شہر سے دور دراز قصبہ مدن پورہ میں سکھیا عرصہ سے دائ جنائ کا پیشہ کررہی تھی۔ اپنے کام میں مہارت کے سبب وہ آس پاس کے گاؤں میں دور دور تک مشہور تھی۔مار کاٹ کا زمانہ نہ ہونے سے رات و دن کسی وقت بھی اسے ضرورت مندوں کی مدد سے انکار نہیں تھا۔
یہاں اس کا کوئ رشتہ دار نہیں تھا اور وہ اپنی جھونپڑی میں تنہا رہتی تھی۔وقت گزرنے کے ساتھ وہ کمزور ہوتی گئ۔اور اس کا دھندا مندا پڑنے لگا۔پھر ایک چھوٹا سرکاری اسپتال کھل جانےاور اس میں ایک مڈ وائف کی تقرری نے رہی سہی کسر پوری کردی۔
تنہائ سے بچنے کے اس کے پاس کچھ پالتو جانور تھے ہی اب کسی کرم فرما کے مشورہ سےاس نے اپنا خرچ چلانے کے لئےدو اچھی نسل کے بکرے پال لئے ۔اس کا مقصد تھاعلاقہ کے کھونٹے سےبندھی رہنے والی غریبوں کی بکریوں کی افزائش نسل کا کاروبار۔اس کام سے اس کی کوئ خاص آمدنی توتھی نہیں بس جیسے تیسے گزرہو جاتی تھی۔
پھر قصبہ کی ترقی نے ایک اور کروٹ بدلی تو وہاں ویٹنری سینٹر بھی کھل گیا۔ اب بیچاری سکھیا کرے تو کیا کرے اوربالکل ہی دکھیا ہوگئ۔
اس وقت گاؤن میں جتنے خاندانی رئیس و زمیندار تھے ان میں کوئ ایسا نہ رہا ہوگاجنکے بیٹے بیٹیوں کی ولادت سکھیا کے ہاتھوں نہ انجام پائ ہو۔ان میں سے وہ جن کی اولادوں کے باہر بڑے عہدوں پر ہونےکی اسے خبر تھی ان سےاسےمالی امداد کی امید تھی۔ان سےملنے پر معلوم ہوا کہ اب وہ بزرگ خود ہی اپنی جھوٹھی شان سنبھالے گرتے ہوئے کھنڈروں کی رکھوالی میں زندگی گزار رہے ہیں۔
سکھیا نان شبینہ کو محتاج ہو چکی تھی۔کبھی کبھی کوئ اللہ کا بندہ ترس کھاکے کھانے کو کچھ دے جاتاتھا۔جانوروں میں اب صرف اس کا ایک بکرا بچآ تھا جسے وہ پیار سے شیرو کہتی تھی۔
آج صبح سے بھوک کے سبب وہ بے تحاشا چلا رہا تھا۔ اچانک اسے کچھ یاد آیا۔اٹھی اور ٹھنڈے چولھے سے ایک کوئلہ لے کر باہر نکل گئ ۔دوسرے لمحے وہ ٹوٹے پھو ٹے آلفاظ میں لکھ رہی تھی”بکرا بکاؤ ہے”
ایسا لکھتے ہوئےاس کےہاتھ کانپےلیکن پھر اس نے سوچا جب خلیل آللہ اپنے ہاتھوں اپنا بیٹا ذبح کرسکتے ہیں تو میں کس شمار میں ہوں۔
دوپہر تک کئ گاہک آئے لیکن کسی نے کہا مریل ہے،کسی نے ، کسی نےدبلااور کسی نے کہا کہ اسے تو صرف خصی چاہئے۔
سودا ہوتا نظر نہ آیا تو سکھیا نے رسی کھولی ،شیرو کو باہر نکال کر دروازہ بند کیااور پھرکھری کھاٹ پر بے سدھ پڑ گئ۔آنکھ کھلی تو کوٹھری میں ہاتھ کو ہاتھ نہیں سجھائ دے رہا تھا۔باہر دروازہ پر مسلسل کھٹ کھٹ کی آہٹ سنائ دے رہی تھی۔لالٹین جلاکر دروازہ کھولا تو اس کا لاڈلا شیرو سامنے کھڑا تھا۔ اس نے فرط محبت سے بیتابانہ اسے گلے لگالیا۔اب وہ بھوک سے بیچین نہیں تھا۔شاید کہیں منھ مار کے آیا تھا اس کی رسی بھی نئ تھی۔
آج صبح آنکھ کھلی تو بقرعید تھی۔گھر میں کچھ کھانے پینے کو نہیں تھا۔حسن اتفاق سےسکھیا کوایک پڑیا شکر مل گئ۔ اس سے اسنے شربت بنایا ۔خود پیا اور شیرو کو بھی پلایا اور اسے پھر کل کی طرح گھر سے باہر نکال دیا۔
شام کو کہیں سے ایک خوراک کھانا آگیا تھا ۔اس میں سے ایک روٹی بچاکروہ اپنے شیروکاانتظار کرتے کرتے سو گئ ۔
دوسرے دن ،تیسرے اور کئ دنوں تک کرتی رہی پھراس محلہ کے ایک شخص نے بتایا کہ اس کی تو ننھے اور فقیرے نے سجا سنوار کر بقرعید ہی کے دن قربانی کرادی تھی۔
اس خبر سے سکھیا کےدل کو دھکاتو لگالیکن اک گونہ سکون بھی ہواکہ چلو بھوک سے مرنے کے بجائےمیرا شیرو قربانی کا درجہ پاگیا۔
“وہ قربان تو ہوا لیکن اس قربانی کا ثواب کس کے حصہ میں گیاہو گا ان چوروں کے یا میرے”۔
بیچاری اس خیال سے مدتوں پریشان رہی۔
رضیہ کاظمی