ن
رضا علی عابدی
مجھے سوچنا اچھا لگتا ہے اور کچھ لگ بھی نہیں سکتا کیونکہ انسان ہر وقت سوچتا رہتا ہے۔ وہ چاہے بھی کہ سوچنا رک جائے، تو دیر تک یہی سوچے گا کہ اس کو کیونکر روکے۔جب تک جاگتا ہے، سوچنے کے عمل پر کچھ اپنا اختیار رہتا ہے۔ جوں ہی آنکھ لگتی ہے، کاسہ سر میں وہ سوچنے والی شے آزاد ہو جاتی ہے، پھر وہ انسان کو جہاں تہاں اڑائے لئے پھرتی ہے اور راہ کے سارے منظر دکھاتی جاتی ہے جسے عام زبان میں خواب کہا کرتے ہیں۔ خواب پر اسے دیکھنے والے کا بس نہیں چلتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ گلی کوچوں میں دیوانہ وار گھوم رہا ہے اور باہر نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا۔ یوں اسے محسوس ہوتا ہے کہ نیند کی حالت میں اپنے ذہن کے آگے وہ کتنا بے بس ہے۔میں بھی سوچتا رہتا ہوں البتہ اس دوران ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب بڑی خوشی ہوتی ہے۔ جب ذہن میں اچانک کوئی ایسا خیال آئے جو عام لوگوں کے تصور میں نہیں آتا تو میں خوشی سے کھل اٹھتا ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں بھرے مجمع میں اوروں سے بلند ہو گیا ہوں۔ انوکھا اور اچھوتا خیال مجھے فضا میں اٹھا دیتا ہے اور میں خود کو شاباشی دیتا ہوں کہ کتنی دور کی کوڑی لایا ہوں ۔
اس کی تازہ مثال سنئے۔ میں جو اخبار، ریڈیو اور ٹیلی وژن کے آگے کافی وقت لگاتا ہوں ، مجھے اچانک خیال آیا کہ وہ کون لوگ ہیں جن کا خبروں میں سب سے زیادہ ذکر ہوتا ہے۔ ہر خبر میں ، ہر واقعے میں ، ہر واردات میں اور درج ہونے والے ہر مقدمے میں جن کا ذکر ضرور ہوتا ہے و ہ کون ہیں؟لیجئے سنئے۔ وہ ہیں نامعلوم افراد۔
مار کر چلے گئے، لوٹ کر چلتے بنے ، آگ لگا کر مجمع میں گم ہوگئے ، بینک میں نہایت اطمینا ن سے داخل ہوئے او رچالیس لاکھ روپے لوٹ کر اتنے ہی اطمینان سے اپنے گھروں کو سدھارے ، اپنی مرضی سے شادی کرنے والوں کو گولیوں سے چھلنی کر گئے، عورت کے چہرے پر تیزاب پھینک گئے یا گلی میں کھیلتے کمسن بچے کو اٹھا کر غائب ہوگئے، کون؟ نامعلوم افراد۔پولیس کے کاغذات میں نامعلوم افراد کے خلاف درج ہونے والے مقدموں کو کوئی شمار کرنے پر آجائے تو اتنی مشقت کی تاب نہ لائے اور وہیں ڈھیر ہو جائے۔ یہی نامعلوم افراد ہمارے وجود پر سب سے بڑا عذاب بن کر نازل ہوئے ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے بھی یہ نابکار نامعلوم ہیں۔ مانا کہ پاکستان کی آبادی اٹھارہ کروڑ ہے، اڑوس پڑوس کی طرح سوا ارب تو نہیں ہے اور ایک اور حیرت انگیز بات ہے، پاکستان دنیا کے ان بہت تھوڑے سے ملکوں میں ہے جہاں قریب قریب ہر شخص کے پاس اس کا اپنا شناختی کارڈ موجود ہے یعنی کہیں کسی بڑی کتاب میں نہ صرف اس کے نام کا اندراج ہے بلکہ اس کی شبیہ اور انگوٹھے کا نشان بھی محفوظ ہے۔ ایسے میں کسی کے نامعلوم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔پھر یہ کیا ہے کہ یہ قاتل ، اٹھائی گیرے اور یہ لٹیرے آزاد گھوم رہے ہیں اور ان کا کوئی نام نہیں ہے۔
