الوداع اے ماہ رمضان

Subject: عیدالفطر کی دلی مبارکباد

الوداع اے ماہ رمضان
اور
عیدالفطر کی دلی مبارکباد
از

عابدہ رحمانی

اب جبکہ رمضان کے آخری عشرے کے آخر ی ایام ہیں ۔۲۵ ویں شب آن پہنچی ہے اب کیا کہا جا سکتا ہے کہ لیلۃ القدر آج کی رات ہو، اسی عشرے میں گسی رات کو ہو سکتی ہے ۔ احادیث مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے آخری عشرے میں لیلۃ القدر کو تلاش کرو۔

ہم تاریخ کو غور سے دیکھیں تو رمضان ، کا مہینہ عرب معاشرے کے کیلنڈرمیں پہلے سے موجود تھا –اس مہینے کو اللہ تعالٰی نے نزول قرآن اور وحی پاک کے ذریعے برکت عطا کی شب قدر کو قرآن پاک کا نزول ہوا “انا انزلنٰہ فی لیلۃالقدر ” اور ہم نے اس قرآن کو لیلۃ القدر میں اتارااور محمدﷺ پر پہلی وحی اتاری گئ اقراء باسم ربک الذی خلق–پڑھو اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا –اس لحاظ سے یہ جشن نزول قرآن کا مہینہ ہے- یہ وہ مبارک رات ہے جسکی فضیلت ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے اللہ تبارک و تعالٰی نے امت مسلمہ کی اس رات کی عبادات کو ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر اجر و ثواب سے نواز دیا ہے ۔اسی رات کو فرشتے اور جبرئیل امین کارخانہ دنیا کا پورا حساب کتاب گویا پورا بجٹ اور زائچہ تیار کرتے ہیں اور اسی جشن کو مناتے ہوئے دو ہجری میں روزے فرض ہوئے- لیلۃ القدر میں اتارنے کے ایک معنی تفاسیر میں یہ ہیں کہ پورا قرآن پاک لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر اسی رات میں اتارا کیا جو تئیس برس کے عرصے تک بذریعہ وحی رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہو تا رہا۔

۔ ہم تو اللہ کے حضور پوری دلجمعی اور امید کے ساتھ درخواست گزار ہیں کہ ہمارے ان شکستہ اعمال ، کوششوں اور عبادات کا بہترین اجر عطا فرمائے-مغفرت اور نار جہنم سے نجات کا عشرہ ابھی جاری ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب انہوں نے دریافت کیا کہ لیلۃ القدر یا آخری عشرے کی دعا کیا ہے تو آپ نے فرمایا یہ دعا کثرت سے پڑھو “اللھم انک عفو تحب العفو فعفو عنی ” اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے ، معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے ، پس مجھے معاف کردے ”

