الحق المبین کی روشنی میںرہنما اعظم ۖ کا پیغام عمل
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی
سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان
اللہ تعالیٰ نے انسان کو کچھ اس طرح کے متضاد رجحانات عطا فرمائے ہیں کہ اگر وہ عقلِ سلیم سے کام نہ لے اور سفلی جذبات کا اتباع کرتا رہے تو وہ اسفل السافلین میں پہنچ جاتا ہے اور بصورتِ دیگر سفلیات سے ترکِ تعلق کر کے روحانیت کی طرف قدم بڑھاتا رہے تو اپنے مبدأ سے واصل ہو کر فرشتوں سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے ۔باری تعالیٰ نے اپنی کمال مہربانی سے انسان میں زندگی کا صحیح شعور پیدا کرنے کیلئے اور اس کو روحانی منازل کی دشوار گذار گھاٹیوں سے عبور کرنے کا طریقہ اور مادیت یا سفلیات میں انہماک کے خوف ناک اور تباہی خیز نتائج ظاہر کرنے کیلئے انبیاء کرام اور اولیاء کاملین کو پیدا فرمایا۔ان مبارک ہستیوں نے اس کو نجات کا آسمانی نسخہ تعلیم دیتے ہوئے کہاکہ انسان کی نجات توحیدِ الہٰی میں ہے ۔جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذات صفات ،افعال اور اسماء میں اللہ تعالیٰ کا کسی حیثیت سے بھی شریک نہ بنائے اور اسی لاثانی الوہیت والے کی عبادت کرے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔”پس جان لو کہ نہیں ہے کوئی الوہیت والا مگر اللہ ۔” (سورة محمد آیت نمبر19پارہ 26) اور فرمایا:”ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کو بھی وحی کرتے رہے کہ سوائے میرے کوئی الوہیت والا نہیں ہے تم لوگ میری عبادت کرو۔”(سورة النباء آیت نمبر25پارہ 17) لیکن اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے صرف زبانی اقرار اور دل سے بھی تصدیق کرنے میں فرق ہے ۔دل سے صحیح اقرار تو اس وقت ہو سکتا ہے جبکہ یقین واثق ہو جائے ۔چونکہ یقین کی کیفیات بھی مختلف ہیں ،کسی چیز کا سُن کر پا استدلال سے یقین کرنا اور آنکھوں سے دیکھ کر مطمئن ہو جانا جس طرح یکساں نہیں ، عین الیقین اور حق الیقین کے درجات میں بھی عظیم الشان فرق ہے ۔مطلب یہ ہے کہ جتنی عمدگی سے طالب صادق توحید الہٰی حاصل کرے گا اسی قدر آسانی سے روحانیت کی ارتقائی منزلوں میں اس کو کامیابی نصیب ہو گی۔ جب کوئی جویائے حقیقت اپنے مبدأ کی طرف اس طرح رجوع ہوتا ہے کہ اس میں تعلق جسمانیت اور آلودگیٔ مادیت سے جو کثافتیں پیدا ہوگئیں تھیں دور ہو جاتی ہیں تو اس پر عجائبات عالم امر اور انوار کی فراوانی کی وجہ سے ایسی کیفیات طاری ہو تی ہیں کہ اس کو اپنی ہستی کا بھی احساس باقی نہیں رہتا ۔حواسِ جسمانی غیر منظم سے ہو جاتے ہیں۔ جب بندہ قرب نوافل کے مرتبے پر پہنچتا ہے تو اس کو حق میں اس قدر استغراق ہوتا ہے کہ اپنی ہستی کا بھی ہوش نہیں رہتا اور اس کے دل و دماغ ،عقل و فکر اور قلب و روح پر حق چھا جاتا ہے ۔اگر چہ وہ دیکھتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے ۔