انسانی فکروعمل میں قلب کا بنیادی کردار اور اسلام

Selected by
Tariq Shah
heart
”قلب“انسانی جسم کا اہم اور کلید ی عضو ہے جو جسم انسانی کی طرح فکر وعمل میں بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔اس لیے قرآن وحدیث کی نظر میں قلب کی درستی پر انسانی عمل کی درستی کا انحصار ہے ۔قراآن وحدیث میں انسانی دل کو ذہانت کا منبع اور جذبات اور احساسات رکھنے والا عضو قرار دیا گیا ہے۔اس دور میں سائنس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی،اس لیے انیسویں صدی تک یہی سمجھا جاتا رہا کہ انسانی دل کی حیثیت صرف پمپ جیسی ہے جو پورے جسم میں خون پمپ کرتا ہے ۔تاہم بیسویں صدی کے وسط میں سائنس نے پہلی مرتبہ یہ حیرت انگیز دریافت کی کہ انسانی دل میں بھی انسانی دماغ کی طرح کے ذہانت کے خلیے پائے جاتے ہیں ۔اس انقلابی دریافت کے بعد پھر انسانی دل پر بحیثیت منبع ذہانت (Source of Intelligence) کےمغرب میں بھی کئی اہم سائنسی تحقیقات ہوئیں ۔ان تحقیقات کو اس بحث میں مختصراً پیش کیا جائے گا تاکہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہوسکے کہ سائنس آج ان حقائق کو دریافت کر رہی ہے جو  قرآن وحدیث نے 1400 سال پہلے بیان کر دیے تھے۔
 
انسانی دل کے اندر چھوٹا سادماغ۔۔۔۔۔جدید سائنسی تحقیق
 
انیسویں صدی حتیٰ کہ بیسویں صدی کے نصف تک سائنس دانوں کے حلقوں میں انسانی دل کو صرف خون پمپ کرنے والا ایک عضو ہی سمجھا جاتا تھا۔لیکن پھر کچھ مزید سائنسی تحقیقات ہوئیں تو سائنس ،دل کے متعلق اس بات کو سمجھنا  شروع ہوئی جو قرآن نے اور آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ سو سال پہلے کہی تھی۔جیساکہ تفسیر قرآن کے ماہر صحابیٴرسول حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ” اس قرآن میں ایسی آیات ہیں جنہیں صرف وقت گزرنے کے ساتھ ہی سمجھا جا سکے گا۔یعنی جیسے جیسے سائنسی علوم ترقی کریں گے“۔
انسانی دل کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہو اکہ جدید سائنس نےا نسانی دل کے متعلق اب یہ سمجھنا شروع کیا ہے کہ اس میں بھی ذہانت کے خانے ہیں ۔انسانی دل پر جدید تحقیقات کی بنیاد پر کینیڈا کے سائنس دان ڈاکٹر جے اینڈ ریو آرمر   (Dr. J. Andrew)( Armour M.D,ph.D)نے ایک نئی میڈیکل فیلڈ کی بنیاد رکھی ہے جس کانام ہے نیورو کارڈیالوجی (Neuroradiology) یعنی انسانی دل کا اعصابی نظام  (Nervous System) ۔ڈاکٹر آرمر نے دل کے اعصابی نظام کے لیے” دل کے اندر چھوٹا سادماغ“ )  (A little Brain in the Heartکی اصطلاح وضع کی ہے۔
یہ اس لیے کہ انہوں نے دریافت کیا ہے کہ انسانی دل کے اندر تقریباًچالیس ہزار اعصابی خلیے (Nerve Cells) پائے جاتے ہیں ۔یہ وہی خلیے ہیں جن سے دماغ بنتا ہے ۔یہ اتنی بڑی تعداد ہےکہ دماغ کےکئی چھوٹے حصے اتنے ہی اعصابی خلیوں سے مل کر بنتے ہیں ۔مزید برآں دل کے یہ خلیے دماغ کی مدد کے بغیر کام کرسکتے ہیں ۔دل کےا ندر پایا جانے والا یہ دماغ پورے جسم سے معلومات لیتا ہے اور پھر موزوں فیصلے کرنے کے بعد جسم کے اعضاء حتیٰ کہ دماغ کو بھی جوابی ہدایات دیتا ہے۔