ایک رات میرے ایک ساتھی کے گھر میں ڈاکو آئے (سوچتا ہوں، کس ساتھی کے گھر میں نہیں آئے) اور تمام مال اسباب سمیٹ کر یہ سارے ہی نامعلوم افراد بڑی شان سے چلتے بنے۔ میرے ساتھی بااثر تھے، صبح کو پولیس وقوعہ کا معائنے کرنے آئی۔ گھر میں کوئی بولا کہ کسی چیز کو ہاتھ نہ لگانا، پولیس انگلیوں کے نشان کا عکس اتارے گی۔ یہ سن کر پولیس والے خوب ہنسے اور بولے کہ انگلیوں کے نشان تو ہم قتل کی واردات میں بھی نہیں لیتے۔
اس پر یاد آیا، یہاں برطانیہ میں کچھ سفید فام اوباش لڑکوں نے سڑک کے کنارے کھڑے ہوئے ایک سیاہ فام لڑکے کے سینے میں چھرا گھونپ کر اسے مارڈالا تھا۔ ایک دنیا کو معلوم تھا کہ لڑکے قاتل ہیں لیکن ان کے خلاف ثبوت نہیں مل رہا تھا۔ لڑکے شہر میں دندناتے پھرتے تھے۔ پولیس سر جھکائے تفتیش کرتی رہی۔ آخر کار قتل ہونے والے سیاہ فام لڑکے کے کپڑوں میں ایک قاتل کا بال مل گیا۔ اب وہ جیل میں سڑ رہا ہے۔پاکستان میں تو خیر میں اس طرح کی تفتیش کا خواب دیکھوں توکہا جائے گا کہ تمہارا پیٹ خراب ہے (پیٹ کی جگہ یہ الزام دماغ پر بھی رکھا جاسکتا ہے)۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی قانون نافذ کرنے والے ادارے ان نامعلوم افراد کو نہیں جانتے۔ کیا وہ اپنے علاقے کے جرائم پیشہ افراد سے واقف نہیں۔ یہ بھری دوپہروں میں جرم کرنے والے نامعلوم افراد اسی پردے کی اوٹ میں بیٹھے من مانیاں کرتے رہیں گے۔ یہ جو مخبری کے ادارے ہیں خود بھی نامعلوم افراد کی طرح گمنام ہیں، کیا ان کو خبر نہیں کہ کس کا ہاتھ کس کی شہ رگ پر ہے۔ ہمارے ایک دوست کہا کرتے ہیں کہ ایجنسی والوں کو یہ تک معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ریفریجریٹر میں کتنے ٹماٹر رکھے ہیں اور ان میں کتنے گلے ہوئے ہیں۔ وہ اتنے بے سدھ ہیں کہ نامعلوم افراد کی کلائی یوں نہیں موڑ سکتے کہ ایک بار کم سے کم ہڈیاں چٹخنے کی آواز تو آئے۔
ایجنسیوں کے بارے میں بارہا یہ سننے میں آتا رہا ہے کہ وہ تو اعلی حکام کو بروقت خبر کر دیتے ہیں لیکن اعلی حکام اس ادھیڑ بن میں لگے رہتے ہیں کہ یہ اطلاع آگے کس کی طرف اور کیسے بڑھائی جائے۔ ایسے حکام کے سینے پر آویزاں اعلی نامی تمغہ نوچا نہیں جا سکتا کیا؟ جو بات مجھے حیران کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مخبری کے اداروں کی قانون شکن گروہوں تک رسائی کیوں نہیں۔ دیکھئے، جہاں کہیں کوئی ایک تنہا دیوانہ بیٹھ کر کوئی منصوبہ بنائے اور کہیں اکیلا جا کر کچھ کر گزرے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی سازش کو پکڑنا دشوار ہے لیکن جہاں کہیں کوئی گروہ سرگرم عمل ہو، منصوبے بن رہے ہوں، احکام جاری ہو رہے ہوں، وقوعہ کا معائنہ ہو رہاہو جسے دہشت گردوں کی زبان میں ریکی کہتے ہیں اور جہاں ایک سے زیادہ افراد مختلف مقامات پر تعینات کئے جارہے ہیں جنہیں گھڑی دیکھ کر کوئی کارروائی کرنے کا حکم ہو، وہاں سے راز داری میں نقب لگانا بہت آسان ہے۔ یہ بات میں اناڑی بھی بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں۔ مخبری سے وابستہ افراد کو ان گروہوں میں پلانٹ کیا جاتا ہے اور ان کے ایک اشارے پر پوری مشینری حرکت میں آجاتی ہے، لوگ پکڑے جاتے ہیں اور سازشیں ناکام بنائی جاتی ہیں۔ بار بار یہ سننے میں آتا ہے کہ ماسٹر مائنڈ پکڑا گیا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ ماسٹر مائنڈ گرفت میں آجائے تو اس کے مائنڈ کو ایسے کھنگالا جا سکتا ہے کہ ان گنت راز کھل جائیں۔ بڑے بڑے مجرموں کو وعدہ معاف گواہ بننے پر رضا مند کیا جاتا رہا ہے جس کے بعد وہ اندر تک کی تفصیل ظاہر کرتے آئے ہیں۔ تاریخ میں تو ایسا بارہا ہوا ہے، اب ایسا کیا ہوگیا کہ یہ ایسا ہونا بند ہو گیا ہے ۔ لوگوں سے راز اگلوانے کے معاملے میں بعض علاقوں کی پولیس کو بڑی شہرت حاصل تھی۔ اب کون سی قیامت آگئی کہ وہی پولیس سارا ملبہ نامعلوم افراد پر ڈال کر چین سے سوتی ہے اور اس کے موٹے پیٹ پر کسی ہوئی بھینس کے چمڑے کی پیٹی اور تنگ ہوتی جاتی ہے۔ اوپر سے یہ بھی ہوتا ہے کہ ہمارے یہ سیا ہ کوٹ والے حضرات لوگوں کو ضمانت پر چھڑانے یا مقدمے کی تاریخ آگے بڑھوانے میں غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں۔ تعزیراتِ پاکستان میں لوگوں نے ایسے ایسے راستے نکال لئے ہیں کہ بڑے بڑے مجرم پکڑے جانے کے اگلے ہی روز آزادانہ گھوم رہے ہوتے ہیں۔ رہ گئے نا معلوم افراد، وہ تو جرم سے پہلے بھی کھلی فضا کے شہزادے ہوتے ہیں اور جرم کے بعد بھی۔کوئی بتائے کہ کالے پانی کی سزا کیوں نہیں بحال ہو سکتی ۔ان لوگوں کو بعبور دریائے شور جہنم واصل کیوں نہیں کیا جاتا۔ مجرموں کو معاشرے کے منظر سے کیوں نہیں ہٹایا جاتا؟
میرا یہ سوال بھیانک ہے۔ مگر اس کا جواب اس سے بڑھ کر خوفناک ہے۔ہوتا یہ ہے کہ اِدھر نامعلوم افراد کو پکڑا جاتا ہے ، ادھر با اثر افراد کے فون آنے لگتے ہیں کہ انہیں چھوڑ دو، یہ ہمارے بندے ہیں۔ پھر سوچتا ہوں کہ وہ کیسا اچھا زمانہ تھا جب ہم سب خدا کے بندے ہوا کرتے تھے۔ تبھی تو کہتا ہوں، مجھے سوچنا اچھا لگتا ہے۔
مجھے سوچنا اچھا لگتا ہے اور کچھ لگ بھی نہیں سکتا کیونکہ انسان ہر وقت سوچتا رہتا ہے۔ وہ چاہے بھی کہ سوچنا رک جائے، تو دیر تک یہی سوچے گا کہ اس کو کیونکر روکے۔جب تک جاگتا ہے، سوچنے کے عمل پر کچھ اپنا اختیار رہتا ہے۔ جوں ہی آنکھ لگتی ہے، کاسہ سر میں وہ سوچنے والی شے آزاد ہو جاتی ہے، پھر وہ انسان کو جہاں تہاں اڑائے لئے پھرتی ہے اور راہ کے سارے منظر دکھاتی جاتی ہے جسے عام زبان میں خواب کہا کرتے ہیں۔ خواب پر اسے دیکھنے والے کا بس نہیں چلتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ گلی کوچوں میں دیوانہ وار گھوم رہا ہے اور باہر نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا۔ یوں اسے محسوس ہوتا ہے کہ نیند کی حالت میں اپنے ذہن کے آگے وہ کتنا بے بس ہے۔میں بھی سوچتا رہتا ہوں البتہ اس دوران ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب بڑی خوشی ہوتی ہے۔ جب ذہن میں اچانک کوئی ایسا خیال آئے جو عام لوگوں کے تصور میں نہیں آتا تو میں خوشی سے کھل اٹھتا ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں بھرے مجمع میں اوروں سے بلند ہو گیا ہوں۔ انوکھا اور اچھوتا خیال مجھے فضا میں اٹھا دیتا ہے اور میں خود کو شاباشی دیتا ہوں کہ کتنی دور کی کوڑی لایا ہوں ۔