لیکن پوست کی آنکھوں سے نہیں۔ گوشت کے کانوں سے نہیں ۔”اللہ تعالیٰ ہی اسکے واسطے سمع، بصر اور ہاتھ پائوں ہو جاتا ہے ۔”(بخاری شریف) اس میں ارادتِ حق کا ظہور ہوتا ہے ۔شبلی نے کہا ہے کہ عارف وہ ہے کہ دنیا کی اِزار بنائے اور آخرت کی چادر اور پھر دونوں سے مجرد ہو کر حق تعالیٰ سے منفرد ہو جائے ۔(تذکرة الاولیائ) انسانی طبائع چونکہ مختلف ہیں اور چونکہ سب کی فلاح و بہبود توحیدِ الہٰی پر ایمان لانے میں ہے ۔ہادی مطلق ،انبیاء و مرسلین علیہم السلام کے ذریعے ،ان کو اس طرح تعلیم فرماتا ہے کہ اُن کی کم فہمی کی بناء پر اُن کے سامنے حقائق و معارف کا ذکر نہ کیا جائے تاکہ نہ سمجھ سکنے اور انکار کرنے کی وجہ سے حق سے دور نہ جا پڑیں۔اُن کو صورت سے بے صورتی ،جسم سے روح کی طرف راغب ہونے کی اس طر ح درجہ بدرجہ تعلیم دی جاتی ہے کہ اُن کی عقل پر زیادہ بارنہ پڑے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد پاک ہے :”اے حبیب ۖ! اپنے رب کے راستے پر (لوگوں) کو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ بلائو”(سورة النحل آیت نمبر125پارہ 14) حدیث مبارکہ میں ہے :”آدمی تین قسم کے ہیں۔ اول قسم کے بہ سیرت بہائم ،دوسری قسم کے بہ سیرت ملائک ،تیسری قسم کے انبیاء علیہم السلام کی سیرت و اطوار پر ،پہلی قسم کے آدمی بہائم سیرت کھانے پینے سونے اور مباشرت میں مشغول رہتے ہیں اور جو گروہ فرشتہ صفات ہیں وہ روزہ ،طواف، خیرات، ذکر ،فکر ،تسبیح،تہلیل میں ہر وقت مصروف رہتے ہیں لیکن جو اصحاب انبیاء علیہم السلام کے مانند ہیں ،وہ شوق ،محبت ،عشق اور معرفت الہٰی جل جلالہ و عم نوالہ میں ہمہ وقت مستغرق رہتے ہیں۔” چنانچہ کلام اللہ سے بھی ثابت ہے کہ بلحاظِ اعمال انسان مختلف اقسام پر ہیں۔بعض اپنی بد اعمالیوں اور کمائی ہوئی ظلمتوں کی وجہ سے حقائق کے منکر اور کافر ہیں ،بعض حیاتِ دنیا کی رنگینیوں میں مبتلا اور منافق ہیں او ربعض اللہ کے خاص الخاص بندے دولت دیدار الہٰی سے مشرف ہونے کی اہلیت سے سرفراز ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:”اس دن (قیامت) (انبیاء اور اولیاء )کچھ ترو تازہ چہرے اپنے پروردگار کی طرف دیکھ رہے ہوں گے ۔”(سورة القیامة آیت نمبر22،23پارہ 29) دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”اور تم تین قسم ہو جائو۔دائیں والے کیا خوب ہیں دائیں والے اور بائیں والے کیا برے لوگ ہیں بائیں والے۔اور سبقت لے جانے والے تو سبقت والے ہیں اور یہ ہی مقرب بارگاہ ہیں۔”(سورة الواقعہ آیت 7، 11پارہ 27) ایک حدیث شریف میں انسانوں کی اقسام کو اس طرح بھی واضح فرمایا گیا ہے ۔”مسافر تین قسم کے ہیں بعض دنیا کا سفر کرتے ہیں ،ان کا سرمایہ تجارت دُنیا اور اس کا نفع گناہ و ندامت ہے ۔(یہ گروہ بہائم اور انعام کے مانند ہے)اور بعض آخرت کا سفر کرتے ہیں ،ان کا سرمایہ طاعت و عبادت ہے اور اس کا نفع جنت ہے ۔