علاوہ ازیں دل کے اندر موجود دماغ میں ایک طرح کی یاداشت  (Short Term Memory) کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے ۔دل کو دھڑکنے کےلیے دماغ کی ضرورت نہیں ہوتی ،یہی وجہ ہےکہ دل کی پیوندکاری کے آپریشن میں دل اور دماغ کے درمیان تمام رابطے کاٹ دیے جاتے ہیں اور جب دل نئے مریض کے سینے میں لگایا جاتا ہے تو وہ پھر سے دھڑکنا شروع کردیتا ہے ۔ان تمام تحقیقات کو پیش کرنے کے بعد ،جو ڈاکٹر اینڈریو آرمر اور ان کے معاون سائنس دانوں نے دل کے اعصابی نظام پر کی ہیں، ڈاکٹر آرمر اپنی کتاب  میں لکھتے ہیں  :
 “انسانی دل کے پاس اپنا چھوٹا سا دماغ ہوتا ہے جو اس قابل ہوتا ہے کہ وہ اپنی مدد آپ کے تحت مشکل قسم کے تجزیے کر سکتا ہے۔دل کے اعصابی نظام کی ساخت اور کارکردگی کے متعلق جاننے سے ہمارے علم میں ایک نئی جہت کا اضافہ ہوا ہے جس کے مطابق انسانی دل نہ صرف دماغ کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے بلکہ دماغ کی مدد کے بغیر آزادنہ طور پر فرائض ادا کرتا ہے[1]“
تحقیق سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ دل ،الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ کی مد د سے دماغ اور بقیہ جسم کو اطلاعات پہنچاتا ہے۔ دل انسانی جسم  میں سب زیادہ طاقتور الیکٹرومیگنیٹک فیلڈ پیداکرتا ہے جو انتہائی تناسب سے کافی دور تک پھیلتی ہیں۔ دل کی پیداکردہ الیکٹرومیگنٹک فیلڈ دماغ کی پیداکردہ میگنیٹک فیلڈ سے 500 گنا طاقتور ہوتی ہیں اور ان کو جسم سے کئی فٹ کے فاصے سے بھی معلوم کیا جاسکتا ہے۔[2]
دل اور دماغ کے مابین دوطرفہ گفتگو کا سائنسی ثبوت
1970ء تک سائنس دان یہ سمجھتے تھے کہ صرف دماغ انسانی دل کو یک طرفہ احکام جاری کرتا ہے اور دل ہمیشہ ان کے مطابق کام کرتا ہے ،لیکن 1970ء کی دہائی میں امریکی ریاست اوہایو (Ohio) کے دو سائنس دانو ں جان لیسی اور اس کی بیوی بیٹرس لیسی نے یہ حیرت انگیز دریافت کی کہ انسان کے دماغ اور دل کے درمیان دوطرفہ رابطہ ہوتا ہے ۔ یہ تحقیق امریکہ کے نہایت موٴقر سائنسی جریدے  امریکن فزیالوجسٹ  کے شمارے میں چھپی تھی ۔تحقیق کا عنوان تھا۔(Two-Way communication between the heart and the brain)
“انہوں نے تجربات سے یہ دریافت کیاکہ جب دماغ جسم کے مختلف اعضاء کو کوئی پیغام بھجواتا ہے تو دل آنکھیں بند کرکے اسے قبول نہیں کرلیتا۔جب دماغ جسم کو متحرک کرنے کا پیغام بھیجتا ہے تو کبھی دل اپنی دھڑکن تیز کردیتا ہے اور کبھی دماغ کے حکم کے خلاف پہلے سے بھی آہستہ ہو جاتا ہے ۔ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دل اپن ہی کوئی منطق استعمال کرتا ہے ۔مزید براں دل بھی دماغ کو کچھ پیغامات بھیجتا ہے جنہیں دماغ نہ صرف سمجھتا ہے بلکہ ان پر عمل بھی کرتا ہے“[3]
جان لیسی اور بیٹرس لیسی کی تحقیقات پر تبصرہ کرتے ہوئے امریکی سائنس دان ڈاکٹر رولن میکریٹی اپنی کتاب میں لکھتا ہے: 
“جیسے جیسے ان کی تحقیق مزید آگے بڑھی انہوں نے دریافت کیا کہ دل کی اپنی مخصوص منطق ہے جو بسا اوقات دماغ سے آنے والے پیغامات سے مختلف سمت میں جاتی ہے ۔حاصل کلام یہ کہ انسانی دل اس طرح کام کرتا ہے جیسے اس کا اپنا ایک دماغ ہو[4] “
