امتیازی سلوک کی شکار خواتین رابطہ کریں

شازیہ عندلیب
امتیازی سلوک ہر معاشرے میں پایا جاتا ہے۔لیکن یہ مختلف معاشروں میں کم یا زیادہ ہو سکتا ہے پسماندہ ممالک، کم پڑہے لکھے اور غربت کی لائن سے نیچے زندگی گزارنے والے طبقات ان رویوں کا ذیادہ شکار ہوتے ہیں۔امتیازی سلوک کیا ہے؟
اور اسکے کیا نتائج ظاہر ہوتے ہیں؟
آسان الفاظ میں امتیازی سلوک معاشرے یا خاندان میں طاقت اور اختیار رکھنے والے افراد کا مالی اور سماجی طور پر کم تر گروہوں یا افراد کے ساتھ وہ رویہ اور سلوک ہے جو براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثرہ گروپ یا فرد کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ اس کی شخصی ترقی اور مالی ترقی میں روکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔امتیازی سلوک کہلاتا ہے۔
نہ صرف یہ بلکہ امتیازی سلوک کا شکار فرد یا معاشرہ جس زہنی ازیت سے گزرتا ہے اسکے نتیجے میں کئی نفسیاتی عوارض بھی سامنے آتے ہیں جیسے ڈپریشن، فوبیا، خوف،احساس کمتری اور اپنے بارے میں منفی تصور وغیرہ۔ان عوارض کے نتیجے میں یا تو ایسا شخص بہت کم بولتا ہے یہاں تک کہ اپنے حق کے لیے بھی نہیں۔۔۔ یا پھر ہر وقت غصہ میں بھرا رہتا ہے اور اپنے آس پاس کے کمزور افراد یا گھر والوں پرمثلاً بیوی اور بچوں پر غصہ میں چیخنے چلانے لگتا ہے۔بعض اوقات یہ غصیلے فرد گھر آئے مہمانوں کو بھی نہیں بخشتے۔ جس کے نتیجے میں لوگ ان سے دور بھاگنے لگتے ہیں اور یہ سماجی طور پر تنہا رہ جاتے ہیں۔ ایسے افراد کو یقیناً نفسیاتی معالج کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس سے بھی ذیادہ ضروری ان وجوہات کا باعث بننے والے عوامل کو دور کرنا اور انکے ذمہ دار افراد اور گروہوں کا علاج روری ہے۔ جو کہ طاقت کے نشے میں چور دوسروں کا چین چرانے میں مصروف ہوتے ہیں انکا صرف علاج ہی نہیں بلکہ آپریشن اور وہ بھی بڑا آپریشن کرنے کی ضرورت ہے۔
غصیلے افراد اور انکا جارحانہ رویہ ہمارے معاشرے کا بڑا المیہ ہے۔اسکی وجوہات اور اثرات کے لیے ایک وقت طلب تحقیق کی ضرورت ہے۔لیکن ایک بات تو طے ہے کہ اگر ہم اپنے معاشرے کے افراد میں غصہ پر قابو پا لیں تو ہمارے ملک میں نہ صرف جرائم کم ہو جائیں گے بلکہ ہماری جیلیں خالی ہو جائیں گی اور پولیس کا محکمہ بیکار یا پھر بے روزگار ہو جائے گا۔ اسلیے پولیس
کا محکمہ تو ہر گز یہ نہیں چاہے گا کہ اس معاملے پر تحقیق کی جائے ورنہ یہ ٹھنڈے ٹھار لوگ جب ہر بات سوچ سمجھ کر رکیں گے تو جرم کون کرے گا؟؟
ایک بڑا سا سوالیہ نشان۔۔۔
یہ آپریشن اجتماعی اور انفرادی دونوں سطحوں پر کیا جا سکتا ہے۔ایک ایسا آپریشن جس میں بیماری کی جڑ کو کاٹ کر پھینک دیا جائے۔یہ آپریشن کیسے کیا جائے؟ اسے کون سا ڈاکٹرکرے گا؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کیاہمارے معاشرے میں ایسا آپریشن ممکن بھی ہے؟
آخری سوال کا جواب یہ ے کہ ایسا آپریشن کم از کم ہمارے پاکستانی معاشرے میں اور پاکستانی افراد کے لیے تو فیالحال ممکن نہیں۔ابھی تک ہمارے معاشرے میں ایسا کوئی مائی کا لال پیدا نہیں ہوا جو کہ اس قسم کا رسک لے سکے۔کیونکہ یہاں مائی دی جھگی سے لے کر کاواں والی سرکار تک ہر طرف مافیا ہی مافیا ہے۔لہٰذا جو اپنی خیریت چاہتا ہے وہ اس بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ نہ ہی ڈالے تو اچھا ہے بلکہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کے اچھے وقت کا انتظار کرے۔عمران خان کا حال تو آپ سب نے ملاحظہ کر ہی لیا ہو گا۔اسے کس کس جال میں نہیں پھنسایا جا رہا۔اس لیے سب چپ کر کے بیٹھیں کوئی نہ بولے ورنہ سب بولنے والوں کا بھی ایسا ہی حال ہو گا۔