(یہ لوگ اوصافِ ملائکہ حاصل کرتے ہیں) اور بعض اللہ کی طرف سفر کرتے ہیں ۔ان کا رائس المال معرفت ہے اور اس کا نفع دیدارِ الہٰی ہے ۔(یہ لوگ انبیاء اور اولیاء اللہ کے راستے پر ہیں)” بہر حال اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ تمام انبیاء علیہم السلام اور صالحین رحمة اللہ علیہم کی اصلی اور بنیادی تعلیم انسان کو بقدرِ استعداد اللہ تعالیٰ کی وحدانیت سے آگاہ کرنا،آگاہی اور یقین سے اُس اعلیٰ ترین منزل پر پہنچانا ہے جہاں اُس کی اُلوہیت پاک کے علاوہ ہر ماسوا سے انسان کا قلب ، دماغ ،عقل اور وجدان ایسا صاف ستھرا ہو جائے کہ کسی طرح خطرۂ غیر حق کا اس کو وہم بھی نہ رہے ۔اس تعلیم حق سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ظلمتِ جسمانی سے ،انوارِ روحانی اور صورت سے بے صورتی کی طرف رجوع ہو کر انسان اسفل سے اعلیٰ کی جانب ترقی کر سکتا ہے ۔ اگر بہ نظر غور دیکھا جائے تو دُنیا کی ہر شے ہر آن اپنی ہستی کو محو اور فنا کرتی نظر آتی ہے اور بلحاظِ انجام ترقی کی طرف قدم بڑھاتی ہے یا تنزل کی طرف ۔جس شے کی آخیر اعلیٰ صفات پر ہوتی ہے اُس کو ترقی کی طرف مائل اور جس کا خاتمہ اخلاق ذمیمہ پر یا سفلی جذبات کے ہمراہ ہوتا ہے اس کو تنزل کی حالت پر کہا جا سکتا ہے ۔عالمِ جسمانی گویا ایک زینہ ہے جس پرچڑھ کر انسان عروج اور جس کے ذریعے نیچے اُتر کر تنزل کرتا ہے ۔طالب حق کے روحانی ارتقاء کے لئے ،عالمِ جسمانی کا ہونا ضروری ہے ۔کیونکہ اگر کثرت نہ ہو تو وحدت کی طرف ترقی محال ہو جائے ۔اندھیرے ہی سے اُجالے کی اہمیت معلوم ہوتی ہے اور صورت ہی سے بے صورتی کا شعور پیدا ہو سکتا ہے ۔ غیر اللہ سے دل کو پورا پورا صاف کر کے واحدنیت حق پالینا یا انسان کا اپنے حقیقی مقام پر فائز ہو جانا چونکہ بلحاظِ استعداد ،کافی وقت اور صفائی ذہن چاہتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے انبیاء و المرسلین علیہم السلام اور اُن کے نائبان یعنی اولیاء اللہ رحمة اللہ علیہم کے ذریعہ حسب حالات و طبائع انسانی ایسے اعمال تعلیم فرمائے جن پر کار بند ہو کر طالبانِ صادقِ لا الہ الا اللہ کی حقیقت سے قریب ہو جائیں اور گوہر مراد سے دامن بھر لیں ۔اب اس شاہراۂ مستقیم پر چلنے والوں میں بعض چند نعمتوں پر بس کرتے ہیں اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو منعم پر خود قربان ہو کرسب کچھ پالیتے ہیں۔بقول اقبال تو ہی نادان چند کلیوں پر قناعت کر گیا ورنہ گلشن میں علاجِ تنگی داماں بھی تھا ان برگزیدہ ہستیوں نے انسان کو ایسے اعمال، رجحانات اور تعلقاتِ مادیت سے ہمیشہ علیحدہ دہنے کی تعلیم دی جو اُس کی ترقی میں حائل اور اسفل کی طرف گرانے والے ہوں۔ دُنیا میں عموماً ایسے ہی انسانوںکی کثرت ہوتی ہے جو حقیقت کی طرف متوجہ ہونا نہیں چاہتے اور تعلیمات مذہب کو رسمیات اور حُسن صورت کے دائرہ میں محدود رکھنا ہی بڑا کمال سمجھتے ہیں ۔