اور امریکہ کا یوم کولمبس Columbus Day

از —
عابدہ رحمانی
شکاگو
امریکہ اور کینیڈا کا یوں سمجھیئے چولی دامن کا ساتھ ہے -پھر بھی فی زمانہ یہ دو الگ ملک ہیں کینیڈا کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی انفرادیت برقرار رکھے– اسپر امریکہ کو ہر گز کوئی اعتراض نہیں ہے کیونکہ سیانوں کے مطابق امریکہ کو کینیڈا سے فی الحال کوئی خطرہ نہیں ہے–انکی چھٹیاں یا لمبے سہ روزہ ویک انڈ بیشتر ساتھ ہی منائے جاتے ہیں -اسکے نام البتہ مختلف ہوتے ہیں –کینیڈا میں یوم وکٹوریہ ہوگا تو امریکہ میں یوم صدر ہوگا– ابھی بارہ اکتوبر کو کینیڈا میں یوم تشکر تھینکس گیونگ ڈے منایا گیا اور امریکہ میں کولمبس ڈے-
کینیڈا میں یہ دن اکتوبر کے دوسرے سوموارکو منایا جاتا جبکہ امریکہ میں نومبر کے آخری جمعرات پر –لیکن چاروں دانگ جو دھوم دھڑکا امریکی یوم تشکر کا ہوتا ہے اور اس سے زیادہ اسکے اگلے روز کے سیاہ جمعے ( black Friday) کا ہوتا ہے کہ کافی سارے کینیڈین بھی اسکے دیوانے ہوتے ہیں– اسکے بر عکس کینیڈا کی تھینکس گیونگ خاموشی سے گزر جاتی ہے — نہ ہی وزیر اعظم یا گورنر جنرل کسی ٹرکی کی جان بخشی کرتے ہیں –نہ ہی کدو کا میٹھا( pumpkin pie) بنتی ہے کیونکہ ابھی تو سارے پمپکن ہالوین(Halloween) کے انتظار میں سجے ہوئے ہیں–
امریکی اور کینیڈین تھینکس گیونگ میں ایک ہی روایت کی پیروی کی جاتی ہے اور ایک ہی قسم کی اشیا خورد و نوش تیار ہوتی ہیں — وہی ٹرکی یا فیل مرغ روسٹ کیا جاتا ہے اسکے ساتھ اسکے لوازمات بنتے ہیں آلو کا بھرتا ، گریوی ، کرین بیری کی میٹھی چٹنی وغیرہ وغیرہ–
اللہ بلا کرے مقامی باشندوں کا جنہوں نے دور دیس سے آنے والوں کی خاطر تواضع کی انہیں کھلایا پلایا اپنے ہاں بسایا اور اسکے بعد کیا ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے —
کچھ وہی حال ہوا ہوگا —
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ– ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
یہ چھٹیاں جاتی ہوئی گرمیوں کی ، آتے ہوئے موسم خزاں اور سرد موسم کا پیغام دیتی ہیں —
جب اس خزاں کے آغاز میں درختوں کے رنگ بدلتے ہوئے پتے ایک سے ایک حسیں پھب اور بہار دکھاتے ہیں–جب میپل کا پتہ سبز سے لال ، سرخ اور پھر پیلا ہوجاتا ہے اسطرح دوسرے پودوں اور درختوں کے پتے شوخ رنگوں میں ملبوس ہو جاتے ہیں –کیا دیوانہ کرنے والا منظر ہوتا ہے -سبحان اللہ
خِزاں کے دور میں لطفِ بہار لیتا ہوں

