عارف محمود کسانہ سویڈ
تعارف محمود کسانہ سویڈنکچھ عرصہ پہلے جنگ نے بھارتی روزنامہ ٹائمز آف انڈیاکے ساتھ مل کر امن کی آشا شروع کی تھیتاکہ اس خطہ میں جنگ و جدل کے ماحول کو امن و سکون میں بدلا جا سکے۔کوئی بھی ذی شعور امن و سلامتی کی اہمیت سے انکار نہیں کر ستا۔اور کبھی نہیں چاہے گا کہ جنگ کے مہیب سائے خطہء ارضی کو اپنی لپیٹ میں لے لیں۔لین امن وسلامتی اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتی جب تک انصاف اور فریق ثانی کو برابر کا مقام نہ دیا جائے۔ظلم رہے اور امن بھی ہو یہ نہیں ہو سکتا۔جب تک دوسروں کو اپنا مطیع بنائے رکھنے ،علاقائی چودھراہٹ اور ناانصافی کی پالیسی کو ترک نہ کیا جائے امن کی آشا صرف سوچ کی حد تک رہتی ہے۔قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والی نوجوان نسل کو پتہ ہی نہیں کہ ہندو ہیں کیاکیونکہ ان کے ساتھ انکا پالا جو نہیں پڑا۔ہندوئوں کی ساری تاریخ میں صرف ایک فلاسفر پیدا ہوا جس کا نام ہے چانکیہ اور اسکا لقب ہے کوٹلیہ جس کے معنی ہیں مکار اور فریبکار کے۔خود وضاحت کر رہے ہیں۔مزید تفصیلی وضاحت کی ضرورت نہیں۔چانکیہ نے اصول سیاست میں سنسکرت میں ایک کتاب لکھی ہے۔جس کا انگریزی میں ترجمہ ہو چکا ہے۔اپنی کتابمیں چانکیہ نے جو اصول سیاست دیے ہیں اس کے مطابق ہمسایہ ریاستوں سے دشمن جیسا سلوک روا رکھا جائے۔دوستی خود غرضی پر مبنی ہو۔دل میں ہمیشہ رقابت کی آگ مشتعل رکھی جائے۔اور مکارانہ سیاست کا دامن کبھی ہاتھ سے چھوٹنے نہ پائے۔امن کے قیام کا کیال تک بھی دل میں نہ لایا جائے۔خواہ ساری دنیا تمہیں اس پر مجبور کیو نہ کرے۔بھارتی ریاست جب اپنے روحانی باپ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو گی تو امن کی آشا کیسے سامنے آئے گی۔چانکیہ کے نظریات کو گاندھی جی نے مذہب کا لبادہ اوڑھ کر جاری رکھا تھا۔انہیں سچائی کا مجسمہ اور عدم تشدد کا کا پرستار کہ کر پکارا جاتا ہے۔مگر قائد اعظممحمد علی جناح جن کا دن رات گاندھی سے واسطہ رہتا ہے نے ایک مختصر بیان میں ساری حقیقت بیان کر دی۔کہ مشکل یہ ہے کہ گاندھی جی کا مقصد وہ نہیں ہوتا جو وہ زبان سے کہتے ہیں۔اور جو درحقیقت ان کا مقصد ہوتا ہے وہ کبھی زبان پر نہیں لاتے۔قائد اعظم نے ایک موقع پر گاندھی کے بارے میں کہا کہ وہ گرگٹ کی طرح اپنا رنگ بدلتا رہتا ہے۔اسی پالیسی پر نہرو کاربند تھے کہ جسے ختم کرنا ہو پہلے اس سے دوستی کرو۔گلے مل کر اکی پیٹھ پر چھرا گھونپ دو پھر اور پھر اس پر بین کرو اور رو رو کر اس سے ہمدردی جتائو۔یہ اس مھاورے کی عملی تفسیر ہے جو ہندوئوں کے لیے مشہور ہے کہ ،بغل میں چھری منہ پہ رام رام۔آخر اس کی بہت سنجیدہ وجہ تھی کہ ہندو مسلم اتحاد کے حامی سرسید احمد خان،علامہ اقبال قائد اعظم اور دیگر مسلم اقابرین دو قومی نظریہ کی بنیاد پر الگ وطن کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہو گئے۔سارے جہاں سے اچھا ہمارا ہندوستان کہنے والا اقبال یہ کہنے پر کیوں مجبور ہوا کہ مسلم ہیں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا۔وہ کون سی وجوہات تھیں کہ ہندو مسلم اتھاد کا پیامبر جناح ہندوستان کے بٹوارے پر مصر ہوا اور الگ وطن لے کر دم لیا۔مطالعہ تاریخ سے عیاں ہے کہ وجہ صرف ایک ہندو ذنیت تھی۔اگر ہندو رواداری کا مظاہرہ کرتا اور مسلمانوں کو ان کے جائز حقوق دینے سے گریزاں نہ ہوتا تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہ آتا۔مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنانے کے لیے شدھی اور سنگٹن کی تحریکیںاور ان کے ان اشعار سے ساری صورتحال واضع ہو جاتی ہے۔اٹھا اپنا تو ملا مصلایہ بلٹی عرب کو پہچانی پڑے گیجہاں ہے کعبہ ہو گا شیو جی کا مندراسلام کی ہستی متانی پڑے گیبعض مسلمان بھی گاندھی جی کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے ہیں اور انہیں انساف سچائی اور سیکولر ازم کا علمبردار قرار دیتے ہیں۔مگر حقیقت وہی ہے جو قائد اعظم نے گاندھی کے بارے میں کہی تھی۔انکا سیکولرازم محض ایک دکھاوا تھا۔جب نہرو کی بہن ایک مسلمان کے ساتھ شادی کرنے لگی تو گاندھی نے اسے روک دیا۔پھر جب گاندھی کا اپنا بیٹا ہری لال مسلمان ہوا تو اسکا دہرا معیار کھل کر سامنے آگیا۔پورے خاندان نے اس سے قطع تعلق کر لیا اور اسے پھر سے ہندو بنوا کر گمنامی سے دوچار کیا۔بھارت نے چانکیہ کی پالیسی کو پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رکھا۔ایک طرف اثاثوںمیں سے پانچ کروڑ ہڑپ کر لییاور دوسری جانب کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔جونا گڑھ اور مناور کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے پاکستان کے ساتھ الحاق کے باوجود اس پرغاصبانہ قبضہ کیا۔اور حیدر آباد کی خود مختاری کو اپنی جارحیت اور فوج کشی سے روند ڈالا۔مشرقی پاکستان میں اندرونی خلفشار سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو دولخت کر کے جشن منایا۔سیاچن پر دنیا کی مہنگی ترین جنگ مسلط کر رکھی ہیجس کی وجہ سے ہمارے کئی جوان جام شہادت نوش کرتے ہیں۔پاکستان کے دریائوں سے پانی چرا کر ہمیں بنجر بنانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔پاکستان میں ہونے والی دہشتگردی کے تانے بانے سرحد پار ہی سے ملتے ہیں۔اسی تناظر میں پاکستان میں سری لنکا کی ٹیم پر حملہ کر کے پاکستان کرکٹ ٹیم کو تنہا کر دیا۔پاکستان کو سبق سکھانے اور نشان عبرت بنانے کے منصوبے پر وہ عمل پیرا ہیں۔بلوچستان اور کراچی کے امن کو کون تباہ کر رہا ہے؟ اس حقیقت سے سب آگاہ ہیں۔بھارتی ذہنیت صرف وہاں کی حکومت سیاسی جماعتوں اور رہنمائوں تک ہی محدود نہیں بلکہ عام عوام بھی اس پر کاربند ہیں۔اگرچہ ایک بہت ہی قلیل تعداد امن کی آشاکی حمی ہے مگر بدقسمتی سے اکثریت ایس اکرنے کے بجائے اپنی حکومت کے نقش قدم پر چلتی ہے۔اس کا ندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں سویڈن میں کئی کریانہ اور گراسری کی دوکانوں سے علم ہوا کہ بھارتی عوام اکثر پاکستانی مصنوعات خریدنے سے گریز کرتے ہیں۔اور اکثر پاکستانی اشیاء نہیں خریدتے۔جبکہ پاکستانی انڈین چیزیں خریدنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ یہ انکی ذہنیت کی عکاسی کرتا ہے۔برصغیر میں امن و سکون کے ساتھ وہاں پر بسنے والے عوام کے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔جو خطیر رقم فوجی ہتھیروں پر خرچ ہو رہی ہیاسے تعلیم،صحت ،آمدو رفت سائینسی ترقی اوردیگر شعبوں پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔مگر امن کی آشا اس وقت مل سکتی ہے اگر انصاف برابری اوردوسروں کی اہمیت کو تسلیم کیا جائے۔بھارت بڑا نلک ہونے کے ناطے اس کا آغاز کر سکتا ہے۔اور بھارت نواز حلقوں کو بھی چاہیے کہ یہ بات بھارت کو باور کرائیں۔۔اسکا آغاز اقوام متحدہ کی قرار دادوں کو تسلیم کرنے سے کریں۔اور کشمیر مین آزادانہ استصواب کر کے اسے تسلیم کریں۔