اس کی تازہ مثال سنئے۔ میں جو اخبار، ریڈیو اور ٹیلی وژن کے آگے کافی وقت لگاتا ہوں ، مجھے اچانک خیال آیا کہ وہ کون لوگ ہیں جن کا خبروں میں سب سے زیادہ ذکر ہوتا ہے۔ ہر خبر میں ، ہر واقعے میں ، ہر واردات میں اور درج ہونے والے ہر مقدمے میں جن کا ذکر ضرور ہوتا ہے و ہ کون ہیں؟لیجئے سنئے۔ وہ ہیں نامعلوم افراد۔
مار کر چلے گئے، لوٹ کر چلتے بنے ، آگ لگا کر مجمع میں گم ہوگئے ، بینک میں نہایت اطمینا ن سے داخل ہوئے او رچالیس لاکھ روپے لوٹ کر اتنے ہی اطمینان سے اپنے گھروں کو سدھارے ، اپنی مرضی سے شادی کرنے والوں کو گولیوں سے چھلنی کر گئے، عورت کے چہرے پر تیزاب پھینک گئے یا گلی میں کھیلتے کمسن بچے کو اٹھا کر غائب ہوگئے، کون؟ نامعلوم افراد۔پولیس کے کاغذات میں نامعلوم افراد کے خلاف درج ہونے والے مقدموں کو کوئی شمار کرنے پر آجائے تو اتنی مشقت کی تاب نہ لائے اور وہیں ڈھیر ہو جائے۔ یہی نامعلوم افراد ہمارے وجود پر سب سے بڑا عذاب بن کر نازل ہوئے ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے بھی یہ نابکار نامعلوم ہیں۔ مانا کہ پاکستان کی آبادی اٹھارہ کروڑ ہے، اڑوس پڑوس کی طرح سوا ارب تو نہیں ہے اور ایک اور حیرت انگیز بات ہے، پاکستان دنیا کے ان بہت تھوڑے سے ملکوں میں ہے جہاں قریب قریب ہر شخص کے پاس اس کا اپنا شناختی کارڈ موجود ہے یعنی کہیں کسی بڑی کتاب میں نہ صرف اس کے نام کا اندراج ہے بلکہ اس کی شبیہ اور انگوٹھے کا نشان بھی محفوظ ہے۔ ایسے میں کسی کے نامعلوم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔پھر یہ کیا ہے کہ یہ قاتل ، اٹھائی گیرے اور یہ لٹیرے آزاد گھوم رہے ہیں اور ان کا کوئی نام نہیں ہے۔
ایک رات میرے ایک ساتھی کے گھر میں ڈاکو آئے (سوچتا ہوں، کس ساتھی کے گھر میں نہیں آئے) اور تمام مال اسباب سمیٹ کر یہ سارے ہی نامعلوم افراد بڑی شان سے چلتے بنے۔ میرے ساتھی بااثر تھے، صبح کو پولیس وقوعہ کا معائنے کرنے آئی۔ گھر میں کوئی بولا کہ کسی چیز کو ہاتھ نہ لگانا، پولیس انگلیوں کے نشان کا عکس اتارے گی۔ یہ سن کر پولیس والے خوب ہنسے اور بولے کہ انگلیوں کے نشان تو ہم قتل کی واردات میں بھی نہیں لیتے۔
اس پر یاد آیا، یہاں برطانیہ میں کچھ سفید فام اوباش لڑکوں نے سڑک کے کنارے کھڑے ہوئے ایک سیاہ فام لڑکے کے سینے میں چھرا گھونپ کر اسے مارڈالا تھا۔ ایک دنیا کو معلوم تھا کہ لڑکے قاتل ہیں لیکن ان کے خلاف ثبوت نہیں مل رہا تھا۔ لڑکے شہر میں دندناتے پھرتے تھے۔ پولیس سر جھکائے تفتیش کرتی رہی۔ آخر کار قتل ہونے والے سیاہ فام لڑکے کے کپڑوں میں ایک قاتل کا بال مل گیا۔ اب وہ جیل میں سڑ رہا ہے۔