ان کے غم میں رین بتا ئے، ایک زمانہ بیت گیا

 
غزل
از ڈاکٹر جاوید جمیل
 
رہتے تھے جب ذھن پہ چھا ئے، ایک زمانہ بیت گیا
ان کے غم میں رین بتا ئے، ایک زمانہ بیت گیا
یادوں کی زلفیں لہرائے ایک زمانہ بیت گیا
ان میں کوئی پھول سجائے، ایک زمانہ بیت گیا
تنہائی میں بھی جب تنہا رہ نہ کبھی پاتے تھے ہم
دیواروں سے باتیں بنائے، ایک زمانہ بیت گیا
ایک عجب بے حس سے بندے آج بنے بیٹھے ہیں ہم
احساسوں کے دیپ جلا ئے،ایک زمانہ بیت گیا
کھویا کھویا سا رہتا ہے لاش ہو جیسے دھڑکن کی
پیار کی دل میں آگ لگائے، ایک زمانہ بیت گیا
کوے تک بھی گھر کی چھت پرشور مچانا بھول گئے
گھر میں کسی مہمان کو آئے، ایک زمانہ بیت گیا
پوشیدہ ہے راز کوئی یا دل پھر اس کا بدلا ہے
بھائی کو احسان جتا ئے، ایک زمانہ بیت گیا
اب تو میرا حال ہمیشہ جگ پر ظاہر رہتا ہے
تم سے کوئی راز چھپا ئے، ایک زمانہ بیت گیا
فکر کو میری گھن سا لگا ہے ڈھونڈھو کوئی حل جاوید
 
غزلوں کا دربار سجا ئے، ایک زمانہ بیت گیا
اپنا تبصرہ لکھیں