امریکی سائنس دان ڈاکٹر پال پیرٴسل (Paul Pearsall, Ph.D.) نے انسانی دل کی ذہانت پر اپنی کتاب میں سیر حاصل گفتگو کی ہے ۔ڈاکٹر پیر ٴسل بیان کرتا ہے کہ علوم انسانی کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ سائنس نے کئی سچائیوں کو بہت مشکل سے تسلیم کیا ۔ اٹھارویں صدی کے وسط تک ڈاکٹر حضرات جراثیم کے وجود کو تسلیم نہیں کیا کرتے تھےاور اس دوران کئی مریضوں کی اموات جراثیموں  کی وجہ سے ہوئیں ،کیونکہ اس دور کے طبیب اپنا نشتر (Scalpel) اپنےجوتے کے تلے کے چمڑے سے تیز کرتے تھے جس پر نشتر پر جراثیم لگ جاتے اور جس مریض کا اس سے آپریشن کیا جاتا اس کی موت کا باعث بنتے۔
وہ اطباء (Doctors) اس بات کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے کہ لوگ جراثیموں جیسی کسی مخلوق کے وجود کے قائل ہیں۔بالآخر جب لیون ہک (Leewenhook) نے خوردبین  (Microscope) ایجاد کی اور سائنس دانوں نے خود اپنی آنکھوں سے جراثیم دیکھے تو پھر ہر ہسپتال میں آپریشن سے پہلے ڈاکٹروں نے اپنے ہاتھ دھونا شروع کردیے اور انہوں نے اپنے میڈیکل اوزاروں کو بھی جراثیموں سے پاک (Sterilize) کرنا شروع کردیا ۔ڈاکٹر پیرٴسل کے مطابق یہی حال سائنسدانوں اور ڈاکٹروں کا بالآخر دل کے معاملے میں ہوگا ،جب انہیں پتہ چل جائے گا کہ انسانی دل بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے ۔ڈاکٹر پیرٴسل مزید لکھتا ہے: 
“موجودہ  دور کی ایجادات کا تعلق بھی دماغ ہی سے ہے ،دل سے نہیں ،درحقیقت دماغ سے ہمیں صرف سائنسی ترقی ملی ہے جبکہ اخلاقی ترقی صرف دل سے ہی مل سکتی ہے[5]“
ڈاکٹر پیرٴسل کے مطابق پورے جسم میں دل کی ایک منفرد خصوصیت اس کا دھڑکنا (Rhythmicity) ہے ،جس کی وساطت سے دل پورے جسم پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ہر دھڑکن کے ساتھ ہم دل کی موجودگی کو اپنے جسم میں محسوس کر سکتے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے کسی کلچر او ر تہذیب کے کسی شخص کو لےلیں اور اس سے آپ کہیں کہ وہ اپنی ذات کی طرف اشارہ کرے تو کوئی شخص اپنے سر کی طرف اشارہ نہیں کرتا بلکہ اپنے دل کی طرف اشارہ کرکے کہتا ہے  “میں“  یہ کرتا ہوں یامیں یہ کہتا ہوں۔
دراصل انسانی روح کا اصل مکان دل ہوتا ہے اور انسان کی “میں“ دراصل اس کی روح ہی ہوتی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم بھی جب دل کا ذکر کرتے ہیں تو روح کا بھی ذکر کرتے ہیں ،حتیٰ کہ مغربی عیسائی مصنفین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ ہمارے دلوں میں اس جنت کی یاد ابھی پائی جاتی ہے جس سے حضرت آدم علیہ السلام کو نکا لا گیا تھا ،مثلاً مغربی مصنف رچر ڈ بائن برگ اپنی کتاب   میں لکھتا ہے :
“ہماری مصروفیت بھری زندگی کےہنگاموں کی تہہ میں ہمارے دلوں اور ہمارے اجسام کے خلیوں (Cells) کے
ا ندر ایک کھوئی ہوئی جنت (A Paradise lost) کی خفیہ یادیں پوشیدہ ہوتی ہیں جنہیں ہم جنت میں اپنی مشترکہ بچپن جیسی زندگی  (Our shard paradisal infancy) کہہ سکتے ہیں[6] “
محقق جوزف چلٹن پیرٴس  اپنی کتاب  میں قلبِ انسانی کے متعلق سائنسی تحقیقات کا خلاصہ پیش کرتےہوئے لکھتا ہے :
   ہمارے  ذہن کو ہمارے دل کا آلہ (Instrument) کہا جاسکتا ہے۔
.   ہمارے دل کو بذاتِ خود انسانی زندگی کا آلہ کہا جاسکتا ہے۔