پاکستان میں تو خیر میں اس طرح کی تفتیش کا خواب دیکھوں توکہا جائے گا کہ تمہارا پیٹ خراب ہے (پیٹ کی جگہ یہ الزام دماغ پر بھی رکھا جاسکتا ہے)۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی قانون نافذ کرنے والے ادارے ان نامعلوم افراد کو نہیں جانتے۔ کیا وہ اپنے علاقے کے جرائم پیشہ افراد سے واقف نہیں۔ یہ بھری دوپہروں میں جرم کرنے والے نامعلوم افراد اسی پردے کی اوٹ میں بیٹھے من مانیاں کرتے رہیں گے۔ یہ جو مخبری کے ادارے ہیں خود بھی نامعلوم افراد کی طرح گمنام ہیں، کیا ان کو خبر نہیں کہ کس کا ہاتھ کس کی شہ رگ پر ہے۔ ہمارے ایک دوست کہا کرتے ہیں کہ ایجنسی والوں کو یہ تک معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ریفریجریٹر میں کتنے ٹماٹر رکھے ہیں اور ان میں کتنے گلے ہوئے ہیں۔ وہ اتنے بے سدھ ہیں کہ نامعلوم افراد کی کلائی یوں نہیں موڑ سکتے کہ ایک بار کم سے کم ہڈیاں چٹخنے کی آواز تو آئے۔
ایجنسیوں کے بارے میں بارہا یہ سننے میں آتا رہا ہے کہ وہ تو اعلی حکام کو بروقت خبر کر دیتے ہیں لیکن اعلی حکام اس ادھیڑ بن میں لگے رہتے ہیں کہ یہ اطلاع آگے کس کی طرف اور کیسے بڑھائی جائے۔ ایسے حکام کے سینے پر آویزاں اعلی نامی تمغہ نوچا نہیں جا سکتا کیا؟ جو بات مجھے حیران کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مخبری کے اداروں کی قانون شکن گروہوں تک رسائی کیوں نہیں۔ دیکھئے، جہاں کہیں کوئی ایک تنہا دیوانہ بیٹھ کر کوئی منصوبہ بنائے اور کہیں اکیلا جا کر کچھ کر گزرے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی سازش کو پکڑنا دشوار ہے لیکن جہاں کہیں کوئی گروہ سرگرم عمل ہو، منصوبے بن رہے ہوں، احکام جاری ہو رہے ہوں، وقوعہ کا معائنہ ہو رہاہو جسے دہشت گردوں کی زبان میں ریکی کہتے ہیں اور جہاں ایک سے زیادہ افراد مختلف مقامات پر تعینات کئے جارہے ہیں جنہیں گھڑی دیکھ کر کوئی کارروائی کرنے کا حکم ہو، وہاں سے راز داری میں نقب لگانا بہت آسان ہے۔ یہ بات میں اناڑی بھی بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں۔ مخبری سے وابستہ افراد کو ان گروہوں میں پلانٹ کیا جاتا ہے اور ان کے ایک اشارے پر پوری مشینری حرکت میں آجاتی ہے، لوگ پکڑے جاتے ہیں اور سازشیں ناکام بنائی جاتی ہیں۔ بار بار یہ سننے میں آتا ہے کہ ماسٹر مائنڈ پکڑا گیا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ ماسٹر مائنڈ گرفت میں آجائے تو اس کے مائنڈ کو ایسے کھنگالا جا سکتا ہے کہ ان گنت راز کھل جائیں۔ بڑے بڑے مجرموں کو وعدہ معاف گواہ بننے پر رضا مند کیا جاتا رہا ہے جس کے بعد وہ اندر تک کی تفصیل ظاہر کرتے آئے ہیں۔ تاریخ میں تو ایسا بارہا ہوا ہے، اب ایسا کیا ہوگیا کہ یہ ایسا ہونا بند ہو گیا ہے ۔ لوگوں سے راز اگلوانے کے معاملے میں بعض علاقوں کی پولیس کو بڑی شہرت حاصل تھی۔ اب کون سی قیامت آگئی کہ وہی پولیس سارا ملبہ نامعلوم افراد پر ڈال کر چین سے سوتی ہے اور اس کے موٹے پیٹ پر کسی ہوئی بھینس کے چمڑے کی پیٹی اور تنگ ہوتی جاتی ہے۔ اوپر سے یہ بھی ہوتا ہے کہ ہمارے یہ سیا ہ کوٹ والے حضرات لوگوں کو ضمانت پر چھڑانے یا مقدمے کی تاریخ آگے بڑھوانے میں غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں۔ تعزیراتِ پاکستان میں لوگوں نے ایسے ایسے راستے نکال لئے ہیں کہ بڑے بڑے مجرم پکڑے جانے کے اگلے ہی روز آزادانہ گھوم رہے ہوتے ہیں۔ رہ گئے نا معلوم افراد، وہ تو جرم سے پہلے بھی کھلی فضا کے شہزادے ہوتے ہیں اور جرم کے بعد بھی۔کوئی بتائے کہ کالے پانی کی سزا کیوں نہیں بحال ہو سکتی ۔ان لوگوں کو بعبور دریائے شور جہنم واصل کیوں نہیں کیا جاتا۔ مجرموں کو معاشرے کے منظر سے کیوں نہیں ہٹایا جاتا؟
میرا یہ سوال بھیانک ہے۔ مگر اس کا جواب اس سے بڑھ کر خوفناک ہے۔ہوتا یہ ہے کہ اِدھر نامعلوم افراد کو پکڑا جاتا ہے ، ادھر با اثر افراد کے فون آنے لگتے ہیں کہ انہیں چھوڑ دو، یہ ہمارے بندے ہیں۔ پھر سوچتا ہوں کہ وہ کیسا اچھا زمانہ تھا جب ہم سب خدا کے بندے ہوا کرتے تھے۔ تبھی تو کہتا ہوں، مجھے سوچنا اچھا لگتا ہے۔
مجھے سوچنا اچھا لگتا ہے اور کچھ لگ بھی نہیں سکتا کیونکہ انسان ہر وقت سوچتا رہتا ہے۔ وہ چاہے بھی کہ سوچنا رک جائے، تو دیر تک یہی سوچے گا کہ اس کو کیونکر روکے۔جب تک جاگتا ہے، سوچنے کے عمل پر کچھ اپنا اختیار رہتا ہے۔ جوں ہی آنکھ لگتی ہے، کاسہ سر میں وہ سوچنے والی شے آزاد ہو جاتی ہے، پھر وہ انسان کو جہاں تہاں اڑائے لئے پھرتی ہے اور راہ کے سارے منظر دکھاتی جاتی ہے جسے عام زبان میں خواب کہا کرتے ہیں۔ خواب پر اسے دیکھنے والے کا بس نہیں چلتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ گلی کوچوں میں دیوانہ وار گھوم رہا ہے اور باہر نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا۔ یوں اسے محسوس ہوتا ہے کہ نیند کی حالت میں اپنے ذہن کے آگے وہ کتنا بے بس ہے۔میں بھی سوچتا رہتا ہوں البتہ اس دوران ایک لمحہ ایسا بھی آتا ہے جب بڑی خوشی ہوتی ہے۔ جب ذہن میں اچانک کوئی ایسا خیال آئے جو عام لوگوں کے تصور میں نہیں آتا تو میں خوشی سے کھل اٹھتا ہوں۔ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں بھرے مجمع میں اوروں سے بلند ہو گیا ہوں۔ انوکھا اور اچھوتا خیال مجھے فضا میں اٹھا دیتا ہے اور میں خود کو شاباشی دیتا ہوں کہ کتنی دور کی کوڑی لایا ہوں ۔
اس کی تازہ مثال سنئے۔ میں جو اخبار، ریڈیو اور ٹیلی وژن کے آگے کافی وقت لگاتا ہوں ، مجھے اچانک خیال آیا کہ وہ کون لوگ ہیں جن کا خبروں میں سب سے زیادہ ذکر ہوتا ہے۔ ہر خبر میں ، ہر واقعے میں ، ہر واردات میں اور درج ہونے والے ہر مقدمے میں جن کا ذکر ضرور ہوتا ہے و ہ کون ہیں؟لیجئے سنئے۔ وہ ہیں نامعلوم افراد۔