اسے طبقاتی فرق کہا جاتا ہے جبکہ ایک اہم امتیازی رویہ صنفی بنیادوں پر بھی کیا جاتا ہے۔یہ کسی بھی کلاس میں ہو سکتا ہے تاہم مڈل کلاس، کم تعلیم یافتہ طبقہ اور غریب گھرانوں کی خواتین اور تیسری جنس کے افراد ان رویوں کا ذیادہ شکار ہوتے ہیں۔اس طرح کا سلوک جہاں معاشرے میں طبقاتی ناہمواری کا باعث بنتا ہے وہیں یہ اسکا شکار ہونے والے افراد یا خواتین میں باغیانہ جزبات کو ابھارتے ہیں جو بعض اوقات ایک نہ ختم ہونے والی داستانوں کا سلسلہ بن جاتے ہیں۔پھر ان ہی داستانوں کے مرکزی کردار تاریخ کے اہم کردار بن جاتے ہیں۔لیکن یہ سلسلہ کبھی تھمتا نہیں کسی نہ کسی شکل میں جاری رہتا ہے۔ایسے رویہ بعض اوقات ڈاکوؤں، قاتلوں اور باغیوں کو جنم دیتے ہیں۔جیسے سلطانہ ڈاکو پھولن دیوی اور دیگر ان سے ملتے جلتے عزیزو اقارب اور دیگرکرداروں کی ایک طویل نہ ختم ہونے والی فہرست ہے۔مغربی ممالک میں امریکہ برطانیہ اور جرمنی میں سب سے ذیادہ امتیازی سلوک اور نسلی منافرت پائی جاتی ہے۔ اسکینڈینیوین ممالک میں نسلی منافرت اور امتیازی سلوک نسبتاً کم پایا جاتا ہے۔اسکی بڑی وجہ انکے ہاں رائج
جمہوری نظام اور فلاح و بہبود کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ہے۔جنہیں ہماری قومیں تقریباً فراموش ہی کر چکی ہیں۔ اور درحقیقت ان اقوام کی ترقی کا راز بھی ان ہی کاموں میں چھپا ہے۔ نارویجن حکومت بھی مقامی معاشرے میں نسلی منافرت اور امتیازی سلوک کے اثرا ت کو کم کرنے کے لیے مختلف قوانین رائج کرتی رہتی ہے۔ ان قوانین کا تعارف اور اطلاق اسکولوں سے ہی کروا دیا جاتا ہے۔یہاں خواتین کو مردوں کے ساتھ برابری کے حقوق حاصل ہیں۔ تارکین وطن کو مقامی لوگوں جیسے حقوق حاصل ہیں۔بلکہ یہاں تو جانوروں کے بھی حقوق ہیں اور یہ قوانین صرف کاغذی کاروائی نہیں ہمارے وطن کی طرح بلکہ ان پر عمل درآمد بھی کیا جاتا ہے۔والدین کو بچوں پر تشدد کرنے کی اجازت نہیں پھر بھی دوسرے ممالک اور بالخصوص پاکستانی والدین بچوں کی پٹائی کو فرض سمجھتے ہیں۔ایسے والدین کے بچوں کو ادارہء تحفظ اطفال اپنی تحویل میں لے لیتا ہے۔ جانوروں کی حفاظت کے قوانین پر عمل نہ کرنے کی صورت میں سزائیں دی جاتی ہیں پچھلے برس ایک شخص نے اپنی بلی کو تشدد کر کے مار ڈالا اس شخص کو قیدو جرمانہ کی سزا دی گئی۔
ناروے میں مختلف ادارے اور ان سے منسلک افراد مقامی معاشرے میں امتیازی سلوک کی روک تھام اور اس سے تحفظ کے لیے ہر وقت تحقیقی کاموں میں مصروف رہتے ہیں۔یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اس موضوع پر تحقیقی مقالے اور تھیسس لکھے جاتے ہیں پھر ان کی بنیاد پر بل بنائے اتے ہیں اور حکومتیں انہیں پاس کرتی ہیں۔
ایک خصوصی اعلان

ناروے کے شہر اوس کی یونیورسٹی میں بھی اس موضوع پر ایک تحقیقی مقالہ لکھا جا رہا ہے۔ اس کام کے لیے مختلف خواتین جو کہ پیشہ ورانہ زندگی یا گھریلو زندگی میں کسی قسم کے امتیازی سلوک کا شکار ہو چکی ہیں۔ ان سے انٹر ویو لیا جائے گا جس میں انکا نام درج نہیں کیا جائے گا۔اسکا مقصد پاکستانی خواتین میں اس مسلہء کی شدت کو کم کرنا ہے جو خواتین خود امتایازی سلوک کا شکار ہو چکی ہیں یا کسی ایسی خاتون یا لڑکی کو جانتی ہیں جو کہ امتیازی سلوک کا شکار ہو چکی ہے۔وہ انٹر کلچرل وومن گروپ سے اس ای میل یا فون نمبر پہ رابطہ کریں۔اس تحقیقی مقالہ کو لکھنے میں انٹر کلچرل وومن گروپ کی تنظیم معاونت کر رہی ہے۔

andleebany@gmail.com
mobile

90871926ile

اپنا تبصرہ لکھیں