اطاعتِ رسول اور اتباعِ رسول ﷺ میں معمولی سا فرق ہے۔ اطاعتِ رسول کے معنی ہیں کہ رسول ص کے ہرحکم کی فرمانبرداری کی جائے اور اتباع کے معنی ہیں کہ جو افعال انہوں نے جسطرح سے انجام دئے ان کی اسی طرح سے پیروی کی جائے- یعنی جو کچھ انہوں نے کیا اور جس طرح سے کیا اس طرح سے ہم بھی کریں۔اسی میں ہمارے فرائض اور سنن آجاتے ہیں-
اطاعت رسول قرآن پاک میں اطاعتِ رسولﷺ اور اسی طرح اتباعِ رسولﷺ کے سلسلے میں متعدد
آیات ہیں مسلمان جب کلمہ طیبہ لااَلٰہ اِلااللہ محمدالرسول اللہ پڑھتا ہے تو وہ دراصل اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ وہ زندگی میں صرف اللہ کی اطاعت و بندگی کرے گا اور پھر اطاعت و بندگی کا وہی طرز اختیار کرے گا جو رسول اللہ نے اختیار کیا۔
قرآن میں اللہ تعالی کا ارشاد ہوتاہےو۔من یطع الرسول فقد اطاع اللہ
جس نے رسول کی اطاعت کی ، اس نے اللہ کی اطاعت کی یعنی اطاعت کی بنیاد رسول اکرم پر ایمان لانے پر رکھی گئی ہے۔ صرف اللہ کی واحدانیت پر ایمان لانے سے کوئی شخص دائرہ اسلام میں داخل نہیں ہو سکتا جب تک کہ اللہ کے رسول ص کی تصدیق نہ کرے اور جو کچھ آپ ص اللہ کی طرف سے لائے ہیں اس پر ایمان نہ لائے۔ قران کریم کی چند آیات اطاعت رسول کے سلسلے میں درج کر رہی ہوں
ارشاد باری تعالی ہے(وَاقِیْمُوا الصَّلَاۃ وَآتُوا الزَّکَاۃ وَاطِیْعُوا الرَّسُولَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُونَ )”نماز کو قائم کرو ‘زکوۃ ادا کرو اور اطاعت کرو رسول کی تاکہ تم پر رحم کیا جائے”(سورئہ نور:٥٦).
٢۔اطاعتِ رسول ‘فلاح وکامیابی کی دلیل ہے :
ارشاد باری تعالی ہے(وَمَن یُطِعْ اللَّہَ وَرَسُولَہُ فَقَدْ فَازَ فَوْزاً عَظِیْماً )”اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول کی اطا عت کرے گا اس نے بڑی کامیابی پالی ”
( سورئہ احزاب:٧١)ا(وَمَن یُطِعِ اللَّہَ وَرَسُولَہُ وَیَخْشَ اللَّہَ وَیَتَّقْہِ فَاوْلَئِکَ ہُمُ الْفَائِزُون)”اور جو بھی اللہ تعالی کی’ اس کے رسول کی اطاعت کرے’خوف الہی رکھےاور اس سے ڈرتے رہیں
وہی کامیابی پانے والے ہیں”( نور:٥٢)
( وَمَن یُطِعِ اللّہَ وَالرَّسُولَ فَاوْلَئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ انْعَمَ اللّہُ عَلَیْْہِم مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاء وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ اولَئِکَ رَفِیْقا)”اور جو بھی اللہ تعالی کی اور رسول کی فرمانبرداری کرے’ وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالی نے انعام کیا ہے جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ’ یہ بہترین رفیق ہیں”( سورئہ نساء:٦٩).
ان آیات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہمارۓ ایمان کاملہ کا دارومدار رسولاللہ صلعم کی اطاعت میں ہے اطاعت کا یہ پہلو ہمارے تمام فرائض کی ادائیگی اور جملہ مناسک میں ہےاللہ کے دین کا نفاذ رسول صلعم نے خود عملی طور پر کر دکھایا – نماز ، روزہ ،حج ، زکواۃ ، جہاد کو خود کرکے ہمیں دکھایا کہ ہمیں ان اعمال اور افعال کو کیسے انجام دینا ہے-فرائض و نوافل کی ترتیب اور اہمیت سے آگاہ کیا مختصرا اطاعت سے یہ مراد ہے جیسے ایک ملازم ایک ماتحت اپنے آقا کا حکم بغیر چوں چرا کئے طوعا و کرہا مانے اور اسی پر ہمارے ایمان کا دارومدار ہے-
۔اتباعِ رسول ‘اللہ کی محبت اور اس کی مغفرت کا ذریعہ ہے:
ارشاد باری تعالی ہے(قُلْ ِن کُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّہَ فَاتَّبِعُونِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَاللّہُ غَفُور رَّحِیْم)”کہ دیجئے اگر تم اللہ تعالی سے محبت رکھتے ہو تو میر ی تابعداری( پیروی) کرو ‘ خود اللہ تعالی تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ معاف فرما دے گا’ اور اللہ تعالی بڑا بخشنے والا مہربان ہے”( سورئہ آل عمران:٣١).