الفلاح مسجد نے ستایسویں شب کو ختم قرآن کا اہتمام کیا ہے ۔ بیشتر مساجد ۲۹ تراویح میں ختم القرآن کا انعقاد کر رہے ہیں – روزے دار اللہ کی رحمت اور مغفرت کے طلبگار ہیں مساجد ہیں کہ ماشاءاللہ نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ہیں – پورے پورے خاندان کے ساتھ لوگ کشاں کشاں چلے آرہے ہیں – بچوں کے لئے کھیلنے کے کمرے ہیں، بے بی سٹنگ کا انتظام بخوبی موجود ہے – بوڑھے بچے جوان، ایک چہل پہل ، ایک ہما ہمی نماز ختم ہونے کے بعد یوں لگتا ہے ایک میلہ لگا ہوا ہے بھانت بھانت کی بولیاں ، مختلف رنگ اور نسل کے مسلمان ایک رشتہ اخوت میں جڑے ہوۓ ، زیادہ تر ان ممالک کے باسی ہیں جہاں قتل و غارت گری ، فرقہ پرستی،مذہبی سیاسی یا فوجی دہشت گردی انتہائی عروج پر ہے – لیکن اس سکون اور اطمینان میں اپنے دینی فرائض کی انجام دہی کے لئے ان ممالک کا انتخاب بھی کیا خوب انتخاب ہے کہ دیار مغرب کے امن و امان میں خوب دل کھول کر عبادات کریں , ممکنہ نفرت و دہشت گردی کی روک تھام کیلئے اب پولیس کا عملہ بھی پہرہ دیتا ہے۔ پنج وقتہ فرض نماز کی ادائیگی اپنی جگہ ،رمضان کی رونقیں ، افطار ، مغرب عشاء ، تراویح اور پھر قیام الیل، خوش الحان قاریوں کی قراءت کیا روح پرور سماں آیات وعید پر قاریوں کا پھوٹ پھوٹ کر گریہ و زاری کرنا اور وتر کی دعاؤں کا سماں ، آج کی رات تو سحری کا بھی شاندار انتظام تھا- حرمین شریفین کی یاد تازہ ہو جاتی ہے مجھے شافعی اور مالکی طریقے کی وتر بہت پسند ہے کیا رقت آمیز دعائیں ہوتی ہیں بس اللہ کے ہاں قبولیت کی دیر ہے- اور اسی کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ رمضان ٹورنٹو میں منایا جائے – روحانی سکون اور بالیدگی کے لئے اس سے بہترماحول کیا ہو سکتا ہے —
قرآن پاک سے مذید جڑنے اور تعلق بڑھانے کیلئے خواتین کے دورہ قرآن ۔مشہور عالمہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی دورہ قرآن انتہائی بھر پور انداز میں مکمل کرکے رخصت ہوگئی ہیں ۔ اسلامک سرکل آف نارتھ امریکا کی بہنیں جو اکنا سسٹرز کے نام سے معروف ہیں ۔انکے دورہ قرآن مختلف حلقوں میں جا ری ہیں اور پایہ تکمیل کو پہنچنے والےہیں ۔ اے اللہ اس قرآن کو ہمارے دلوں کی بہار ، نور اور سرور بنادےاور اسکے احکام پر عمل کرنیکی تو فیق عطا فرما۔اور اسکو ہمارے حق میں حجت بنا۔
یوں تو کلام پاک پورے سال تواتر سے پڑھا جاتا ہے لیکن دنیا بھر میں ماہ رمضان کے دوران انگنت اور بے شمار تکمیل قرآن ہوتے ہیں ۔ اسلئے کہ قرآن اور صیام لازم و ملزوم ہیں ۔
اسلامی دنیا میں فرقہ بندی اور قتل و غارتگری مختلف صورت سے جاری ہے ، انسانی آبادی اور مسلمانوں کی بھر پور تباہی اور تمام عالم اسلام دم بخود جسکی نہ تو کوئی طاقت ہے اور نہ شنوائی لاکھوں بے گھر ہو ئے ،ہزاروں امن کی تلاش میں تہہ سمندر چلے گئے – یمن کی تباہی و بربادی تو مسلمانوں کا ہی کارنامہ ہے۔ آئے روز قتل و غارت گری کی نئی داستانیں رقم ہو رہی ہیں ۔اس لہو لہان ماہ رمضان میں اپنی دعائیں بے اثر اور اپنی کم مائیگی کا شدت سے احساس ہوتا ہے —

ابھی تو رمضان شروع ہی ہوا تھا اور دیکھتے دیکھتے ۲۵، واں روزہ بھی آن پہنچا – –
ناصر جہاں کا سلام آخر آجکل میرے کانوں میں گونجتا ہے اب اسکا رمضان سے کیا تعلق؟
بس اتنا ہی، جو چل بسے تو یہ اپنا سلام آخر ہے
سلام آخر کو رمضان آخر کہہ سکتے ہیں–
رمضان کا تحفہ اہل ایمان کے لئے عید الفطر کا دن ہے جب وہ اللہ کی بڑائی اور کبریائی بیان کرتے ہوئے اپنی خوشی مناتے ہیں- روزے دار تو روزوں سے بے حال ہو چکے ہوتے ہیں اکثر وہ مسلمان جو روزے نہیں رکھتے عید زیادہ جوش و خروش سے مناتے ہیں اور انکی تیاریاں بھی خوب ہوتی ہیں اب وہ اتنے بھی گئے گزرے مسلمان نہیں ہیں کہ عید بھی جی بھر کر نہ منائیں- اتنی مسلمانی پر بھی اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے-

