انٹرویو۔ شازیہ عندلیب
تعارف
طیب منیر چوہدری پاکستان کے شہر منڈی بہائو الدین میں پیدا ہوئے اور سیونتھ کلاس تک کی تعلیم پاکستان سے حاصل کی۔اس کے بعد انکے والدین برطانیہ سیٹل ہو گئے۔جہاں سے انہوں نے او لیول اے لیول اور بیچلر کیا۔ماسٹرز کی ڈگری مانچسٹر یونیورسٹی سے انٹرنیشنل کمیونٹی ہیلتھ کے مضمون میں حاصل کی۔اس کے بعد ان کی ملاقات اپنی بیگم تسنیم سے ایڈنبراء اسکاٹ لینڈ میں ہوئی۔پھر ان کے والدین کی رضامندی کے ساتھ انکی شادی ہوئی۔تسنیم کے پاس ایم اے انگلش کی ڈگری ہے۔وہ ناروے میں ایک اسکول میں تدریس کے فرائض سر انجام دے ہی ہیں۔وہ اپنی سادہ طبیعت ،کلوص اور محنتی مزاج کی وجہ سے ایک کامیاب جیون ساتھی ثابت ہوئیں۔اپنے شوہر کی سماجی سرگرمیوں میں وہ ہمیشہ ان کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہیں۔ان کے چار بیٹے ہیں دو بڑے بیٹے ہائی اسکول میں جبکہ دو بیٹے اسکول و کالج میں زیر تعلیم ہیں۔
طیب اپنے ماضی ک ے حوالے سے بتاتے ہیں کہ وہ مارگریٹ تھیچر کا دور حکومت تھا۔جو کہ تارکین وطن کے لیے کئی طرح سے مشکل تھا۔اس وقت میں نے ملازمت کے لیے مختلف جگہوں پر درخواستیں دیں ناروے اور جرمنی بھی ایپلائی کیا۔پہلی آفر ناروے سے آئی۔میںعارضی طور پر ناروے آیا تو پھر یہں کا ہو کے رہ گیا۔میںنے واپسی کا ارادہ ترک کر دیا۔ یہٰ پر مستقل پڑائو ڈال لیا۔مجھے یہاں کا ماحول بہت اچھا لگا۔یہاں کے پرخلوص اورایماندارلوگ اور قانون پسندی مجھے بہت پسند آئی۔یہ سن ستاسی اٹھاسی کا عشرہ تھا۔
جاب اور کیریر
مجھے پہلی جاب اوسلو کمیونٹی میں سن اٹھاسی یکم جنوری کو ملی۔یہ کنسلٹنٹ کی سرکاری پوسٹ تھی۔اس وقت میری ذمہ داری اور کام کے دائرہ کار میں گرن لاند اور پرانا تھوئین کا علاقہ تھا۔اس کے علاوہ تارکین وطن کے لیے پراجیکٹ ارینج کرنے جیسے کام ،کمیونٹی کی حفظان صحت ملٹی کلچرل معاشرے میں تارکین وطن کو ایڈجسٹ کرنا اور دوسری ضروریات کی فراہمی بھی میری ذمہ داریاں تھیں۔اس وقت ریسرچ انسٹیٹیوٹ
FAFO کے ساتھ مل کر ایک ریسرچ رپورٹ مرتب کی گئی۔جس میں نقل مکانی کی صورتحال کا جائزہ لینا مقصود تھا۔اور یہ بھی کہ جنریشن گیپ جو بڑھ رہا ہے اسے بھی کم کرنا ہے۔گورنمنٹ نے کہا کہ غیر ملکیوں کو ذیادہ سے ذیادہ سہولتیں دی جائیں۔انہیں تجارتی ادارے کھولنے کے لیے مساجد بنانے کے لیے معاونت اور امدا دی جائے۔اس وقت صحت ایک سماجی مسلہ تھا۔پھر آرگنائیزیشن نے تارکین وطن کے لیے ایک ملٹی کلچرل سنٹر قائم کیا ۔جہاں وہ مل کر بیٹھ سکیں۔پہلے پہل وہاں صرف مرد آتے تھے ۔پھر بعد میں خواتین کے لیے بھی ایسا سنٹر قائم کیا گیا۔یہاں تقریباً ستر خاندان آباد تھے جو اس سہولت سے فائدہ اٹھاتے تھے۔پھر شام کو یہ جگہ مختلف آرگنائیزیشنیں کرائے پر لے کر اپنے پروگرام کرنے کے لیے استعمال کرتیں۔
