عارف محمود کسانہ۔ سویڈن
اسپینکے خطہ اندلس کا دارالحکومت Seville جس کا درست تلفظ سیویاہے جب یہ عربوں کے زیر نگین آیا تو اس کا نام اشبیلیہ تھا۔ سپین میں قائم ہونے والی مسلمانوں کی ریاست اندلس کا یہ دارالخلافہ قرار پایا۔ اس شہر میں کھجور کے درختوں کی بہتات ہے۔ کھجور درحقیقت سپین کا درخت نہیں لیکن یہ سپین میں اموی خلیفہ عبدالرحمان اول کے توسط سے پہنچا۔ علامہ اقبال نے اس بارے میں نظم لکھی ہے جس کا عنوان ہے عبدالرحمان اول کا پہلا کھجور کا درخت۔ یہ نظم بھی بال جبریل میں موجود ہے۔ اب اس شہر کی آبادی تقریبا سات لاکھ ہے۔ یہ شہر رومنوں نے قبل از مسیح آباد کیا تھا۔ یہ وادی الکبیر میں واقع ہے جہاں دریاکبیر بہتا ہے۔ یہ سپین کا دوسرا طویل ترین دریا ہے اور کشادہ ہونے کی وجہ سے اس میں جہاز رانی ممکن ہے۔ یہی دریا مسجد قرطبہ کے قریب سے گزرتا ہے۔ اسی کیدریا کے کنارے بیٹھ کر علامہ نے یہ اشعار لکھے تھے۔
آبِ روانِ کبیر! تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
اقبال نے اندلس پر بہت سی نظمیں کہیں ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ بر صغیر کے لوگوں کی اندلس کے خطہ، مسجد قرطبہ، الحمرا اور دیگر مقامات سے عقیدت اور محبت کا باعث کلام اقبال ہے۔ علامہ نے بال جبریل میں دعا، مسجد قرطبہ، قید خانے میں معتمد کی فریاد، عبدالرحمن اول کا بویا ہوا کھجور کا درخت، ہسپانیہ اور طارق کی دعا، وہ لافانی نظمیں ہیں جن سے ہمارا سرزمین اندلس سے رشتہ استوار ہے۔ علامہ اقبالکی عقیدت ان اشعار سے واضح ہوجاتی ہے
ہسپانیہ تو خونِ مسلماں کا امین ہے
مانندِ حرم پاک ہے تو میری نظر میں
پوشیدہ تری خاک میں سجدوں کے نشاں ہیں
خاموش اذانیں ہیں تری بادِ سحَر میں
ماضی کے دور کی تاریخ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لئے ہم اندلس کے دارالحکومت میں تھے جس کے بارے علامہ اقبال نے کہا ہے کہ
نصیب ان کا اشبیلیہ میں ہے سوتا
شب و روز ہے قرطبہ ان کو روتا
یہ شہر علم و حکمت اور سارہ قوطیہ، ابن العربی، ابن رشد، شاعر المعتمد اور ابن خلدون کا تعلق اسی شہر سے رہا ہے۔ کولمبس بھی اسی شہر سے ہندوستان دریافت کرنے نکلا تھا لیکن امریکہ پہنچ گیا۔ شاہی محل القصر میں اس بارے میں تاریخ کو محفوظ کیا گیا ہے۔اس شہر کی سب اہم اور تاریخی عمارت القصر محل ہے جسے دیکھنے ہم بھی یہاں پہنچے۔ یہاں الحمرا کی نسبت زیادہ رش نہیں اس لئے یہاں داخلہ آسانی سے ہوجاتا ہے۔ ٹکٹ لے کر ہم محل میں داخل ہوئے۔ محل کے مختلف حصوں کے بارے تفصیلات اور ماضی کی تاریخ سے آگاہی کے لئے ہم نے آڈیو ڈیوائیٹ لے لی تاکہ ساتھ ساتھ تفصیل بھی جانتے رہیں۔
کوئی بھی سیاح جب محل القصرمیں داخل ہو تو مسلمانوں کے فن تعمیر کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ دیدہ زیب اشکال، خوبصورت محرابیں، دیواروں اور چھتوں پہ بنے خوبصورت نقش و نگار، کونے اور فوارے سب قابل دید ہیں۔ یہ محل القصر بنو عباد کے شاہی خاندان نے بنایا تھا۔ یہ خاندان بنو امیہ کی اندلس میں حکمرانی کے خاتمے کے بعد آیا۔ اس خاندان نے اشبیلیہ پر 1023 سے 1091 تک حکمرانی کی۔ مسلمانوں کی شکست کے بعد عیسائی حکمرانوں نے یہ محل مختلف تبدیلیوں کے ساتھ اپنی رہائش کے لیے استعمال کیا لیکن وہ اس معیار اور بلند فن تعمیر کی سطح تک نہ پہنچ سکے جو مسلم حکمرانوں کا خاصہ تھا۔ سپین کا موجودہ حکمران شاہی خاندان جب دورہ پر یہاں آتا ہے تو یہیں قیام کرتا ہے۔اشبیلیہ کا یہ محل اقوام متحدہ کی عالمی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ خوبصورت نقش ونگار اور در و دیوار کی اس عالیشان عمارت نے کئی صدیوں کا سفر طے کیا ہے۔یہ عمارت اور اس کے باغات اپنے ہنرمندوں، معماروں اور اْس زمانے کے فن کا آئینہ دار ہے۔
محل کے باہر قریب ہی سیویا کا گرجا گھر رومن کیتھولک عیسائیوں سے تعلق رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دْنیا کا سب سے بڑا گوتھک گرجا گھر اور تمام قسم کے گرجا گھروں میں دْنیا میں چوتھا بڑا گرجا ہے۔ مسلمانوں کے دور میں یہاں مسجد تھی جسے گرجا گھر میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ گرجا گھر کی خاص بات اس کا گھنٹہ مینار ہے جو اصل میں مسجد کا مینار ہوتا تھا جو اپنے دور میں دْنیا کا سب سے بڑا مینار ہوتا تھا جسے الموحد خلیفہ یعقوب یوسف المنصور نے 1184 میں بنوایا تھا۔ اس مینار کی بْلندی 97,5 میٹر ہے۔ اس میں سیڑھیوں کی جگہ چونتیس رکاوٹیں بنائی گئی ہیں۔ گرجا گھر تعمیر کرتے وقت باقی مسجد تو گرا دی گئی لیکن یہ مینار برقرار رکھا گیا۔گرجا گھر کی ایک اور خاص بات وہاں کو لمبس کی قبر ہے اگرچہ اس پر اتفاق رائے نہیں ہے۔ اس کے ساتھ انڈین آرکائیو ہے جہاں عہد ماضی کی تاریخ محفوظ ہے۔تاریخ یہ سفر قوموں کے عروج و زوال کی داستان ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف اداوار میں انسانی ترقی اور تہذیب و تمدن کو بھی واضح کرتا ہے۔ القصر کی سیر ہمیں اس کا عملی مشاہدہ ہوا۔