امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ یروشلم میں امریکی سفارتخانہ منتقل ہونے سے کوئی مسائل پیدا نہیں ہوئے ۔ گولن ہائٹس کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرنا بہت ضروری ہے ، امریکہ کے تمام صدور اس بارے میں مہم چلاتے رہے ہیں لیکن کسی نے بھی یہ قدم نہیں اٹھایا ، میں وہ صدر ہوں جس نے یہ فیصلہ کیا ہے۔
امریکی ٹی وی چینل فوکس نیوز کو انٹرویو کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ گولن ہائٹس کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلینے کے بارے میں کافی عرصے سے سوچ بچار کر رہے تھے، یہ بہت ہی مشکل فیصلہ تھا جس کے باعث امریکہ کے سابق صدور میں سے کسی نے یہ رسک نہیں لیا۔یہ یروشلم میں امریکی سفارتخانہ منتقل کرنے جیسا مشکل فیصلہ تھا، کلنٹن ، بش، اوبامہ چاہتے تھے لیکن وہ یروشلم میں سفارتخانہ منتقل نہیں کرسکے لیکن ہم نے یہ کام کیا اور بہت زیادہ پیسے خرچ کرکے اس کی تعمیر کی۔
امریکی صدر نے کہا کہ گولن ہائٹس بھی ایسی ہی چیز ہے جس کے بارے میں ہمارے صدور مہم چلاتے رہے اور کہتے رہے کہ یہ خطے کے امن اور اسرائیل کی سکیورٹی کیلئے ضروری ہے لیکن کسی نے بھی قدم نہیں بڑھایا، ہر صدر نے کہا کہ وہ گولن ہائٹس کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرے گا لیکن میں وہ صدر ہوں جس نے یہ کام کیا ہے۔
جمعرات کو ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے ا یک ٹویٹ میں کہا تھا کہ 52 سال بعد اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ کو گولن ہائٹس کو مکمل طور پر خود مختار اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلینا چاہیے۔ گولن ہائٹس کی اسرائیل کیلئے تزویراتی اوردفاعی اہمیت بہت زیادہ ہے جبکہ انہیں اسرائیل کا حصہ تسلیم کرلینا خطے کے استحکام کیلئے بھی ضروری ہے۔
خیال رہے کہ گولن ہائٹس دریائے یرموک کے کنارے واقع شام کا 1800 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا خطہ ہے جس پر 1967 کی عرب اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے قبضہ کرلیا تھا۔ عالمی سطح پر اس خطے کو شام کا حصہ سمجھا جاتاہے جس پر اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے۔