ارشاد باری تعالی ہے(فَآمِنُواْ بِاللّہِ وَرَسُولِہِ النَّبِیِّ الامِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّہِ وَکَلِمَاتِہِ وَاتَّبِعُوہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُون)”سو اللہ تعالی پر ایمان لاؤ اور اس کے نبی امی پر جو کہ اللہ تعالی پر اور اس کے احکام پر ایمان رکھتے ہیںاور ان کا اتباع کروتاکہ تم راہ پر
ہمیں بطور مسلمان آپ صلعم کی اطاعت و اتباع دونوں کا حکم ہے اور ان دونوں میں چولی دامن کا ساتھ ہے بلکہ اگر غور کیا جائے تو اطاعت اور اتباع ایک ہی دکھائے دیتے ہیں – جیسے کہ سورہ آل عمران کی آیت میں آللہ نے اپنے محبوب ہونے کا دار و مدار آپ صلعم کی اتباع میں رکھا ہےاتباع کو ہم تقلید کے معنوں میں لے سکتے ہیں یعنی جو افعال آپﷺنے جس طرح انجام دئے اسکی ہم پیروی کریں -اسمیں وہ افعال بھی آجاتے ہیں جو آپ ﷺ کی نشست برخاست کھانے پینے سے متعلق ہیں جنکو اپنانا باعث سعادت ہے لیکن جنکو چھوڑ دینے میں کوئی گناہ نہیں ہے -مثلا بیٹھ کر پانی پینا ، تین سانس میں پینا ، بیٹھ کر کھانا کھانا، ہاتھ سے کھانا یا آخر میں انگلیا ں چاٹنا -اس تفصیل میں ہم جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول پاک صلعم کے ہاں تو کئی روز تک چولھا ہی نہیں جلتا تھا جبکہ آج ہماری امت میں بسیار خوری اتنی زیادہ ہے-
آپ کی اطاعت اور اتباع سے واقفیت کیلئے سیرت طیبہ کا مطالعہ ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺکی زندگی میں مختلف النوع حالات پیش آئے اور مختلف قسم کے حالات میں آپ ﷺ نے جو طرز عمل اختیار کیا اس کے بارے میں ہمیں علم ہوتا ہے۔ ایسا وقت تھا جب آپ ﷺ دولت مند تھے پھر مفلسی بھی دیکھی۔ اطاعت گزاری کا وقت گزارا اور فرمانروائی کا بھی۔ دوستی بھی نبھائی، دشمنی بھی جھیلنی پڑی۔ صحت مند و تندرست رہے، بیماری سے بھی سابقہ پڑا۔ حکومت و جماعت کا انتظام چلایا، معلمی بھی کی، فوج کے سپہ سالار رہے، قاضی اور جج کے فرائض انجام دیئے۔ رشتہ داریاں نبھائیں، باپ کی حیثیت سے، شوہر کی حیثیت سے، سسر کی حیثیت سے، مسلموں اور غیر مسلموں سے تعلقات۔ دوسرے بڑے آدمیوں کی طرح آپکی زندگی کا کوئی گوشہ خفیہ نہیں ہے۔
حضرت محمد ﷺ کی زندگی کا ہر رخ ہمارے سامنے ہے اور مکمل ہے۔ چمکتے سورج کی طرح واضح ہے۔ آپ ﷺ کا شخصی کردار اور آپ ص کا اعلیٰ اخلاقی اوصاف، شرافت، صبر، شجاعت، توکل، عبادت سب کی کیفیت اور عملی نمونے موجود ہیں۔
اس طرح آپﷺاپنی گھریلو زندگی میں اچھے شوہر، شفیق باپ، مہربان نانا کی حیثیت میں کس طرح کے تھے ہم بخوبی جانتے ہیں۔ اجتماعی زندگی میں اچھے ساتھی، ہمدرد سربراہ، اعلیٰ کمانڈر، بہترین منتظم و مدبر، دشمنوں کے خیرخواہ وغیرہ ۔غرضیکہ ہر عمل کا نمونہ بہترین نمونہ آپ کی ذات میں ملتا ہے۔
حضرت عائشہ ﷺ کا قول ’’حضور ﷺکا اخلاق مجسم قرآن ہے۔ ‘‘
قرآن پاک کی آیت ہے۔ وَمااٰتکُم الرسول فخذوہ وَمانھا کم عنہ فانتھوٰہ۔ یعنی تمہارا رسول تمہیں جو چیز دے اسے خوشی سے لے لو اور جس چیز سے روکے اس سے باز رہو۔