   ہمارا دماغ اور ہمارا جسم کچھ اس طرح کی ساخت کے بنے ہوئے ہیں کہ وہ دل سے آنے والی انفارمیشن کو ہمارے لیے منفرد تجربہ ٴ زندگی میں تبدیل کرسکیں ۔دماغ اور بقیہ جسم دل سے آنے والی اس انفارمیشن کا لمحہ بہ لمحہ تجزیہ کرتے رہتے ہیں اور پھر اس نتیجے کو جذبات کی زبان میں دل تک دوبارہ پہنچاتےہیں ۔
.   
دماغ سے آنے والی رپورٹوں کے جواب میں قلبِ انسانی پورے جسم کو اعصابی اور کیمیاوی (Neural and hormonal) سگنل بھیجتا ہے اور ان میں تبدیلی لاتا ہے ۔اس تبدیلی کی وجہ سے زندگی کے متعلق ہمارا ایک خاص قسم کا تجربہ ہماری شخصیت پر ثبت ہوجاتا ہے ۔
آخر میں محقق پیرٴس جوزف قلبِ انسانی کے متعلق درج ذیل الفاظ میں خلاصہ پیش کرتا ہے:
“Our heart plays a  major,though fragile role in our overall consciousness”
)ہمارا دل ہماری سمجھ بوجھ اور شعور میں نہایت اہم اور نازک کردار ادا کرتا ہے( قارئین کرام :یوں تو دل کے متعلق قرآن وحدیث میں بے شمار مقامات پر کہا گیا ہے مگر یہاں بطور ثبوت چند آیات و احادیث پیش کی جاتی ہیں تاکہ آپ کو جدید سائنس اورقرآنی آیات کی اطلاعات کے درمیان موازنہ کرنے میں آسانی رہے ۔ارشاد فرمان باری تعالیٰ ہوتا ہے کہ!
فَلَوْ لَاۤ اِذْ جَآءَهُمْ بَاْسُنَا تَضَرَّعُوْا وَ لٰكِنْ قَسَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطٰنُ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ۰۰۴۳
پھر جب ان پر ہمارا عذاب آیا تو وہ کیوں نہ گڑگڑائے؟ مگر ان کے دل تو اور سخت ہوگئے اور جو کام وہ کر رہے تھے شیطان نے انہیں وہی کام خوبصورت بنا کر دکھا دیئے  )الانعام(
وَ لِتَصْغٰۤى اِلَيْهِ اَفْـِٕدَةُ الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ وَ لِيَرْضَوْهُ وَ لِيَقْتَرِفُوْا مَا هُمْ مُّقْتَرِفُوْنَ۰۰۱۱۳
اور (وہ ایسے کام) اس لیے بھی (کرتے تھے) کہ جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل ان کی باتوں پر مائل ہوں اور وہ انھیں پسند کریں اور جو کام وہ کرتے تھے وہی کرنے لگیں ۔ )الانعام(
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَ جِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ اٰيٰتُهٗ زَادَتْهُمْ اِيْمَانًا وَّ عَلٰى رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَۚۖ۰۰۲
سچّے اہلِ ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں، (الانفال)
لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطٰنُ فِتْنَةً لِّلَّذِيْنَ فِيْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْقَاسِيَةِ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ اِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَفِيْ شِقَاقٍۭ بَعِيْدٍۙ۰۰۵۳
(وہ اس لیے ایسا ہونے دیتا ہے ) تاکہ شیطان کی ڈالی ہوئی خرابی کو فتنہ بنا دے ان لوگوں کے لیے جن کے دلوں کو (نفاق کا ) روگ لگا ہوا ہے اور جن کے دل کھوٹے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ عناد میں بہت دور نکل گئے ہیں ۔(الحج)
اب فرموداتِ امام الانبیا صلی اللہ علیہ وسلم سماعت فرمائیے:
·       ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا (جب) جنت والے جنت میں اور دوزخ والے دوزخ میں داخل ہوجائیں گے، اس کے بعد اللہ تعالیٰ (فرشتوں) سے فرمائے گا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر (بھی) ایمان ہو، اس کو (دوزخ سے) نکال لو، پس وہ دوزخ سے نکالے جائیں گے اور وہ (جل کر) سیاہ ہوچکے ہونگے
 
·       حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہہ دے اور اس کے دل میں ایک جو کے برابر نیکی (ایمان) ہو وہ دوزخ سے نکالا جائے گا اور جو لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے اور اس کے دل میں گہیوں کے ایک دانے کے برابر خیر (ایمان) ہو وہ (بھی) دوزخ سے نکالا جائے گا اور جو شخص لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ کہے اور اس کے دل میں ایک ذرہ برابر نیکی (ایمان) ہو وہ بھی دوزخ سے نکالا جائے گا، ابوعبداللہ نے کہا کہ ابان نے بروایت قتادہ، انس، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بجائے خیر کے ایمان کا لفظ روایت کیا ہے
·       نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ حلال ظاہر ہے اور حرام (بھی ظاہر ہے) اور دونوں کے درمیان میں شبہ کی چیزیں ہیں کہ جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص شبہ کی چیزوں سے بچے اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچالیا اور جو شخص شبہوں (کی چیزوں) میں مبتلا ہوجائے (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے کہ جانور شاہی چراگاہ کے قریب چر رہا ہو جس کے متعلق اندیشہ ہوتا ہے کہ ایک دن اس کے اندر بھی داخل ہو جائے (لوگو! آگاہ ہو جاؤ کہ ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے، آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ کی چراگاہ اس کی زمین میں اس کی حرام کی ہوئی چیزیں ہیں، خبردار ہو جاؤ! کہ بدن میں ایک ٹکڑا گوشت کا ہے، جب وہ سنور جاتا ہے تو تمام بدن سنور جاتا ہے اور جب وہ خراب ہو جاتا ہے تو تمام بدن خراب ہو جاتا ہے، سنو وہ ٹکڑا دل ہے۔
 
·       اسحاق بن ابراہیم، معاذ بن ہشام، ہشام، قتادہ، انس بن مالک کہتے ہیں کہ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ (ایک مرتبہ) آپ صلی اللہ کے ہمراہ آپ کی سواری پر آپ کے پیچھے سوار تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا اے معاذ (بن جبل) انہوں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسعدیک آپ نے فرمایا کہ اے معاذ انہوں نے عرض کیا لبیک یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسعدیک تین مرتبہ (ایسا ہی ہوا) آپ نے فرمایا کہ جو کوئی اپنے سچے دل سے اس بات کی گواہی دے کہ سوا خدا کے کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں اللہ اس پر (دوزخ کی) آگ حرام کر دیتا ہے۔ معاذ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں لوگوں کو اس کی خبر کردوں؟ تاکہ وہ خوش ہوجائیں آپ نے فرمایا کہ اس وقت جب کہ تم خبر کر دوگے لوگ (اسی پر) بھروسہ کرلیں گے اور عمل سے باز رہیں گے۔ معاذ نے یہ حدیث اپنی موت کے وقت اس خوف سے بیان کردی کہ کہیں (حدیث
​​

کے چھپانے پر ان سے) مواخذہ نہ ہوجائے۔

انسانی فکروعمل میں قلب کا بنیادی کردار اور اسلام“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں