نئی دہلی۔ ۱۰ نومبر
ہر سال کی مانند امسال بھی اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن اور یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا کے زیر اہتمام علامہ اقبال کے یوم پیدائش 9نومبر کو عالمی یوم اردو کا انعقاد کیا گیا۔ دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر پروفیسر ابن کنول کی صدارت میں ہونے والے اس پروگرام کا موضوع تھا ’’تعلیمی اداروں میں اردو کی تعلیم کیوں اور کیسے‘‘۔ مقررین نے ملک میں اردو تعلیم کی صورت حال پر اپنی فکر مندی کا اظہار کیا اور مرکزی اور ریاستی حکومتوں سے مطالبہ کیا کہ وہ اردو کو اس کا جائز حق دیں اور اس کے ساتھ ہونے والی نا انصافی کا سلسلہ بند کریں۔ انھوں نے اہل اردو سے بھی اپیل کی کہ وہ اردو کے فروغ کے لیے تن من دھن سے کام کریں اور اپنی اور اپنے اہل خانہ کی زندگی میں اردو کو پوری طرح رائج کریں۔ اس موقع پر مفسر قرآن، مناظر اسلام، صحافی اور مصنف مولانا ثناء اللہ امرتسر کی حیات و خدمات پر شائع کیے جانے والے ایک یادگار مجلہ کا اجرا بھی کیا گیا۔ عالمی یوم اردو آرگنائزنگ کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر سید احمد خاں نے جو کہ اس موقع پر حیدرآباد میں ایک کانفرنس میں شریک تھے، بذریعہ موبائل اپنا پیغام پیش کیا۔ پروگرام کی نظامت صحافی سہیل انجم نے کی۔
پروفیسر ابن کنول نے صدارتی تقریر میں کہا کہ اردو کے لیے جس قدر فکرمند ہم تقریروں میں نظر آتے ہیں اسے عملی جامہ پہنانے کی بھی ضرورت ہے۔ اردو رسم الخط سے بیزاری اردو کے زوال ایک بڑی وجہ ہے۔ ہم اپنے اندر یہ احساس پیدا کریں کہ ہمارے بچوں کا ذریعہ معاش اردو ہو یا نہ ہو لیکن ان کو اردو ضرور سکھائیں گے۔ اس طرح ہم اردو کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔
پروفیسر عتیق اللہ نے کہاکہ سرکاری و غیر سرکاری تعلیمی اداروں اور اسکولوں میں اردو کی تعلیم کے تئیں ہم نے اس قدر تغافل برتا ہے کہ آج اردو کی صورت حال بد سے بدتر ہتی جارہی ہے۔ جو صوبے اردو کے ہیں وہاں اردو پر قدغن لگائی گئی بالخصوص اترپردیش، بہار، پنجاب وغیرہ میں۔ ہم صرف باتیں کرتے ہیں اور اردو کے زوال کی نوحہ خوانی کرتے ہیں مگر اس زوال کو ترقی میں بدلنے کے عملی اقدامات نہیں کرتے۔ ہماری کوششوں میں بڑی حد تک کمیاں ہیں۔ ہمیں اجتماعی کے ساتھ ساتھ انفرادی کوششیں بھی کرنی ہوں گی نیز اردو کی ترقی کے لیے ہمیں اپنے دلوں میں اس کے تئیں خلوص اور عقیدت پیدا کرنا ہوگا۔
ڈاکٹر سید فاروق نے کہاکہ آج کے حالات میں تعلقات کو جوڑنے کے لیے اور محبتیں بڑھانے کے لیے اردو کی تعلیم ضروری ہے کیونکہ یہ ایک مہذب زبان ہے۔
معروف عالم دین مولانا عبد الوہاب خلجی نے مولانا ثناء اللہ امرتسری کی خدمات روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ مولانا امرتسری کی حقانیت کواللہ نے خود ان کی زندگی میں ثابت کردیا۔ہندوستان کی سرزمین پر اگر کوئی فتنہ اسلام کے خلاف کھڑا کیا جاتا تھا تو اس کا مقابلہ کرنے کے لیے مولانا امرتسری ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔
سینئر صحافی اور روزنامہ جدید خبر کے مدیر معصوم مرادآبادی نے کہا کہ اس وقت مہاراشٹر میں اردو کی تعلیم کا سب سے زیادہ بہتر انتظام و انصرام ہے جبکہ یوپی میں صورت حال بہت بری ہے۔ یوپی کسی زمانے میں اردو کا دبستان ہواکرتا تھا آج وہ قبرستان ہے۔ اردو آج وہاں مقتل میں ہے جہاں ایک بھی اردو میڈیم اسکول نہیں ہے۔ انھوں نے پورے ملک میں اردو کی ترویج و اشاعت کے لیے سنجیدہ قدم اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
مولانا مفتی عطاء الرحمن قاسمی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ موانا ثناء اللہ امرتسری ایک عبقری شخصیت کے مالک تھے جنھوں نے جنگ آزادی میں حصہ لیا۔ آپ جمعےۃ علماء ہند کے بانی تھے۔ آپ نے بیش بہا علمی خدمات انجام دی ہیں۔
مولانا محمد رحمانی صدر مرکز ابوالکلام آزاد نئی دہلی نے مولانا ثناء اللہ امرتسری کی خدمات پر روشنی ڈالی اور کہا مولانا امرتسری نے اخبار ’اہل حدیث‘ کے ذریعے ۴۴ سال تک اسلام مخالف فتنوں کا جواب دیا۔ آپ کی تصانیف بیش قیمت ہیں جن کے ذریعے آپ نے اسلام کے خلاف اٹھنے والے ہر فتنے کی سرکوبی کی اور مناظروں میں اسلام مخالف لوگوں کی زبانیں بند کردیں۔
سیلم پور کے سابق رکن اسمبلی چودھری متین نے کہا اردو صرف مسلمانوں کی زبان نہیں بلکہ سب کی زبان ہے۔ اردو کے الفاظ غیر مسلموں کو بہت پسند آتے ہیں مگر اس زبان پر اب مسلمانوں کا لیبل لگ گیا ہے۔
صحافی سہیل انجم نے مولانا ثناء اللہ امرتسری پر ایک مقفہ مسجع قلمی خاکہ پیش کیا جسے سامعین نے بے حد پسند کیا۔ اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن دہلی کے صدر مولانا رضوان اختر قاسمی نے ’’اردو کی دھوم سارے زمانے میں اب بھی ہے‘‘ کے عنوان سے اردو کی صورت حال پر مقالہ پیش کیا۔ تقریب کے دوران سینئر صحافی اور ہفت روزہ اخبار نو کے مینیجنگ ایڈیٹر مودود صدیقی کو ان کی خدمات کے اعتراف میں محفوظ الرحمن عالمی یوم اردو ایوارڈ اور عبد الغفار صدیقی بجنور کو حفیظ میرٹھی عالمی یوم اردو ایوارڈ تفویض کیے گئے۔ قاری امتیاز احمد نے تلاوت قرآن کی اور معروف شاعر متین امروہوی نے نعت اور قطعات اور بستی سے آئے مولانا مجیب بستوی نے نظم پیش کی۔ اوریکل پبلک اسکول کی طالبات نے علامہ اقبال کا ترانہ سارے جہاں سے اچھا اور لب پہ آتی ہے دعا پیش کی۔ عالمی یوم اردو آرگنائزنگ کمیٹی کے ایک اہم رکن مولانا رضوان اختر قاسمی، حکیم عطاء الرحمن اجملی اور ان کے رفقا نے پروگرام کو کامیاب بنانے کے سلسلے میں انتھک محنت کی۔