے یا اسے مبارک دی جائے یا تحفہ دیا جائے۔اس نیت کے ساتھ کہ وہ اسلام سے قریب آ جائے حرام نہیں ہے۔کیونکہ حرام و حلال کو سنت و قرآن میں متعئین کر دیا گیا ہے۔جبکہ مشتہبات سے احتیاط کا حکم دیا گیا ہے۔
دین کا کام کرنے والے مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ غیر مسلموں کی زبان ، مذہب اور روایاتو تہواروں سے پوری طرح واقفیت حاصل کریں تاکہ وہ اپنے غیر مسلم ساتھیوں سے حقائق پر مبنی درست مکالمہ و گفتگو کر سکیں۔

اپنا تبصرہ لکھیں