“ارے بھئی آپ تو عید کا چاند ہوگئے نظر ہی نہیں آتے”
اردو بولنے والے از راہ گرمجوشی اپنے ملنے والوں میں یہ جملہ یا محاورہ جا بجا بولتے ہیں- جب کہ ہم مسلمان ابھی رمضان کے اختتام پر عید کا چاند ڈھونڈھنے کی کوشش کرینگے-آختتام سے مراد ہے 29 کی شب کیونکہ 30 کو تو چاند کو بہر حال نکلنا ہی ہوتا ہے-ہم شمالی امریکہ میں کیلنڈر یا فقہ کونسل کی پیروی کرنے والے مساجد کے ساتھ ہیں جنہوں ۲۹ روزوں کے بعد ۴ جون کو عید کا اعلان کیا ہے اور ہمیں اس جھنجھٹ سے بے نیاز کر دیا ہے۔

ہلال عید یا عید کا چاند آدھی نہیں تو کم ازکم ایک تہائی اردو شاعری کا احاطہ کئے ہوے ہے۔اس چاند کو ڈھونڈھنے اور پانے کیلئے کیا کیا رومانی اور جذباتی اشعار کہے گئے ہیں کہ انمیں سے ایک بھی ابھی میرے ذہن میں نہیں آرہا ہے شائد گوگل کرنا پڑیگا – پھر اس چاند اور محبوب کے حسن جمال کا موازنہ ، جذ با تیت تو بر صغیر میں کھوٹ کھوٹ کر بھری ہوئی ہے -پھر اس پر مستزاد اردو محاورے جنمیں عید کا چاند جا بجا استعمال ہوتا ہے-چاند اور عید کے چاند کو حسن و جمال کے استعاروں میں وصال و فراق کے محاؤروں میں خوب خوب چاشنی ملاکر بیان کی گیا ہے- ہماری ایک مغنیہ کیا لہک لہک کر یہ گیت گاتیں
انوکھا لاڈلا ، کھلن کو مانگے چاند
رمضان کی 29 کو جتنی ڈھونڈیا اس چاند کی ہوتی ہے کہ چاند کو خود بھی اس اہمیت کا اندازہ نہیں ہوگا-یا شائد ہے جب ہی تو وہ جھلک نہٰیں دکھلاتا یا ہلکی سی جھلک دکھلا کر غائب ہوجاتا ہے- عرب دنیا میں نہ معلوم چاند اور عید کے چاند کے ساتھ کیا رومانیت منسلک ہے وہ عربی میں اپنی تہی دامنی کے سبب میں نہیں جانتی لیکن یقینا وہاں کے مؤمنین بھی چاہتے ہونگے کہ 29 پر چاند ہو جائے اور وہ ایک اور روزے سے بچ جایئں -آجکل تو وہاں پر شدید ترین گرم موسم ہے -ہاں البتہ انپر ایر کنڈیشننگ کے لحاظ سے اللہ کا احسان ہے-امریکہ کے روشن خیال مسلمانوں کو کیلنڈر بنانے کا خیال آیا اور اسکے حساب سے چاند کی تاریخیں طے کیں اس حساب سے ہم کیلنڈر والوں کو امسال ۲۹ روزے رکھنے ہیں اور ہماری زندگی سے چاند کا انتظار غائب ہوگیا — لیکن یہیں پر دیگر کافی تعداد میں بھائی بندے یعنی مساجد اس پر متفق نہ ہو سکے ، انہوں نے چاند دیکھنے اور ڈھونڈنے کو ہی صحیح جانآ- اسوہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں چاند کو کھلی آنکھ سے دیکھنا افضل ہے ، لیکن ان ممالک میں یہ تفرقہ حد درجہ افسوسناک اور باعث شرمندگی ہو جاتاہے ۔۔