مار کر چلے گئے، لوٹ کر چلتے بنے ، آگ لگا کر مجمع میں گم ہوگئے ، بینک میں نہایت اطمینا ن سے داخل ہوئے او رچالیس لاکھ روپے لوٹ کر اتنے ہی اطمینان سے اپنے گھروں کو سدھارے ، اپنی مرضی سے شادی کرنے والوں کو گولیوں سے چھلنی کر گئے، عورت کے چہرے پر تیزاب پھینک گئے یا گلی میں کھیلتے کمسن بچے کو اٹھا کر غائب ہوگئے، کون؟ نامعلوم افراد۔پولیس کے کاغذات میں نامعلوم افراد کے خلاف درج ہونے والے مقدموں کو کوئی شمار کرنے پر آجائے تو اتنی مشقت کی تاب نہ لائے اور وہیں ڈھیر ہو جائے۔ یہی نامعلوم افراد ہمارے وجود پر سب سے بڑا عذاب بن کر نازل ہوئے ہیں۔ یقین نہیں آتا کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کیلئے بھی یہ نابکار نامعلوم ہیں۔ مانا کہ پاکستان کی آبادی اٹھارہ کروڑ ہے، اڑوس پڑوس کی طرح سوا ارب تو نہیں ہے اور ایک اور حیرت انگیز بات ہے، پاکستان دنیا کے ان بہت تھوڑے سے ملکوں میں ہے جہاں قریب قریب ہر شخص کے پاس اس کا اپنا شناختی کارڈ موجود ہے یعنی کہیں کسی بڑی کتاب میں نہ صرف اس کے نام کا اندراج ہے بلکہ اس کی شبیہ اور انگوٹھے کا نشان بھی محفوظ ہے۔ ایسے میں کسی کے نامعلوم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔پھر یہ کیا ہے کہ یہ قاتل ، اٹھائی گیرے اور یہ لٹیرے آزاد گھوم رہے ہیں اور ان کا کوئی نام نہیں ہے۔
ایک رات میرے ایک ساتھی کے گھر میں ڈاکو آئے (سوچتا ہوں، کس ساتھی کے گھر میں نہیں آئے) اور تمام مال اسباب سمیٹ کر یہ سارے ہی نامعلوم افراد بڑی شان سے چلتے بنے۔ میرے ساتھی بااثر تھے، صبح کو پولیس وقوعہ کا معائنے کرنے آئی۔ گھر میں کوئی بولا کہ کسی چیز کو ہاتھ نہ لگانا، پولیس انگلیوں کے نشان کا عکس اتارے گی۔ یہ سن کر پولیس والے خوب ہنسے اور بولے کہ انگلیوں کے نشان تو ہم قتل کی واردات میں بھی نہیں لیتے۔
اس پر یاد آیا، یہاں برطانیہ میں کچھ سفید فام اوباش لڑکوں نے سڑک کے کنارے کھڑے ہوئے ایک سیاہ فام لڑکے کے سینے میں چھرا گھونپ کر اسے مارڈالا تھا۔ ایک دنیا کو معلوم تھا کہ لڑکے قاتل ہیں لیکن ان کے خلاف ثبوت نہیں مل رہا تھا۔ لڑکے شہر میں دندناتے پھرتے تھے۔ پولیس سر جھکائے تفتیش کرتی رہی۔ آخر کار قتل ہونے والے سیاہ فام لڑکے کے کپڑوں میں ایک قاتل کا بال مل گیا۔ اب وہ جیل میں سڑ رہا ہے۔پاکستان میں تو خیر میں اس طرح کی تفتیش کا خواب دیکھوں توکہا جائے گا کہ تمہارا پیٹ خراب ہے (پیٹ کی جگہ یہ الزام دماغ پر بھی رکھا جاسکتا ہے)۔لیکن سوال یہ ہے کہ کیا واقعی قانون نافذ کرنے والے ادارے ان نامعلوم افراد کو نہیں جانتے۔ کیا وہ اپنے علاقے کے جرائم پیشہ افراد سے واقف نہیں۔ یہ بھری دوپہروں میں جرم کرنے والے نامعلوم افراد اسی پردے کی اوٹ میں بیٹھے من مانیاں کرتے رہیں گے۔ یہ جو مخبری کے ادارے ہیں خود بھی نامعلوم افراد کی طرح گمنام ہیں، کیا ان کو خبر نہیں کہ کس کا ہاتھ کس کی شہ رگ پر ہے۔ ہمارے ایک دوست کہا کرتے ہیں کہ ایجنسی والوں کو یہ تک معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے ریفریجریٹر میں کتنے ٹماٹر رکھے ہیں اور ان میں کتنے گلے ہوئے ہیں۔ وہ اتنے بے سدھ ہیں کہ نامعلوم افراد کی کلائی یوں نہیں موڑ سکتے کہ ایک بار کم سے کم ہڈیاں چٹخنے کی آواز تو آئے۔