اُن کے دل و دماغ ظہورِ حقائق کے متحمل نہیں ہوتے ۔اس واسطے کہا گیا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اسرار ومعارف کو خاصانِ حق یعنی ترقی یافتہ انسانوں کے سامنے ظاہر کرتے ہیں،عوام کے سامنے نہیں۔کیونکہ ہر شخص اُسی با ت سے ہدایت حاصل کرسکتا ہے جو اسکی سمجھ کے مطابق ہو ۔ورنہ اظہارِ حقیقت سے عوام کا چراغ پا ہونا حتیٰ کہ عیسیٰ علیہ السلام اور دوسرے انبیاء علیہم السلام اور عارفین رحمة اللہ علیہم کے خلاف اُنکے احمقانہ اقدامات ،اُنکی جہالت کا درد ناک اور کھُلا ثبوت ہیں۔ پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفےٰۖ نے ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ لوگوں سے اُن کی عقل کے موافق گفتگو کی جائے اور اُن کو حسب مدارج تعلیم ہدایت پہنچے ۔ لیکن قرآن مجید کا یہ اعجاز، اس کے کلام اللہ ہونے کا بین ثبوت ہے کہ ایک ہی آیت سے ہر درجہ کا طالب صادق اپنی وسعت فہم و ذکا کے مطابق فیضیاب ہو سکتا ہے ۔مندرجہ ذیل احادیث اس بات کی شاہد ہیں۔ ”آپ ۖ نے فرمایا کہ انبیاء کے گروہ کو حکم ہے کہ لوگوں کو انکے مرتبوں میں رکھیں اور ان سے ان کی عقلوں کے موافق گفتگو کریں۔”(ابو دائود) حضور اکرم ۖ نے فرمایا کہ :”اللہ تعالیٰ نے مجھے علمِ اولین و آخرین کا وارث بنایا اور مختلف علوم کی مجھے تعلیم دی۔ ایک علم وہ ہے کہ جس کا چھپانا مجھ پر لازم قرار دیا کیونکہ وہ ایسا علم ہے جسکو میرے بغیر کوئی نہیں اٹھا سکتا ۔دوسرا علم وہ کہ جسکے بتانے اور چھپانے میں مجھے اختیار دیا ۔تیسرا علم وہ ہے کہ جس کے متعلق یہ حکم ہو اکہ خاص و عام کو تبلیغ کر دو۔”(تفسیر روح البیان جلد نمبر3) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ :”میں نے رسول اللہ ۖ سے دو ظرف (علم کے) یاد کرلئے ہیں۔چنانچہ اُن میں سے ایک تو میں نے ظاہر کر دیا اور دوسرے کو اگر ظاہر کروں تو یہ سرکاٹ ڈالا جائے۔”(بخاری کتاب العلم ) حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ لوگوں سے وہی با ت کہو جو وہ سمجھ سکیں۔کیا تم یہ پسند کرتے ہو کہ اللہ اور اُسکے رسول کی تکذیب کی جائے ۔ (بخاری) حضور اکرم ۖ کا لایا ہوا پیغام چونکہ آخری اور تمام عالم کے واسطے ہے اور چونکہ انسانوں کی استعداد اور طبائع مختلف ہوتی ہیں ،لہٰذا اسلامی تعلیمات حد درجہ وسیع ،آسان اور قابل العمل ہیں ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :”تم پر دین میں کسی قسم کی تنگی و سختی نہیں ہے ۔”(سورة الحج آیت نمبر78پارہ 17) یعنی ہم نے احکام دین میں تمہارے لئے ہر طرح کی آسانی ملحوظ رکھی ہے ۔جس عمل و عبادت کے کرنے کی تم کو طاقت نہیں اس کا حکم نہیں دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :”اللہ تعالیٰ کسی شخص پر بوجھ نہیں ڈالتا ،مگر اسی قدر جسکے اٹھانے کی اس کو طاقت ہو۔”