شمالی امریکہ میں اگر مسلمان ایک ہی دن عید منا لیں تو ہمارا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے ورنہ وضاحتوں پر وضاحتیں اور شرمندگی الگ – ایک ہی ملک ایک ہی محلے میں بسا اوقات تین مختلف دن عید منائی جاتی ہے اب ٹرمپ کو مسلمانوں کو لتاڑنے کا اور موقع مل جائے گا اور جسٹن ٹروڈیو بھی مخمصے میں کہ عید کی مبارکباد کس روز دی جائے- اسکول والے الگ پریشان اور انکا ایک ہی سوال ” تم لوگ اپنا تہوار ایک دن ساتھ کیوں نہیں مناتے؟ ہم نے تو یہ طریقہ اپنایا ہے کہ عید کے روز روزہ رکھنا حرام ہے اور عید کے روز شیطان کا روزہ ہے اسلئے جو پہلے عید مناتا ہے اسکے ساتھ ہم بھی مناتے ہیں
پاکستان میں روئیت ہلال کمیٹی بنی ہوئی ہے جنکا اہم کام عید اور رمضان کے چاند کو نکالنا ہوتا ہے، اسکے سرپرست اعلے اسوقت اور پچھلے کئی برس سے مفتی منیب الرحمان ہیں انکی اور پشاور کے مولانا پوپلزئ کی ہر سال ہی ٹھنی رہتی ہے ۔ حد درجہ افسوس کا مقام ہے جو چاند پشاور میں نظر آجاتا ہے وہ اسلام آباد میں کیوں نہیں دکھتا۔
-لمبی چوڑی تقریریں اور تکلفات ہوتے ہیں چاند کو ڈھونڈھنا ایک اہم ترین فریضہ ہوتا ہے – پوری قوم دم بخود ہوتی ہے کہ اب چاند نکلا کہ نکلا اکثر اوقات ایسا ہوا کہ چاند کی خبر رات کو با رہ بجنے کے بعد آئی اور اکثر نے اگلے روزے کی سحری بھی کرلی اور معلوم ہوا کہ عید ہوگئی-ہمارے خیبر پختونخواہ والے عید کو پشتو میں” اختر” کہتے ہیں – عیدالفطر چھوٹی عید کہلاتی ہے جبکہ عیدالاضحی بڑی عید – اور وہ کبھی بھی بقیہ پاکستان سے عید اور رمضان پر متفق نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ ایک روز پہلے مناتے ہیں –
بھارت،بنگلہ دیش ، ملایشیا انڈونیشیا اور دیگر ممالک کے مسلمان بھی اپنےحساب سے عید کا اہتمام کرتے ہیں –
عرب ممالک میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے چاند کی ڈھونڈیا ہوتی ہے- یوروپ، آسٹریلیا، کینیڈا، دیگر ممالک اور امریکہ والےیا تو اپنے طور پر چاند کو ڈھونڈتے ہیں کچھ اپنے موروثی ممالک کی پیروی بھی کر ڈالتے ہیں کہ عید انکے ساتھ منائی جاۓ-