اوسلو میں سب سے بڑا سیکٹر ہسپتال اولیوال ہسپتال ہے۔وہاں مسلمان میّت کو اسلامی طریقے سے نہلانے کا انتطام بھی ہمارے پروگرام میں شامل تھا۔اس مقصد کے لیے ایک کمرہ مخصوص کیا گیا۔جہاں ہسپتال کے متعلقہ عملے کو بتایا کہ کیسے کھلا پانی استعمال کرنا ہے ۔انہیں اسلامی شرائط بھی بتائی گئیں۔اس کے علاوہ دیگر ملٹی کلچرل تارکین وطن کے مردوں کی تدفین کو انکے طریقے سے کرنے کے انتظامات بھی کیے گئے۔
ہمارے پراجیکٹ کا اگلا حصہ تارکین وطن مریضوں کو ہسپتال میں وہ کھانا مہیاء کرنا تھا جس کے وہ عادی تھے۔اس سے پہلے سب مریضوں کو نارویجن کھانا ہی کھانا پڑتا تھا۔مسلمانوں کو حلال کھانے کی سروس کو یقینی بنایا گیا۔اس کے علاوہ ہندو سکھ یہودی اور دیگر مذاہب کے مریضوں کو بھی انکے کلچر کے مطابق کھانا مہیاء کرنے کا بندوبست کیا گیا۔اس پراجیکٹ کے مطابق ہر مریض سے یہ پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کھانا پسند کرے گا۔یہ پراجیکٹ بھی دو سال کی مدت کا تھا۔اسکا بنیادی مقصد مختلف سماجی پس منظر رکھنے والے افراد اور مقامی حکام کے درمیان اجنبیت دور کرنا اورسمجھ بوجھ کی فضا پیدا کرنا تھا ۔تاکہ انکے کلچر کے مطابق انہیں ماحول فراہم کیا جا سکے۔
دو ہزار تین میں ایک سروے کے نتیجے میں یہ پتہ چلا کہ تارکین وطن بہت ذیادہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں ۔اس کے علاوہ انکی عمومی صحت کا بھی مسلہء بہت ذیادہ تھا جس میں انکی جسمانی صحت نفسیاتی دبائو کی وجہ سے متاثر ہو رہی تھی۔پھر نو جوان تارکین وطن بہت ذیادہ اس مسئلہ کا شکار ہو رہے تھے۔اس مسلہء کے حل کے لیے نو جوانوں کا ایک گروپ تشکیل دیا گیا جو کہ اپنے کلچر کے مطابق مختلف سرگرمیوں کا انعقاد ایک فیسٹیول کی صورت میں کرتے تھے۔اس سلسلے میں ایڈز کا عالمی دن منایا گیا جس میں نو جوانوں نے بھنگڑا ،گانے اور ڈرامے وغیرہ کیے۔یہ پروگرام یوتھ آرگنائیزیشن نے شروع میں اوسلو یونیورسٹی کے کلچر ہائوس میں کیا ۔اس کے بعد اس آرگنائیزیشن کو ہولملیا میں ایک بڑا آڈیٹوریم مل گیا۔جہاں سب سے بڑا فیسٹیول کیا جاتا ہے۔اس میں مختلف زاویوں اور مقاصد کے و موضوعات پر ڈرامہ اور فیشن شو وغیرہ کرائے جاتے ہیں۔