(سورة البقرہ آیت نمبر286پارہ 3) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ:”” دین میں آسانی کرو اور سختی نہ کرو اور لوگوں کو خوش خبری سنائو اور متنفر نہ کرو۔”(بخاری کتاب العلم) حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ۖ نے ہمیں نصیحت کرنے کے لئے کچھ دن مقرر کر دئیے تھے ۔ہمارے پریشان ہو جانے کے خیال سے۔(بخاری کتاب العلم) غرضکہ تمام اسلامی عبادات اور تعلیمات میں انسانی طبائع کے لحاظ سے ایسی آسانیوں کا خیال رکھا گیا ہے کہ وہ دل جمعی اور ذوق و شوق سے ادا کی جا سکیں ۔ہر عبادت سے مقصد ذکرِ الہٰی ہے ۔یعنی جب انسان اللہ تعالیٰ کی الوہیت پاک کو تسلیم کر کے اوامر و نواہیکی پابندی اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کے لئے بار بار کرے گا، تو اُس کی یادِ پاک قلب میں جاگزیں ہو جائے گی۔ حق میں انہماک کے مطابق اس کو روحانی عروج حاصل ہو گا۔ سلف صالحین نے کہا ہے کہ ذکرِ الہٰی اس لئے تمام عبادتوں سے افضل ہے کہ عبادتیں ذکرِ الہٰی کا وسیلہ ہوا کرتی ہیں ۔بڑا مطلب اور اعلیٰ درجہ کا مقصد صرف ذکر ہے ۔اگر کوئی طالب صادق ۔لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ۔کی سچے دل سے تصدیق کرتا ہو اور وہ کسی آیت کلام اللہ ،کسی اسمِ الہٰی یا اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے ذکر میں مشغول ہو اور اُس سے بعض دوسرے فرائض ترک ہو جاتے ہوں تو وہ جمہور علمائے صالحین کے فیصلہ کے مطابق دائرۂ اسلام سے خارج نہیں ہو سکتا اور یہی صورت تارک الذکر نمازی کی ہے ۔البتہ کسی فریضے یا آیتِ قرآن کے انکار سے اس کو کافر کہا جائے گا۔ کیا کوئی شخص اگر دانستہ زکوٰة نہ ادا کرے یا باوجودِ استطاعت سعادتِ حج سے عمر بھر محروم رہے تو توحید الہٰی کا اقرار کرنے کے باوجود اس کو زمرۂ کفار میں شامل کیا جا سکتا ہے ۔۔۔؟ نہیں ایسا شخص کافر نہیں بلکہ گناہ گار کہا جا سکتا ہے ۔رب غفور الرحیم کو اختیار ہے کہ اُس کو عذاب کرے یا معاف فرما دے ۔ مسلمانو! تم سوختگانِ محبتِ الہٰی کو جو تارک الدنیا ہوتے ہیں ،کسی ظاہری عمل کی عدم ادائیگی کی وجہ سے بہ نظر حقارت نہ دیکھو اور بھول کر بھی اُن کے درپے آزار نہ ہو۔”غمگین لوگوں کا صبر تجھے برباد کر دے گا برباد”رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ بہرہ مند میری شفاعت سے قیامت کے دن وہ شخص ہو گا جو اپنے خالص دل سے لا الہ الااللہ کہہ دے ۔(بخاری کتاب الرقاق ،کتاب التوحید) شریعت اسلام کو انی نظر اور اپنے علم میںمحدودنہ سمجھو ۔ اللہ تعالیٰ کے راستے بے شمار ہیں ،وہ اپنے کسی طالب صادق کے کسی بھی عملِ صالح کو قبول کر کے اپنی راہِ ہدایت کشادہ کر سکتا ہے ۔کما قال اللہ تعالیٰ:”جو لوگ ہماری راہ میں مجاہدہ کرتے ہیں ہم ان کو اپنی راہیں دکھادیتے ہیں۔”