ام المومنین حضرت سیدہ خدیجة اکبریٰ رضی اللہ عنہا
(آپ کا وصال مبارک 10رمضان المبارک کو ہوا۔)
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی ایم اے سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اَلْنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَاَزْوَاجُہ اُمَّھَاتُھُمْ۔یہ نبی مسلمانوں کا اُن کی جان سے زیادہ مالک ہے اوراس کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں۔(ترجمہ کنزالایمان،پارہ نمبر21الاحزاب)دوسری جگہ ارشاد ربانی ہوتا ہے :یَا نِسَآئَ النَّبَیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّن النِّسَآئِ۔”اے نبی کی بیویو تم اور عورتوں کی طرح نہیں۔(ترجمہ کنزالایمان، پارہ نمبر22الاحزاب)
حضرت سیدنا عیسٰی علیہ السلام اور حضرت سیدنا یحییٰ علیہ السلام کے علاوہ تمام انبیاء کرام صاحبانِ ازواج و اولاد ہوئے ہیں ۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت سیدنا دائود علیہ السلام کی ننانوے بلکہ ایک سوازواج مطہرات تھیں ۔حضرت سیدنا سلیمان علیہ السلام کی تین سومنکوحہ ازواج اور ایک ہزار باندیاں تھیں ۔ یہ شرف انبیائے کرام کو حاصل تھا اور تاجدار مدینہ ۖ کی ازواج مطہرات کی تعداد اگرچہ کم تھیں لیکن شرف وفضل میں جو ارفع و اعلیٰ مقام آپ کو حاصل ہے وہ کسی اور نبی کو نہیں ۔(مدارج النبوت793/2)
محمد رسول اللّٰہ ۖ کی ازواج کی تعداد:سرکار مدینہ ۖ کی ازواج کی تعداد میں علمائے کرام کا اختلاف ہے نیز اِس میں بھی اختلاف ہے کہ کن ازواج کا انتقال نبی اکرم ۖ سے پہلے ہوا اور کنِ ازواج کا انتقال آپ کے بعد ہوا کن سے دخول ہوا اور کن سے دخول نہیں ہوا۔اسی طرح ان کے بارے میں بھی اختلاف ہے ۔جن کو پیام نکاح دیا اور نکاح نہ ہوا اور جنہوں نے خود کو سرکار مدینہۖ کی خدمت اقدس میں پیش کیا ۔ان میں سے متفق علیہ گیارہ ازواج مطہرات ہیں ۔چھ قریش میں سے یعنی حضرت خدیجة الکبریٰ ۔حضرت سیدہ عائشہ بنت ابو بکر صدیق ۔حضرت سیدہ ام سلمہ بنت ابی امیہ ،حضرت سیدہ سودہ بنت زمعہ رضی اللہ عنہم۔چار عربیہ غیر قریشیہ ہیں یعنی حضرت سیدہ زینب بنت جحش، حضرت سیدہ میمونہ بنت الحارث ہلالیہ،حضرت سیدہ زینب بنت خزیمہ ہلالیہ ام المساکین، حضرت سیدہ جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہم اور ایک غیر عربیہ بنی اسرائیل سے ہیں وہ حضرت سیدہ صفیہ بنت حی قبیلہ بنو نظیر سے ہیں اور وہ ازواج جو سرکار مدینہ ۖ کے سامنے انتقال کر گئیں وہ دویہ ہیں ایک حضرت سیدہ خدیجة الکبریٰ اور دوسری حضرت سیدہ زینب ام المساکین رضی اللہ عنہما اور سرکار مدینہۖ کے وصال اقدس کے وقت نو ازواج مطہرات بلا اختلاف موجود تھیں۔(مدارج النبوت 796/2)
معزز قارئین:آپ نے ازواج مطہرات کے اسماء گرامی اور اُن کی تعداد کو ملاحظہ فرمایا۔اب ان سعادت مند ازواج النبی میں سے سیدہ طیبہ طاہرہ ام المومنین حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہاکے فضائل و مناقب اور مختصر حالات عرض کرتا ہوں ۔جس سے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عظمت وشان کا پتہ چلے گا ۔