سن دو ہزار میں ہمیں اوسلو سنٹر میں آفس ملا۔یہاں تین چار کام کیے جن میں سے ایک میٹنگ پوائنٹ بنانا تھا۔جسکا نام ڈیلٹا Delta رکھاگیا۔اس نام کے دو معنی تھے ایک تو ڈیلٹا وہ مقام کہلاتا ہے جو دو دریائوں کوملاتا ہے دوسرا معنی ایک زرخیز جگہ کا ہے۔اس پراجیکٹ کا نام ڈیلٹاپراجیکٹ گرن لاند رکھا گیا۔دوسرا کام ایک منی میلہ کا انعقاد تھا جسے گرن لاند میلہ بھی کہا جاتا تھا۔اس میلے میں ولی عہد شہزادے کو بھی دعوت دی گئی۔یہ میلہ گرن لاند تھورگ بازار سے لے کر گنیریس کے پل تک لگتا تھا۔میلہ تین دن کے لیے لگتا اور اس میں مختلف دوکانیں اور آگنائیزیشنوں کے اسٹال اور سرکس بھی لگتا تھا۔یہ میلہ پاکستان کی ثقافت کو فروغ دینے کے لیے شروع کیا گیا تھا۔اس وقت کی پاکستانی ایمبیسیڈر شکیلہ قریشی کو بھی اس میں بلایا گیا۔یہ سن انیس سو پچانوے کی بات ہے۔یہں گورنمنٹ کالج کی طالبات نے پاکستان کا قومی ترانہ بھی گایا۔
پھر خالد سلیمی نے اس میلے کے ماڈل کو اسٹڈی کیا اور اس کے تین چارسال بعد یہی میلہ بڑے ثقافتی میلے میں تبدیل ہو گیا جو آجکل ہر سال لگتا ہے۔اس میلے میں ہزاروں کی تعداد میں نارویجن پاکستانی اور ملٹی کلچر نیشل کے لوگ شرکت کرتے ہیں۔ہمارا کام مختلف اداروں کی رہنمائی کرنا اور انہیں خود مختار کرنا ہے تاکہ دوسرے لوگ اسے آگے بڑھائیں۔ہم نے تین سال تک اس پراجیکٹ پر کام کیا۔اس کے بعد بچوں کی مادری تعلیم کا پراجیکٹ تیسرا پراجیکٹ تھا۔
اب اس کے بعد اگلا قدم تارکین وطن کی نفسیاتی صحت کے مسائل کا ہے۔ہم اسے فوکس کر رہے ہیں۔ ہمارے وطن میں انتہا پسندی بہت ہے اس لیے وہاں کوئی کام پورا نہیں ہوتا لیکن یہاں ہر کام میں اعتدال سے کام لیا جاتا ہے اس لیے یہ لوگ کامیاب ہیں۔ہمارے لوگ مثبت انداز میں نہیں سوچتے انتہا پسندانہ رویہ کی وجہ سے بزنس کمیونٹی کو سخت نقصان پہنچ رہا ہے۔وہاں ہمیں جان و مال کا خطرہ ہے۔جب بھی پاکستان جائیں دوست احباب پریشان ہو جاتے ہیں کہ واپس خیریت سے آئیں۔
ہماری ڈائیا سپور آرگنائیزیشن کا مقصد ہی یہ ہے کہ جب قوم مشکل میں ہو اس وقت وہیں رہ کر اس کے مسائل حل کریں ۔ہم قوم کو مشکل حالت میں نہیں چھوڑ سکتے۔مگرلوگ ملک کو چھوڑ دیتے ہیں ہم ایک طرف تو ایّا ک نعبد و ایّاک نستعین ،کہتے ہیں تو پھر اللہ سے مدد کیوں نہیں مانگتے۔
کامیاب تنظیم
آرگنائیزیشن کو ملنے والے فنڈز اور سرکاری گرانٹ کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ۔ہمیں ہر پراجیکٹ کے حساب سے مختلف رقوم ملتی رہی ہیں۔ہمیں دو ملین کرائون بھی ملے ہیں اور پانچ لاکھ کرائون بھی۔ہسپتال کا پراجیکٹ آدھے ملین کا تھا۔یہ ناروے میں واحد آرگنائیزیشن ہے جو اپنی بیس سالہ جوبلی منا رہی ہے۔اس کے قوانین اور منشور نے اسے کامیابی سے ہمکنار کیا ہے۔ذیادہ آرگنائیزیشنیں صرف شکار کرتی ہیں اور انکا مقصد صرف پیسہ اور دوسرے مفاد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ہماری تنظیم سیاسی طور پر غیر