اس کے ساتھ ہی سورہ النجم سے اس بات کی تشریح کر دی وَماینطق عن الھوٰی اِن ھو اَلاَّوحی یوحیٰ کہ نبی ﷺ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کہتے بلکہ جو ان کو وحی کی جاتی ہے وہی بولتے ہیں۔
انا ارسلنک شاھداً و مبشراً و نذیراً لیُؤمنو باللہ و رسولِہِ (الفتح 8-9)
بیشک ہم نے بھیجا آپ کو گواہ بنا کر، خوشخبری دینے والا، ڈرانے والا تاکہ اے لوگو!تم اللہ اوراس کے رسول ﷺ پر ایمان لے آؤ۔
شاہد، مبشر، نذیر کی تشریح۔
سورہ اعراف میں ارشاد ہوتا ہے۔
فاٰمنوباللہ رسولہ النبی الامّی الذی یُومن باللہ و کلمتِہِ و اتبعوہ لعلَکُم تھتدون۔
پس ایمان لاؤ اللہ پر اور اس کے رسول نبی اُمّی پر جو خود اللہ اور اس کی باتوں پر ایمان لاتا ہے اور اس کی پیروی کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پا لو۔
ومن لم یومن باللہ وَرسولِہ فانَّااعتدنا لِلکٰفرین سعیراً۔
اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان نہ لایا تو پس ہم نے کافروں کے لئے آگ تیار کر رکھی ہے۔
ان آیات سے یہ نشاندہی ہوتی ہے کہ حضورﷺ پر ایمان لانا فرض ہے اور حضو ﷺ پر ایمان لائے بغیر نہ ایمان پورا ہے اور نہ اسلام درست ہے۔
حضرت ابوہریرہ رض سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا کہ مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے ساتھ اس وقت تک جہاد و قتال کروں جب تک کہ وہ اللہ کی وحدانیت اور میری رسالت کے ساتھ ان باتوں کی تصدیق نہ کرلیں جو مجھے اللہ تعالیٰ نے تعلیم فرمائی ہیں۔اب ان کا معاملہ اللہ کے ساتھ ہے۔
آنحضرت ﷺکا معاملہ یہ کہ آپ نبی اُمّی تھے (اَن پڑھ) آپ اس قوم میں مبعوث ہوئے جوتمام کی تمام جاہل تھی۔ آپ ﷺ کی نشوونما اس شہر میں ہوئی جہاں گزشتہ علوم کو جاننے والا کوئی نہ تھا نہ ہی آپ ﷺنے کسی ایسے شہر کا سفر کیا جس میں کوئی عالم تھا جس سے آپ ﷺعلم حاصل کرتے اور توریت و انجیل اور گزشتہ امتوں کے حالات جانتے۔ یہ ایک مصلحت خداوندی تھا اس کے باوجود آپ ﷺ نے دنیا کے تمام ملتوں کے ہر فریق میں ایسی محبت قائم کی کہ اگر تمام دنیا کے عالم و نقاد بھی جمع ہو جائیں تو بھی اس کی مثل کی کوئی دلیل نہیں لاسکتے۔ اُمّی ہونے کے باوجود آپ ﷺ کا ہر قسم کے علوم میں ماہر ہونا آپ ﷺ کی عظمت کی روشن دلیل ہے۔
آپﷺ پر صرف ایمان لانا کافی نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں آپ ﷺ کااتباع ضروری ہے۔ آپﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لئے لازم ہے۔ آپ ﷺ پر ایمان لانے اور آپﷺ کی اطاعت و اتباع کی بدولت ہی ہدایت ملنے کی توقع کی جاسکتی ہے۔جو شخص واضح ہدایت اور رہنمائی ملنے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان نہیں لاتا وہ کافر ہے، اس کے لئے جہنم کی آگ ہے جس میں اسے جھونک دیا جائے
Post Views: 281
جزاک الله خیر اچھی یاد دہانی ہے،فزَکِر انّما انت مُذَکِّر