مختصر کہانی ۔مہتاب قدر
عید کو دو ہی دن رہ گئے تھے بوڑھے نے اپنے بیٹے کو فون کیا ، بیٹا میں تمھیں ان خوشی کے دنوں میں تکلیف پہنچانا نہیں چاہتا مگر کیا کروں مجھے کہے بغیر چارہ نہیں !! کہ میں اور تمہاری ماں علٰحدہ ہونے جا رہے ہیں بہت ہو چکا اب اس سے زیادہ جھنجھٹیں میں برداشت نہیں کر سکتا ۔
کیا!! آپ کیا بول رہے ہیں ابّو !!! بیٹا چیخ پڑا
ہم اب ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہ سکتے بوڑھے باپ نے واضح کردیا، ہم ایک دوسرے سے بیزار ہو چکے ہیں اور میں اس موضوع پر مزید گفتگو بھی کرنے سے قاصر ہوں تم دوسرے شہر میں رہنے والی اپنی بہن کو فون پر اسکی اطلاع دےدو ۔
بیٹے نے گھبرا کراپنی بہن کو فون ملایا اور بتایا کہ ہمارے ماں باپ طلاق لے رہے ہیں! بیٹی نے خبر سنی تو وہ دیوانوں کی طرح چلا اُٹھی ، کیا کہہ رہے ہو بھیا ایسا نہیں ہو سکتا میں ابھی بات کرتی ہو ابّو سے ،میں دیکھتی ہوں وہ کیسے ایسا کر سکتے ہیں!!
لڑکی نے وطن میں رہنے والے باپ کو فون ملایا اور چیخنے چلانے لگی، آپ ایسا نہیں کریں گے یہ کوئی عمر ہے طلاق کی ، میں آرہی ہوں جب تک میں نہ آجاوں اس سلسلے میں ایک بھی قدم نہیں اٹھائیں گے ۔میں بھائی کو فون کرکے اسے بھی ساتھ چلنے کو کہوں گی ہم دونوں آرہے ہیں کل تک کسی بھی صورت میں۔ اور کل تک آپ کچھ نہیں کریں گے آپ سن رہے ہیں نا میری بات !!اتنا کہہ کر اس نے فون بند کردیا
بوڑھے نے فون رسیور پررکھا اور ،بیوی سے مخاطب ہوکر بولا مسئلہ حل ہوگیا ہے پورے تین سال بعد وہ دونوں آرہے ہیں اور وہ عید ہمارے ساتھ کریں گے ۔
مہتاب قدر
Mahtab Qadr