پاکستان میں چاند رات کو بڑے شہروں اور کراچی میں جو چہل پہل ہوتی ہے اور چاند رات کا بازاروں میں جو رت جگا ہوتا ہے وہ منچلوں اور نوجوانوں کے لئے ایک حد درجہ لطف اور سرگرمی کا باعث ہوتا ہے- لڑکیاں بالیاں ساری رات مہندی اور چوڑیوں کے چکر میں کاٹ دیتی ہیں چوڑیوں والے منہ مانگے دام لیتے ہیں -کتنے سٹال بن جاتے ہیں کالج یونیورسٹی کے لڑکے باجیوں کو چوڑیاں پہنانے کے لئے ایک سے ایک بازی لے جانے کی کوشش کرتے ہیں اورکتنی با پردہ اور با حیا خواتین بھی چوڑیاں بچانے کی چکر میں ہاتھ بڑھا لیتی ہیں ارے ڈاکٹر، درزی اور چوڑی والے سے کیسا تکلف؟ کیا چناکے ہوتے ہیں جب تنگ سے تنگ چوڑیا ں پہنائی جائیں–لیکن اس طرح سے ٹوٹنے والی ساری کی ساری چوڑی والے کی ہوتی ہیں– یہ ریت ابھی تک قائم ہے ؟- اس سے پہلے تو خواتین دعائیں مانگتی تھیں کہ آج چاند نہ ہو اور انکو عید کی تیاری کرنے کا ایک اور روز مل جاۓ- آخری وقت کی خریداریاں ، پکوان کی تیاریاں ، کئی اقسام کی سویئاں، ہوائیاں کٹ رہیں ، مصالحے پس رہے ہیں،ساری ساری رات خواتین کی اگلے دن کی تیاریوں میں گزر جاتی ہے -اس سے پہلے جب گھروں میں سلیقہ شعار خواتین سلائیاں کرتی تھیں تو گوٹے لچکےٹانکنا ،تر پائیاں کرنا اور پھر تمام ملبوسات کا اہتمام کہ تینوں دنوں میں کیا کیا پہننا ہے کہیں کوئی کمی نہ رہ جائے- موجودہ دور میں بوتیک اور درزیوں نے عید کے اہتمام کو لوٹ لیا ہے -رمضان کے پہلے ہی سے درزیوں کے مزاج بگڑنے شروع ہوتے ہیں اور پہر یہ لوڈ شیڈنگ کا عارضہ یا بہانہ- اب چاند رات میں بوتیک اپنی قیمتیں کم از کم دگنی کر دیتے ہیں-اسکے ساتھ پارلروں کا راج ہوتا ہے مردانہ اور زنانہ دونوں-مہندی کا کام تو تمام دنیا میں کون کی ایجاد سے کافی آسان ہوگیا ہے اس کون کے ایجاد کرنیوالے کو ایک مہندی ایوارڈ براۓ تجدیدئیت ضرور دینا چاہئے تھا- اگلے روز عید کی نماز کے لئے گھر کے مرد ہی جاتے تھے اسوقت تک خواتین کی باقی تیاریاں ہوچکتی تھیں-
ہم لوگوں کے ہاں عید کا کیا اہتمام ہوتا تھا اکثر گھروں میں رنگ روغن تک ہو جاتا تھا – گملے تک رنگ دئے جاتے ہر چیز اجلی اور جاذب نظر ہو -پھر عیدیوں کا سلسلہ اگلے روز صبح سے ہی شروع ہوتا تھا جسنے رات کو سب سے زیادہ پریشان کیاتھا ڈھول پیٹنے والا وہ سب سے پہلے ، پھر گلی کا خاکروب جو عیدیں پر ہی نظر اتا تھا ‘چوکیدار، مالی، ڈاکیہ جو سارے مہینے کی ڈاک جمع کرکے صرف عید کے دن لاکر دیتا ایک سے ایک عید کارڈ، بھیجنے والوں کی محبت کی گواہ ہوتے- ہم نے بھی درجنوں عید کارڈ بھیج دئے ہوتے تھے ان عید کارڈ کی خریداری بھی ایک دلچسپ اور بڑا مشن ہوتا تھا کہ ہر مرتبہ کچھ انوکھا پن ہو جو آپکی ذوق سلیم کا آئینہ دار ہو، پوری فہرست بنتی تھی کہیں کوئی عزیز، یار دوست رہ نہ جائے، ان کارڈز کو سپرد ڈاک کرنیکا مسئلہ ، ڈاکخانے والے بھی ایک حتمی تاریخ دے دیتے تھے- ہماری زندگیوں سے بہت سے حسین لمحےاور تکلفات خود بخود غائب ہوتے جارہے ہیں-اب انٹرنیٹ اور ای کارڈز نے اس تکلف سے بے نیاز کر دیا ہے — پھر اللہ فیس بک اور واٹس ایپ کو سلامت رکھے اسنے مزید کام آسان کردیا ہے
ہینگ لگے نہ پھٹکڑی اور رنگ بھی چوکا آئے ۔۔
ایک تانتا سا بندھ جاتا ملازمین، اپنے بچوں ، عزیز رشتہ داروں کی عیدی کا سلسلہ الگ جاری رہتا – بچے اپنی عیدی گن گن کر خوش ہوۓ جاتے تھے-