(سورة العنکبوب آیت نمبر69،پارہ 21) حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ چالیس باتیں ہیں جن میں سب سے عمدہ بکری کا میخہ ہے ۔(یعنی کوئی دودھ والا جانور کسی کو دے دیا ہے کہ وہ دودھ پیا کرے پھر جب دود ھ ختم ہو جائے تو اُس کے مالک کو واپس کر دے میخہ کہلاتا ہے ) اُن چالیس باتوں میں سے ایک بات بھی جو شخص بغرض ثواب اور اُس کے وعدہ کو سچا سمجھ کر کرے گا اللہ تعالیٰ اس کے سبب اُسے جنت میں داخل کرے گا۔ حضرت حسان رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ ہم نے (ان چالیس باتوں کو شمار کرنا چاہا کہ سلام کا جواب دینا اور چھینک کا جواب دینا اور راستہ سے موذی چیز کا ہٹانا ،مگر ہم پندرہ باتیں بھی نہ گِن سکے ۔ (بخاری ) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم ۖ نے فرمایا کہ لوگوں کا اُنکی نیتوںکے موافق حشر ہو گا۔(بخاری کتاب الصوم) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ جو نمازی ہو گا اس کو جنت کے باب الصلوٰة سے جو جہاد کرنے والا ہو گا اُس کو باب الجہاد سے جس نے بہت خیرات کی ہے اس کو باب الصدقہ سے جو شخص روزہ رکھنے والا ہے اُس کو باب الریان سے بلایا جائے گا۔ یہ سُن کر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بظاہر اُس کو کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ان سب دروازوں سے بلایا جائے ،جبکہ اس کو بلایا جا چکا ہو اور جنت میں داخل ہو چکا ہو ،لیکن کوئی ایسا بھی ہو گا جس کو سارے دروازوں سے بلایا جائے ۔آپ ۖ نے فرمایا مجھے اُمید ہے کہ تم اُن لوگوں میں سے ہو گے۔(بخاری ،مسلم ،مشکوٰة) حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسول اللہ ۖ سے پوچھا گیا کہ قیامت کے دن کون بندہ اللہ کے نزدیک افضل و ارفع ہو گا درجہ میں۔آپ ۖ نے فرمایا اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنے والا مرد اور اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنے والی عورتیں۔ پھر پوچھا گیا یا رسول اللہ ۖ !کیا ذکرِ الہٰی کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے سے بھی بہتر افضل ہے آپ نے فرمایا اگر جہاد کرنے والا اپنی تلوار کافروں پر چلائے یہاں تک کہ اُس کی تلوار ٹوٹ جائے اور وہ خود یا تلوار خون سے رنگین ہو جائے پھر بھی اللہ کا ذکر کرنے والا اُن سے مرتبے میں بہتر ہے ۔(مسلم،احمد ،ترمذی) حدیث پاک میں ہے کہ:”مومن اپنی اچھی عادت کی وجہ سے اُس شخص کا درجہ حاصل کرتا ہے جو رات کو نماز میں گزارے اور دن کو روزہ دار ہو۔”(بخاری کتاب الادب) غرض عبادات سے مطلب اللہ تعالیٰ کا ذکر پاک ہے ۔یہاں تک کہ جمرات پر کنکریاں مارنا بھی اسی لئے ہے ۔رسول اللہ ۖ نے ارشاد فرمایا ہے کہ جمرات پر کنکریاں مارنا اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کرنا صرف ذکرِ الہٰی کے لئے مقرر کیا گیا ہے ۔(ترمذی،دارمی) ذکر سے مقصد فکر الہٰی اور لاالہ الا اللہ کی حقیقت کا انکشاف ہے ۔