غیر جانبدار ہو کر کام کرتی ہے۔اس پر کوئی سیاسی دبائو نہیں ہے۔بیشتر تنظیمیں کام نہیں کرتیں بلکہ صرف شکار کرتی ہیں۔انہیں شکاری تنظیمیں کہا جاتا ہے ان کا مقصد حکومت سے رقم بٹورنا اور ممبر شپ بنانا ہوت اہے۔جب یہ کوئی کارکردگی نہیں دکھاتیں اپنا حساب کتاب صاف نہیں رکھتیں تو خود ہی ختم ہو جاتی ہیں۔ہمارا تمام حساب کتاب صاف شفاف ہے ۔آپ کسی بھی وقت سائٹ پر جا کر چیک کر سکتے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ بیشتر تنظیموں کے سربراہ دوسری فیملیز کو تو بلاتے ہیں مگر اپنی فیملی کو تنظیموں میں نہیں لاتے تو آپ کیا سوچ کر اپنی فیملی کو پروگراموں میں بلاتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گو میر ی بیوی تسنیم جاب کرتی ہے اس کے پاس وقت بہت کم ہوتا ہے میں اسے پھر بھی پروگراموں میں بلاتا ہوں اپنے بچوں کو بھی ساتھ رکھتا ہوں۔اس لیے کہ یہ سماجی لیول کا کام ہے ۔ہمیں ان میں اپنے خاندانوںکو بھی ساتھ رکھنا چاہیے۔مگر میں تنظیم کے فنڈز اور رقم کے استعمال کے معاملات میں اپنی فیملی کو دور رکھتا ہوں۔
ہمارے پروگراموں میں دو سو سے لے کر ہزار شرکاء تک کی جگہ ہوتی ہے۔اگر دو سو افراد والے پروگرام میں پونے دو سو بھی آ جائیں تو ہم اسے کامیابی سمجھتے ہیں۔ہمارا مقصد لوگوں تک معلومات اور صحت کے متعلق احتیاطی تدابیر پہنچانا ہے۔جبکہ ہمارے ہاں خواتین گھروں سے ہی نہیں نکلتیں۔انہیں تعلیم میں آگے نہیں جانے دیا جاتا۔ہماری کمیونٹی میں گروپ بندی ہے۔لوگوں میں شعور نہیں تھا۔ہم لوگوں کو آگے بڑہنے کا شعور دیتے ہیں۔اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ آج یونیورسٹیوں میں بچیوں کی تعداد ذیادہے۔ہمارے ان پروگراموں کے نتیجے میں لوگوں کو مثبت سوچ ملی انکے رویے مثبت ہو گئے اور آج کئی بچیاںڈاکٹری اور نرسنگ کے شعبوں میں آ گئی ہیں۔جبکہ پاکستان میں اینجیوز کو کام کرنے کی اجازت ہی نہیں ۔یہاں ناروے کی چار ملین آبادی میں ساڑھے آٹھ ملین رجسٹرڈ آرگنائیزیشنز ہیں۔یہ لوگ پاگل نہیں ہیں جو اتنی ذیادہ تنظیمیں ہیں۔اس کا فائدہ یہ ہے کہ جہاں گورنمنٹ کام نہیں کر سکتی وہاں یہ تنظیمیں کام کرتی ہیں۔یہ
سپلیمنٹری سر وس دے رہی ہیں۔ ہماری آرگنائیزیشن میں خواتین اور نو جوانوں کا الگ گرو پ ہے۔