سیدہ خدیجہ رضی اللّٰہ عنہا کا سلسلہ نسب :سب سے پہلے جن سے حضور اکرم ۖ نے نکاح فرمایا وہ سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا اور جب تک وہ حیات رہیں ان کی موجودگی میں حضور اکرم ۖ نے کسی عورت سے نکاح نہ کیا ۔ام المؤمنین سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا نسب نامہ یہ ہے خدیجہ بنت خویلد بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصیٰ بن کلاب بن مرة بن کعب بن لوی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نسب حضور ۖ سے قصیٰ پرمل جاتا ہے اور حضور اکرم ۖ نے قصیٰ کی اولاد سے بجز سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا اورام جیبہ کے کسی کی خواستگاری قبول نہ فرمائی ان کی کنیت ام ہند ہے ان کی والدہ فاطمہ بنت زاہدہ بن الاصم بنو عامر بن لوی سے تھیں ۔ (طبقات ابن سعد)
سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کا نکاح مبارک:سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا نکاح سرکار مدینہ ۖ سے اُ س وقت ہوا جس وقت آپ کی عمر مبارک 40سال تھی جبکہ تاجدار مدینہ ۖ کی عمر مبارک 25سال تھی ۔سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا عاقلہ ،فاضلہ اور فرزانہ عورت تھیں ۔زمانہ جاہلیت میں ان کو طاہرہ کہتے تھے ۔عالی نسب اور بڑی مالدا ر تھیں کی خدمت میں نکاح کے لئے انہوں نے حضور اقدس ۖ اپنے آپ کو خود پیش کیا ۔حضور اکرم ۖ نے اس کا تذکرہ اپنے چچائوں سے کیا۔اس کے بعد حضرت محمد ۖ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ خویلد بن اسعد کے پاس تشریف لائے اور ان کو پیام دیا پھر ولادت کے 25ویںسال جب آپ شام کے سفر سے واپس تشریف لائے حضرت سیدہ سے نکاح فرمالیااور اُم المؤمنین سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا مہر انتیس جوان اونٹ اور ایک روایت میں ہے کہ بارہ اوقیہ سونا تھا۔(مدارج النبوت797/2)
اُم المؤمنین سیدہ خدیجہرضی اللہ عنہا کے فضائل:سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو دین اسلام اور بارگاہ مصطفےٰ ۖ میں بڑی فضیلت حاصل ہے ۔ایسی فضیلت کہ سیدہ فاطمہ خاتون جنت جیسی شہزادی اِن ہی کے بطن سے پیدا ہوئیں اہل تفسیر بیان کرتے ہیں کہ کفار قریش کی تکذیب سے سرکار مدینہ ۖ جو غم واندوہ اور تکالیف اُٹھاتے تھے ۔وہ سب حضرت خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو دیکھتے ہی جاتی رہتیں اور آپ خوش ہو جاتے تھے ۔ جب حضور اکرمۖ سیدہ خدیجہ کے پاس تشریف لاتے تو وہ حضور کی خوب حوصلہ افزائی کرتیں جس سے آپ کی ہر مشکل آسان ہو جاتی ۔
اب میں حضرت سیدہ خدیجہ کی فضیلت و شان احادیث مبارکہ اور مسند روایات سے پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتا ہوں:
اُم المؤمنین سب عورتوں سے بہتر:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ۖ کو یہ فرماتے سُنا ہے کہ (اپنے زمانہ کی)عورتوں میں سب سے افضل مریم بنت عمران ہیں اور تمام عورتوں میں سب سے افضل حضرت خدیجہ بنت خویلد ہیں اور وکیع نے آسمان و زمین کی طرح اشارہ کر کے بتایا۔ (صحیح بخاری )
سیدہ کائنات کو جنت کے گھر کی بشارت:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی پاک ۖ کی خدمت میں حاضر ہوکر جبرائیل نے کہا یا رسول اللہ ۖ یہ خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ کے پاس ایک برتن لے کر آرہی ہے اس میں سالن ہے یا کھانا یا کوئی مشروب جب یہ آپ کے پاس آئیں تو آپ رب کائنات کی طرف سے اور میری طرف سے ان کو سلام کہیں اور ان کو جنت میں ایسے گھر کی بشارت دو جس میں موتی کے محل ہیں اور جس میں کوئی شور وغوغا اور رنج و ملال نہ ہوگا۔(صحیح بخاری )
معزز قارئین ! اِس حدیث مبارکہ میں اُم المؤمنین سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے اس وقت کھانا لانے کا ذکر فرمایا گیا ہے جب آپ غارِ حراء میں تشریف فرماتھے اور سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا آپ کے لئے کھانا لا رہی تھیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو سلام دیا گیا اور ساتھ ہی اپنے محبوب کی زبان حق ترجمان سے آپ کوجنت میں گھر کی بشارت سے بھی سرفراز فرمایا۔
سرکارمدینہ ۖسیدہ خدیجہ کا ذکر خیر کرتے :اُم المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایامیں نے نبی کریم ۖ کی ازواج میں سے کسی زوجہ پر غیرت نہیں کی جو خدیجہ (رضی اللہ عنہا) پر غیرت کی حالانکہ میں نے خدیجہ رضی اللہ عنہا کو نہیں دیکھا لیکن نبی کریم ۖ ان کا کثرت کے ساتھ ذکر خیر فرماتے تھے اور اکثر بکری ذبح فرماتے پھر اس کے اعضاء کے ٹکڑے کرتے اور خدیجہ کی سہیلیوں کو بھیجتے تھے ۔کبھی میں آپ سے کہہ دیتی تھی کہ خدیجہ کے سوا دنیا میں کوئی عورت ہی نہیں تو آپ فرماتے ہاں وہ فاضلہ عاقلہ تھیں ان ہی سے میری اولاد ہے ۔(صحیح بخاری 800/5)
معزز قارئین!اس حدیث مقدسہ سے ثابت ہوا کہ حضرت سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عظمت و شان دیگر ازواج پر عیاں ہے ۔جس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جیسی عظیم المرتبت فقیہہ، عالمہ ،فاضلہ بھی رشک کرتی ہیں اور سرکار مدینہۖ اکثر اُن کا ذکر خیر کرتے ہیں ۔اِس حدیث مبارکہ میں ایک بات یہ بھی واضح ہوئی کہ اللہ والوں کا ذکر خیر کرنا گویا کہ سرکار کی سنت مبارکہ ہے ۔ابن اسحاق کہتے ہیں کہ :رقیہ ،زینب، ام کلثوم، فاطمہ ،قاسم ،طاہر،طیب، سب اولاد سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن اطہر سے ہی پیدا ہوئی ،ایک صاحبزادے یعنی حضرت ابراہیم سیدہ ماریہ قبطیہ کے بطن مبارک سے پیدا ہوئے۔(مدارج النبوة )
سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کا وصال باکمال:سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا سرکار مدینہ ۖ کے ساتھ چوبیس یا پچیس سال کا عرصہ شریک حیات رہیں اور ہجرت سے پانچ یا تین سال قبل اُن کا وصال ہو گیا تھا۔ جبکہ آپ پینسٹھ سال کی عمر میں تھیں۔رسول اللہ ۖ کی بعثت مبارک سے دس سال بعد رمضان میں اِن کا وصال ہوا جنت المعلیٰ میں اُن کی تدفین ہوئی رسول اللہۖ نے خود قبر شریف میں اتر کر دعا فرمائی اور اُس وقت جنازہ مشروع نہ ہوا تھا۔سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد سرورکائنات ۖ غم زدہ رہتے تھے اور جس سال اُم المومنین سیدہ خدیجة الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے وصال فرمایا وہ سال عام الحزن کہلاتا ہے ۔(مدار ج النبوت 636/2،فتاویٰ رضویہ شریف 369/9مطبوعہ انڈیا)
اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دُعا ہے کہ ہم سب کو نبی پاک کی ازواج ۔نبی پاک کی اولاد غرض کہ نبی کی تمام اہل بیت سے سچی اور پکی محبت عطا فرماکر ہمارے دلوں کو منور فرمائے اور اُن عظیم نفوس قدسیہ کے نقشِ قدم پر بھی چلنے کی توفیق مرحمت فرمائے ۔آمین بجاہِ سید الانبیاء والمرسلین۔
شائع فرما کر شکریہ کا موقع دیں
علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی (ایم اے)
سجادہ نشین مرکز اویسیاں نارووال پنجاب پاکستان
E mail ….peerowaisi@gmail.com……..peerowaisi@yahoo.com
Cell No…0300-6491308……….0333-6491308