صراطِ مستقیم پر چلنے کے یہ معنی ہیں کہ انسان تمام عبادات ،اعمال ،ریاضت و مجاہدہ ،تزکیۂ نفس اور تصفیۂ قلب کے ذریعے درجہ بدرجہ اسفل سے اعلیٰ کی جانب سفر کرتا ہے اور رفتہ رفتہ عشقِ الہٰی کی آگ سے اپنے احساس، ادراک ،عقل اور فکر کو غرضکہ اپنی ہستی کو جو بذاتہ موہوم ہے کلیتاً پھونک کر فنا ہو جاتا ہے اور سوائے الوہیت والے کے اور کچھ نہیں رہتا ۔ رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ بندہ جو نیکی کرتا ہے اُسے قیامت کے دن ترازو میں رکھیں گے ۔مگر کلمہ لا الہ الا اللہ کہ اگر اُسے میزان میں رکھیں تو سات زمین اور سات آسمان اور جو کچھ اُن میں ہے ،اُن سب سے زیادہ نکلے ۔(ترمذی ) اس کلمہ مبارک کے معنی حقیقت الحقائق کی طرف رہنمائی کرتے ہیں اور جب یہ کلمہ قال سے گزر کر حال ہو جاتا ہے تو طالب صادق کو شرک فی الوجود شرک فی الصفات اور شرک فی الافعال سے رہائی نصیب ہوتی ہے ۔ جبکہ قرآن وا قعی اللہ کی کتاب ہے اور کُل مسلمانوں کے لئے دائمی رہنما ہے ۔تو ہمارا اپنی زندگی میں اس کی اطاعت کرنا عابدانہ اطاعت ہے ۔اس اطاعت میں جو بندوں کی طرح اپنی طرف سے فرماں روائے عالم ہستیٔ لازوال کی رضا کے لئے دل و جان سے کوشش کرتے اور بمقتضائے آیت ۔مَازَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی۔(سورة النجم آیت نمبر17) آنکھ اِدھر اُدھر نہ پھیرتے،راہِ مقصود پر ہمیشہ رہتے ، ریاضت و مجاہدے کے ذریعے راہِ سلوک کو طے کئے جاتے ہیں تو اس طرح اپنے آپ کو تصرف الہٰی کے تحت میں ڈال دیتے ہیں اور پھر ”مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا وَمِنْ سَیِّئَاتِ اَعْمَالِنَا”سے اس کی پناہ میں آجاتے ہیں ۔وہ انہیں اپنی ربانیت دکھاتا ہے : حدیث پاک میںروایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہ فرمایا رسول اللہ ۖ نے قرآن میں جھگڑنا کفر ہے ۔”(احمد، ابو دائود) جھٹلانے کا یہ مطلب ہے کہ قرآن کی بعض آیات سے قرآن کی آیت کو جھٹلانے کا ارادہ کرے ۔مثلاً ذکر ،فکر ،تسبیح اور اعمال صالح کی بابت جو آیات ،قرآن مجید میں وارد ہیں ان کو نماز کی آیتوں سے جھٹلائے اور روکے یا کسی کو ان کے عمل کرنے سے مانع ہو یا احکامِ نماز کو اعمال مذکورہ کی آیتوں سے رَد کرے وہ کافر ہے ۔قولہ تعالیٰ:”جن لوگوں نے ہماری آیتوں کے رَد کرنے میں ہمارے عاجز کرنے کیلئے کوشش کی وہی لوگ جہنمی ہیں۔”(سورةالحج 51پارہ 17) الغرض قرآن مجید اور احادیث شریف میں مختلف احکامِ عبادات وارد ہوئے ہیں۔اس میں جو شخص جس عبادت کوکثرت سے کرے گا کامیاب ہو گا۔ مگر کامیابی کامیابی میں بھی فرق ہے ۔ایک کامیابی یہ ہے کہ دوزخ سے رستگاری اور بہشت کا حصول ۔دوسری کامیابی یہ ہے کہ ہمیشہ دیدارِ محبوب سے مسرور اور بہرہ اندوزِ رہنا کہ محبوب اِس کا اور وہ محبوب کا ہو جائے ۔اللہ تعالیٰ ہمیں سمجھنے کی توفیق دے ۔آمین