اشکِ شفق گوں سے !!! صرف بالغوں کیلئے‎

 
                                                                                  
                                                           گل بخشالوی 
ہمارے بچپن میں عام طور پر سینما گھروں کے سامنے دیوہیکل سائن بورڈ پر لکھا ہوا ہوتا تھا صرف بالغوں کیلئے ایسی فلموں میں اخلاق سوز مناظر فلم بند ہوتے اور بالغوں کی نسبت سینما حال میں نابالغوں کی تعداد زیادہ ہوا کرتی تھی ۔وہی کچھ آج کل ہمارے ٹی وی چینلز پر دیکھایا جارہاہے ،معاشرتی جرائم کو ڈرامائی تشکیل دے کر معاشرے کی گھناﺅنی صورت اس قدر بے حیائی اور توہین آمیز مناظر میں فلمائی جاتی ہے کہ مہذب معاشرے کے شرفاءخاندان کی بہو ،بیٹیوں کے درمیان شرم سے پسینہ پسینہ ہوجاتے ہیں۔
مہذب قوم کے صاحبانِ ضمیر سوچ رہے ہیں ،ہماری قومی صحافت وطن عزیز میں قومی اور مذہبی اقدار کی کون سی صورت دنیا کو دکھار ہے ہیں کیا ہمارے وطن عزیز میں صرف جرائم ہی ہوتے ہیں کیا دین مصطفےٰ کے علمبردار ،توحید ِربانی کے پرستار قوم کا حسنِ کردار سرزمین پاک پر دم توڑ چکا ہے ۔کیا ایسا کوئی خوبصورت چہرہ نہیں ہماری معاشرتی اور مذہبی زندگی کا جو دنیا کے سامنے قومی اور مذہبی عظمت کی شان کے طور پر پیش کیا جاسکے ۔بے ضمیر مالکان اور نیوز ریڈر کیا کردار ادا کر رہے ہیں کیا اُن کی آنکھوں میں حیا کا پانی خشک ہوچکا ہے ؟کیا نیوز چینل کے مالکان اور نیوز ریڈر 5سالہ معصوم بچی کےساتھ ہونے والے ظلم پر فلمایا ہوا ڈرامہ اپنے گھر کی بہوبیٹیوں کے درمیان بیٹھ کر دیکھ سکیں گے بریکنگ نیوز میں غیرمہذب اور فحش تصاویر اور فحش گوئی کو اپنی بہو بیٹیوں میں دیکھتے ہوئے اُنہیں شرم نہیں آتی ایسے مناظر تو بازاری لوگ بھی دیکھتے ہوئے شرماتے ہیں ۔
جرائم کہاں نہیں ہوتے کس سے ملک میں نہیں ہوتے لیکن مہذب اور وطن دوست قوموں میں ایسے جرائم کے ارتکاب پر قانون کے ہاتھ مضبوط کیے جاتے ہیں اُن کی تشہیر ہوتی ہے صرف خبر کی حد تک لیکن بدقسمتی سے ہمارے صحافتی اداروں کے علمبردار ایسے بدنام کرداروں کو فلما کر قانون کا مذاق اُڑانے لگتے ہیں ۔دراصل یہ لوگ صحافت کی آڑ میں مجرم اور جرم کو پروان چڑھارہے ہیں ۔معاشرتی مجرموں کو تربیت دے رہے ہیں ۔جرائم کیسے ہوتے ہیں کون سے طریقے اور راستے اپنائے جاتے ہیں کیا ہمارے ٹی وی چینلز جرائم پیشہ ذہنیت کے حامل لوگوں کی تربیت گاہیں ہیں ۔
ٹی وی چینلز کے بدنما کردار پر پیمرا کو موردِ الزام ٹھہراتا جاتاہے کہ وہ اخلاقیات کی دھجیاں اُڑانے والوں کے خلاف کاروائی نہیں کرتے ،کاروائی ہوتی ہے لیکن ایسے معاشرتی مجرم ٹی وی چینلز کے مالکان عدالتوں سے حکم امتناعی لے آتے ہیں ۔پوچھا ہے کسی فرد واحد نے عدالتوں میں تشریف فرماجج صاحبان سے وہ کہ کیوں حکم امتناعی جاری کرتے ہیں ۔مجرم کواُس کے جرم پر سزا کیوں نہیں دیتے کیا وہ نہیں دیکھتے اپنی بہو بیٹیوں کیساتھ ایسے بدنما کرداروں کو ۔
بے ضمیر اور اخلاق باختہ لوگوں کی سرپرستی کرنے والے اپنے گریبان میں جھانکیں اور سوچیں کیا سرزمین ِپاک پر ہمارا معاشرہ اس قدر بدصورت ہے ۔
اپنا تبصرہ لکھیں