میں اس نوسٹالجیا سے نکنا چاہتی ہوں یاد ماضی عذاب ہے یا رب – یہ وقت خوش ہونے کا ہے-
اب جن ممالک میں ہوں اگر تو عید ویک اینڈ پر ہے تو کیا کہنے ورنہ خصوصا چھٹی کا انتظام کرنا پڑتا ہے اسکولوں سے بچؤں کی اکثر چھٹی کرا دی جاتی ہے-لوگوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اسطرح نئی نسل کو اپنے دین اور روایات سے جوڑا جاۓ- اسکے لئے عید کے اہتمام پر کافی توجہ دی جاتی ہے- بہت سے بچوں کو یہ شعور دلاتے ہیں کہ ہم کرسمس نہیں بلکہ عید مناتے ہیں اسلئے بچوں کو عید کے تحائف دئے جاتے ہیں بلکہ خاندان کے تمام لوگ ایک دوسرے کو تحائف دیتۓ ہیں، گھروں کو کرسمس کی بتیوں سے سجا دیتے ہیں اندرونی خانہ بھی غباروں اور جھنڈیوںسے آرائش کر دی جاتی ہے ٹورنٹو مین کافی سارے مقامی سٹورزنے عید مبارک اور رمضان سیل لگائی ہوئی ہے اسی کوٹارگٹ مارکیٹنگ کہتے ہیں- ہم بھی خوش وہ بھی خوش -مسیساگا میں یوں بھی محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان کے قریب پہنچ گئے ہیں- مساجد میں مستحقین کو عید کے تحائف دۓ جارہے ہیں اسکے لئے پہلے ہی سے فطرہ دینے کی اپیل کی جاتی ہے- فوڈبنک میں کافی خشک خوراک جمع ہوچکی ہے ، بچوں کے لئے کھلونے بھی جمع ہیں – ہم نے ان ممالک سے بہت سے اچھے طور طریقے بھی سیکھ لئے ہیں- عید کی نماز کے لئے علی الصبح تیاری اور روانگی ہوتی ہے – اکثر مساجد دوبلکہ تین نمازیں ادا کرتے ہیں اسلامک سنٹر آف کینیڈا میں تین نمازیں ہونگی- اسمیں جو چہل پہل ہوتی ہے ، سبحان اللہ
ان مساجد نے مسلمانوں کو جتنا متحرک کیا ہوا ہے کہ اللہ نظر بد سے بچاۓ -ذرا دیر قبل نصف شب کا قیام ، سحر اور فجر کر کے آرہے ہیں-ماشاءاللہ!
عید کی تیاریاں یہاں بھی پورےزور شور سے ہوتی ہیں اب تو آن لائن پاکستان کے بوتیک سے آرڈر پر کپڑے منگوائے جاسکتے ہیں ،یہاں پر ہر دوسری تیسری خاتون کا یہی بزنس ہے اور دیگر لوازمات بھی مل رہے ہوتے ہیں- اسکے علاوہ عید میلے بھی لگ جاتے ہیں جن میں خوب رونق ہوتی ہے-
اکثر لوگوں کے ہاں چاند رات کا خوب اہتمام ہوتا ہے بڑی بڑی پارٹیاں ہو جاتی ہیں زیادہ تر خواتین اور لڑکیاں اسمیں مدعو ہوتی ہیں مہندیاں سج رہی ہیں ، چوڑیاں پہنی جا رہٰی ہیں، ڈھولک کی تاپ، گیت گائے جا رہے ہیں کبھی گیت لگا کر کچھ پھیرے بھی لگا لئے جاتے ہیں آخر کو خوش ہونے کا بھی حق ہے اور جائزبھی ہے- یہاں عام طور پر عید میں لوگ اوپن ہاؤس کا اعلان کرکے احباب کو مدعو کرتے ہیں – یہ سلسلہ کافی دلچسپ ہوتا ہے کافی دوست احباب سے ملاقات ہو جاتی ہے لیکن صاحب خانہ کو کافی اہتمام کرنا پڑتاہے- اسکے لئے اوقات کا تعئین کردیا جاتا ہے- مساجد کی سطح پر بھی چاند رات اور عیدملن کی پارٹیاں ہوجاتی ہیں اور یہ پارٹیاں روزے داروں کے لئے جہاں ایک انعام ہوتی ہیں وہاں ان سے روزے نہ رکھنے والے بھی لظف اندوز ہوتے ہیں- اور کیوں نہ ہوں بقول کسے’ ہم کم ازکم عید تو مناتے ہیں’-

اللہ تبارک و تعالیٰ اپکو شب قدر کی فضیلتوں ، سعادتوں اور برکات سے فیض یاب کرے
ہماری تمام عبادات اور محنت کو اپنی بارگاہ میں قبول کرے ہماری خطاؤں کو بخش دے

آپ سب کو عیدالفطر کی دلی مبارکباد ، اللہ کرے یہ آپ کیلئے اور اپکے تمام اہل خانہ کے لئے مسرتوں اور رحمتوں کا پیامبر ہو
عید مبارک
اللھم تقبل منا و تقبل منکم کل عام و انتم بخیر

عابدہ

اپنا تبصرہ لکھیں