تنظیم کے مقاصد کے اہداف کی بات کرتے ہوئے طیب چوہدری نے کہا کہ ہم انسانوں کی بہتری کے لیے کام کر رہے ہیں۔یہ ایک ترقیاتی تنظیم ہے۔ہمارے مقاصد ہر دو تین سال بعد بدلتے رہتے ہیں۔ہم آج جو کام کر رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ اگلے دو تین برسوں میں کوئی اور پراجیکٹ ہو۔ہمارا اپنا ایڈمنسٹریشن بورڈ اور نیٹ ورک ہے۔ہم لوگوں نے چھوٹی آرگنائیزیشنوں کو بھی ممبر شپ دی ہے۔
ذاتی اہداف کے بارے میں بات کرتے ہوئے طیب منیر چوہدری صاحب نے کہا کہ میری والدہ کا مقصد تھاکہ پاکستان کے لیے کام کیا جائے۔یہ یہاں سے کرنا آسان تھا۔اس کا آغاز دو ہزار نو میں کیا۔ہم کچھ ادارے وہاں بھی اسٹیبلش کر رہے ہیں۔اس مقصد کے لیے لوکل آرگنائیزیشنوں کو وزٹ کیا گیا۔بجائے اس کے کہ نئے لوگ سر درد لیں ۔پہلے پراجیکٹ منظور کرایا جاتا ہے ۔پھر اس پر عمل در
آمد کیا جاتا ہے۔میں کل پاکستان کے لیے روانہ ہو رہا ہوں میرے سامنے تین مقاصد ہیں ایک تو وہاں پر ہونے والے فلاحی کاموں کا جائزہ لینا اس سلسلے میں فلاحی تنظیموں کو وزٹ کرنا ہے۔دوسرے اپنے فلاحی پروگرام کی پلاننگ کرنی ہے اور تیسرے اس بات کا جائزہ لینا ہے کہ پاکستانی کمیونٹی ان کاموں سے کس حد تک مطمئن ہے؟؟اور قومی دن کے پروگرام یں حصہ تو لینا ہی ہے۔
سوشل میڈیا کی اہمیت پر بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ آج کے دور میں سوشل میڈیا سے استفادہ نہ کرنا سماجی موت کے برابر ہے۔اس کے بغیر آرگنائیزیشن کی پہچان نہیں رہتی۔اگر کسی آرگنائیزیشن کو فنڈز نہیں ملتے تو فیس بک اور ریڈیو ٹی وی پر اپنے مقاصد بتانے سے کمیونٹی تک آپکا پیغام آسانی سے پہنچ جاتا ہے۔
پاکستانی کمیونٹی کے نام طیب چوہدری کا پیغام
طیب منیر چوہدری نے قارئین اور پاکستانی کمیونٹی کے نام پیغام میں کہا کہ عام طور سے لوگ پبلک سیکٹر میں بزنس کرتے ہیں انہیں چاہیے کہ اینجیو سیکٹر میں بھی محنت کریں۔کچھ اینجیوز پرائیویٹ ہیں اور کچھ سرکاری۔میرا تجربہ سول سوسائٹی میں ہے۔آپ اللہ کی مخلوق کو راضی کریںاگر اللہ کو راضی کرنا ہے تو۔وہ کام نہ کریں جس سے لوگ ناراض ہوں۔تیسری بات یہ ہے کہ مشکل حالت کے چیلنج کو قبول کریں۔مشکلات کے بعد ہی اچھا وقت آتاہے۔مشکل راستے پر چلنے سے ہی مستقبل اچھا ہوتا ہے۔ جس کا اجر اللہ ضرور دیتا ہے۔میں بچپن سے آج تک مشکل سے مشکل وقت میں کبھی نہیں گھبرایا پریشان
نہیں ہوا۔ہمیشہ محنت اور ایمانداری سے کام کیا۔کبھی یہ نہیں سوچا کہ فلاں نے اتنا بنا لیا میں نے کیوں نہیں بنایا۔اللہ نے اچھی بیگم اور اچھی اولاد د ی ہے۔