کراچی سے اسٹریٹ چلڈرن فٹ بال ٹیم کی آمد نے ناروے میں یک خوشگوارسی ہلچل مچا دی۔شہر کراچی ماضی کا عروس البلاد اورآج کا مرکز جرائم شہر ہر دوسرے روز نت نئے حادثات اور آفات ارضی و سماوی اور جرائم کے حوالے سے شہرت پا چکا ہے۔مگر ان معصوم بچوں کے اعلیٰ کھیل اورجیت نے کراچی کو ایک بار پھرسے نئی شہرت سے ہمکنار کردیا ہے۔ناروے میں چلڈرن فٹ بال ٹیم کو پاکستانی کمیونٹی سے جو پذیرائی اورشہرت ملی وہ پاکستان کے بڑے بڑے سیاست دانوں حتیٰ کہ و زیر اعظم نواز شریف تک کو نہیں ملی۔حالانکہ کھیلنے کے ہمارے وزیر اعظم بھی بہت شوقین تھے ۔اسی لیے تو تعلیمی کانفرنس کے بعد بجائے تعلیمی مصروفیات اختیارکرنے کے انہوں کے کرکٹ کھیلنے کو ترجیح دی۔کراچی کی حالیہ گرمی کے بعد وہاں سے بچوں کی ٹیم کی آمد تپتے صحراء میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی ہے۔اس قدر محدود وسائل میں کھیلنے والے بچوں کے اعلیٰ کھیل کے معیارنے پاکستانی کمیونٹی کو ہی نہیں بلکہ نارویجنوں کو بھی حیران کر دیا ہے۔ا
اسٹریٹ چلڈرن فٹ بال ٹیم نے مسلسل آٹھ میچز جیت کر اورسیمی فائنل تک پہنچ کر ایک اعلیٰ معیار ی کھیل کا مظاہرہ کیا ہے۔ناروے فٹ بال ٹورنامنٹ میں پاکستانی بچوں کے کھیل کے اعلیٰ نتائج نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہر روز تماشائیوں کی تعداد میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اس کے علاوہ اتنے اچھے کھیل اورکار کردگی کا کریڈٹ اس کھیل کی منصوبہ بندی کرنے والوں کوچز اورمنتظمین کو بھی جاتا ہے۔یہاں مقامی میڈیا کے افراد جن میں وائس آف اوسلو ریڈیو چینل کے ڈائریکٹر عزیزالرحمٰن اورابھرتے ہوئے میڈیا کے صحافی عقیل قادر نمایاں ہیں وہ بھی بہت میدان میں بہت متحرک نظر آ رہے تھے۔انہوں نے بڑی جانفشانی اور ذمہ داری کے ساتھ میچ کی تفصیلات نہ صرف ناروے میں بلکہ پوری دنیا کے پاکستانیوں کو بذریعہ سوشل میڈیا پہنچائیں۔اس کے علاوہ منتظمین میں ناروے کے سینئیر لکھاری اور مصنف نواز چوھدھری بھی خاصے متحرک نظر آ رہے تھے۔
پاکستانی اسٹریٹ چلڈرن فٹ بال ٹیم کے بچوں کی اب تک کی پر فارمنس دیکھ کر یہ اندازہ لگای اجا سکتا ہے کہ اگر انہوں کے اپنے کھیل کا معیار بر قرار رکھا تو ان کا شمار لمبے عرصے تک دنیا کی بہترین فٹ بال ٹیموں میں ہوتا رہے گا۔کھیل اور صحت مند مشاغل کسی بھی قوم کے مثبت معاشرتی رویوں کی عکاسی کرتے ہیں۔اگر ہمیں اپنی قو م کو مصائب اور آفات کے گڑہے سے نکالنا ہے تو پھر ہمیںایسے صحت مند رجحانات کو فروغ دینا ہو گا۔اس سلسلے میں بچوں کی تعلیم و تربیت اخلاقی تعمیر اور کھیل خاص اہمیت کے حامل ہیں۔چلڈرن فٹ بال ٹیم کا دائرہ صرف ایک شہر تک ہی محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اس کا دائرہ کار پاکستان کے ہرشہراور ہر بستی میں پھیلا دینا چاہیے۔یہ ٹیم باقی شہروں کے لیے بھی ایک مثال ہے۔اس طرح ہمیں اپنے معاشرے سے غلط رجحانات اور جرائم کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں مدد ملے گی۔یہ کام قومی اور حکومتی سطح دونوں پرہونا چاہیے۔قومی سطح پر تو آسانی سے ہو سکتا ہے لیکن حکومت سے ذیادہ توقعات نہیں کی جا سکتیں ۔نہ سیاستدانوں پہ بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔حیرت کی بات ہے کہ وہ سیاستدان جو خود کھیل میں نام اورشہرت کما چکے ہیں انہوںنے بھی ملک میں کھیلوں کے فروغ کی بات نہیں کی حالانکہ کھیل صحت مند جسم اور،صحت مند جسم اچھی سو چ کو جنم دیتے ہیں۔ اگر عوامی صحت کا معیاربلند ہو لوگ بچپن سے ہی کھیلوں میں حصہ لیں تو پھر نہ تو اتنی بیماریاں عام ہو ں اور نہ ہی اتنے ہسپتال بنانے کی ضرورت پیش آئے۔یہ کھیل مرد عورتوں دونوں کے لیے ہونے چاہپیں اپنی اپنی حدود میں۔ناروے میں بچے شروع سے ہی کسی نہ کسی کھیل میں حصہ لیتے ہیں جس کی وجہ سے انکی صحت کا معیار بڑہاپے تک بہت اچھاہو تا ہے اور عمریں بھی طویل ہیں۔ہمارے ہاں جتنا زور کھانے پہ دیا جاتا ہے اتنا زور کھیل اور ورزش پہ نہیں دیا جاتا۔ضروت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے باقی شہروں قصبوں اور دیہاتوں کے گلی محلوں میں بھی اس قسم کے گروپس بنائے جائیں۔جس کی سربراہی مقامی لوگ کریں۔اگر مقامی صاحب حیثیت لوگ مالی معاونت کر دیں تو ٹھیک ہے ورنہ اپنی مدد آپ کے تحت یہ کام خود بھی ہو سکتا ہے اس سلسلے میں حکومت یا سیاستدانوں سے مدد کے بجائے الیکشن امید واروں سے کام کرائے جائیں ۔کیونکہ وہ ووٹ جیتنے کے لیے ہر کام کرنے کو تیار رہتے ہیں ۔جبکہ سیٹ جیت کر تو پکڑائی ہی نہیں دیتے۔۔ہاں البتہ الیکشن سے پہلے سارے مقامی سیاستدانوں سے ضرور اس ضمن میں مدد لی جائے جو سب سے ذیادہ مدد کرے اسے ووٹ دیں۔ا سکے علاوہ انتظامی کمیٹی میں ایک مقامی صاحب کردار شخصیت کو لازمی شامل کریں جو کہ ٹیم میں ڈسپلن کے ساتھ معاشرتی اور مذہبی اقدار کی حفاظت ضرور کریں۔اس لیے کہ کراچی جیسے بڑے شہر میں تعلیم یافتہ اوردولتمند لوگوںکی کمی نہیں ۔لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کی اخلاقی اور دینی حالت بہت وگرگوں ہے اسی لیے آج اس کے حالات اتنے خراب ہیں۔اس کے بعد جب بھی کوئی ٹیم یا گروپ کسی خاص خوبی یا صفت میں کمال اورشہرت حاصل کرتا ہے ساتھ ہی اس میں اخلاقی برائیاں بھی سامنے آنا شرو ع ہوجاتی ہیں۔جیسا کی ہماری قومی کرکٹ ٹیم کے ساتھ اکثرایسا ہوتا ہے۔یہ اسی لیے ہے کہ ہملوگ جیت کی خوشی میں اخلاقی پہلو کو بھول جاتے ہیں۔ہمیں یہ یاد نہیں رہتا کہ ہم مسلمان بھی ہیں اور پاکستانی بھی ۔ اور یہ کہ پاکستان کے نمائندے بھی ہیں۔اس طرح اس ٹیم کی بدنامی اس کی اچھی کارکردگی کو پس پشت پہ ڈال دیتی ہے۔
اب جن لوگوں نے چلڈرن فٹ بال ٹیم کا انعقاد کیا ہے انہیں چاہیے کہ ایسی حکمت عملی اختیار کریںکہ اس طرح کی ٹیموں کا جال مختلف کھیلوں میں پورے ملک میں پھیلا دیاجائے۔تاکہ یہی آج کے بچے کل کے با کردار شہری اور کھلاڑی بن کر ابھریں اور کراچی بلکہ پوری قوم کے سینے پہ لگے بد نماء داغوں کو دھو ڈالیں۔اس کام میں تین سے دس سال تک لگ سکتے ہیں ۔پھر دھیرے دھیرے وہی پرانا جگر مگر کرتا ہنستا مسکرتاا کراچی نگاہوں کو خیرہ کرنے لگے گا ۔ اس کی کھوئی ہوئی رونقیں پھر سے لوٹ آئیں۔ پھر نہ صرف کراچی بلکہ پوراے ملک کے عوام برائیوں جرائم اوردہشت گردی سے نجات پا جائیں گے۔اے کاش ایسا ہو جائے۔۔۔خدا وہ دن جلد دکھائے۔ آمین