ایجنسیوں کے بارے میں بارہا یہ سننے میں آتا رہا ہے کہ وہ تو اعلی حکام کو بروقت خبر کر دیتے ہیں لیکن اعلی حکام اس ادھیڑ بن میں لگے رہتے ہیں کہ یہ اطلاع آگے کس کی طرف اور کیسے بڑھائی جائے۔ ایسے حکام کے سینے پر آویزاں اعلی نامی تمغہ نوچا نہیں جا سکتا کیا؟ جو بات مجھے حیران کرتی ہے وہ یہ ہے کہ مخبری کے اداروں کی قانون شکن گروہوں تک رسائی کیوں نہیں۔ دیکھئے، جہاں کہیں کوئی ایک تنہا دیوانہ بیٹھ کر کوئی منصوبہ بنائے اور کہیں اکیلا جا کر کچھ کر گزرے تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس کی سازش کو پکڑنا دشوار ہے لیکن جہاں کہیں کوئی گروہ سرگرم عمل ہو، منصوبے بن رہے ہوں، احکام جاری ہو رہے ہوں، وقوعہ کا معائنہ ہو رہاہو جسے دہشت گردوں کی زبان میں ریکی کہتے ہیں اور جہاں ایک سے زیادہ افراد مختلف مقامات پر تعینات کئے جارہے ہیں جنہیں گھڑی دیکھ کر کوئی کارروائی کرنے کا حکم ہو، وہاں سے راز داری میں نقب لگانا بہت آسان ہے۔ یہ بات میں اناڑی بھی بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں۔ مخبری سے وابستہ افراد کو ان گروہوں میں پلانٹ کیا جاتا ہے اور ان کے ایک اشارے پر پوری مشینری حرکت میں آجاتی ہے، لوگ پکڑے جاتے ہیں اور سازشیں ناکام بنائی جاتی ہیں۔ بار بار یہ سننے میں آتا ہے کہ ماسٹر مائنڈ پکڑا گیا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ ماسٹر مائنڈ گرفت میں آجائے تو اس کے مائنڈ کو ایسے کھنگالا جا سکتا ہے کہ ان گنت راز کھل جائیں۔ بڑے بڑے مجرموں کو وعدہ معاف گواہ بننے پر رضا مند کیا جاتا رہا ہے جس کے بعد وہ اندر تک کی تفصیل ظاہر کرتے آئے ہیں۔ تاریخ میں تو ایسا بارہا ہوا ہے، اب ایسا کیا ہوگیا کہ یہ ایسا ہونا بند ہو گیا ہے ۔ لوگوں سے راز اگلوانے کے معاملے میں بعض علاقوں کی پولیس کو بڑی شہرت حاصل تھی۔ اب کون سی قیامت آگئی کہ وہی پولیس سارا ملبہ نامعلوم افراد پر ڈال کر چین سے سوتی ہے اور اس کے موٹے پیٹ پر کسی ہوئی بھینس کے چمڑے کی پیٹی اور تنگ ہوتی جاتی ہے۔ اوپر سے یہ بھی ہوتا ہے کہ ہمارے یہ سیا ہ کوٹ والے حضرات لوگوں کو ضمانت پر چھڑانے یا مقدمے کی تاریخ آگے بڑھوانے میں غیر معمولی مہارت رکھتے ہیں۔ تعزیراتِ پاکستان میں لوگوں نے ایسے ایسے راستے نکال لئے ہیں کہ بڑے بڑے مجرم پکڑے جانے کے اگلے ہی روز آزادانہ گھوم رہے ہوتے ہیں۔ رہ گئے نا معلوم افراد، وہ تو جرم سے پہلے بھی کھلی فضا کے شہزادے ہوتے ہیں اور جرم کے بعد بھی۔کوئی بتائے کہ کالے پانی کی سزا کیوں نہیں بحال ہو سکتی ۔ان لوگوں کو بعبور دریائے شور جہنم واصل کیوں نہیں کیا جاتا۔ مجرموں کو معاشرے کے منظر سے کیوں نہیں ہٹایا جاتا؟
میرا یہ سوال بھیانک ہے۔ مگر اس کا جواب اس سے بڑھ کر خوفناک ہے۔ہوتا یہ ہے کہ اِدھر نامعلوم افراد کو پکڑا جاتا ہے ، ادھر با اثر افراد کے فون آنے لگتے ہیں کہ انہیں چھوڑ دو، یہ ہمارے بندے ہیں۔ پھر سوچتا ہوں کہ وہ کیسا اچھا زمانہ تھا جب ہم سب خدا کے بندے ہوا کرتے تھے۔ تبھی تو کہتا ہوں، مجھے سوچنا اچھا لگتا ہے۔