ریاستہائے متحدہ امریکہ میں کولمبس ڈے منایا گیا- اسوجہ سے یہ سہ روزہ ویک اینڈ تھا چونکہ یہ ایک وفاقی چھٹی ہیاوریہاں کے معاشرے میں سہ روزہ ویک اینڈ کا بڑی شدت سے انتظار ہوتا ہے -یہاں کے کافی ریاستوں میں اسکے ساتھ موسم خزاں کی چھٹیوں کو ملا دیا جاتا ہے-کافی لوگ اس طرح کے ویک اینڈ پر سیر و تفریح کا پروگرام بنا ڈالتے ہیں – اور کچھ نہیں تو سٹوروں میں زبردست سیل لگ جاتے ہیں اور خریداری کا لطف اٹھایا جاتا ہے- کیونکہ آیئندہ thanksgiving اور کرسمس کے تحائف کی بھی خریداری کرنی ہے— یہ ساہوکاری اور کاروباری معاشرہ ہے ہمہ وقت سٹور اس کوشش میں ہوتے ہیں کہ کب اور کیسے خریداروں کو نشانہ بنایا جاے اسی کو ٹارگٹ مارکیٹنگ کہتے ہیں-
امریکہ کرسٹوفر کولمبس کا ممنون احسان ہے کہ اسنے اسے مغالطے میں دریافت کرلیا وگرنہ ابھی تک دنیا امریکہ سے محروم رہتی اور وہ کہیں گوشہ گمنامی میں پڑا رہتا-ذرا سوچئے اگر امریکہ اب تک دریافت نہ ہو چکا ہوتا تو کیا ہوتا شائد دنیا کا کچھ بھلا ہی ہوجاتا- جاپان، چین ،ویٹنام، عراق، افغانستان ،ایران ، پاکستان ، شمالی کوریا اور دیگر بے شمار ممالک چین کی بانسری بجاتے رہتے اور باقی دنیا میں بھی راوی چین ہی چین لکھتا- نہ ہی یہ دنیا ایک گلوبل ولیج بنتی نہ ہمیں ان کمپیوٹروں کی لت پڑتی – پھریہ ڈھیروں ڈھیر سائینسی ایجادات کا کیا ہوتا؟ بقول حسن نثار کے” ہم تو اپنے پوتڑے بنانے کے قابل بھی نہیں” بہر کیف دنیا اسکے باوجود بھی چل رہی تھی لوگ زندہ تھے کھا پی رہے تھے اور خوب لڑ جھگڑ بھی رہے تھے- البتہ ہاں یہ ایٹمی دوڑ اور یہ ڈرون خدا کی پناہ—- امریکہ نے دنیا کا جانے انجانے میں وہی حشر کیا جو کولمبس نے امریکہ دریافت کرنے کے بعد وہاں کے مقامی باشندوں کا کیا –جسکی لاٹھی اسکی بھینس!
ہاں دنیا کا بھلا ہوتا نہ ہوتا امریکہ کا تو ہو ہی جاتا — ہر وقت امریکہ کو کتنی گالیاں پڑتی ہیں ، جھنڈے جلائے جاتے ہیں صدر کے پتلے جلائے جاتے ہیں، شرم دلائی جاتی ہے لیکن امریکہ ایسا ڈھیٹ کہ ٹھس سے مس ہی نہیں ہوتا بلکہ پھیلتا ہی چلا جاتا ہے-پاکستان میں ہر جلوس میں نعرے بازی ہوگی گو امریکہ گو اس سے ایک تو وہ دوبئی چلو والا قصہ لگتا ہے کہ جا چلے جا امریکہ چاہے جیسے بھی ممکن ہو ، دوسریامریکہ میں یہ نعرہ کھیلنے والی ٹیموں کو بڑ ھاوا دینے کے لئے کہا جاتا ہے کہ گو گو آگے بڑھو اور سب کو مات دو- نعرے بازی بھی ایک آرٹ ہے– لیکن پھر وہی امریکہ ہمارے ہر دکھ کا مداوا بھی ہے زلزلے آئے ، سونامیاں آئیں ، سیلاب آئے ،ہر تباہی میں امریکی امداد پیش پیش ، پھر نہ ہمیں انکی امدادی ٹیمیں بری لگتی ہیں نہ انکے جہاز اور نہ ہی ہیلی کوپٹرجب انجیلینا جولی ہمارے کیمپوں کے دوروں پر ہوتی ہے تو ہمیں سب کچھ بہت اچھا لگتا ہے- میرے ساتھ یہی تو مشکل ہے کہ موضوع سے بھٹک جاتی ہوں اور کہاں سے کہاں جا پہنچتی ہوں–
اسوقت امریکہ کا یہ حال ہے کہ ویزے کے لئے سب سے لمبی لائینیں اسی کی ایمبیسی میں لگی ہوتی ہیں ہر ایک کی خواہش ہے کہ وہ امریکہ جائے ، کم از کم ایک مرتبہ تو جائیاور جس کو ویزہ نہیں ملتا وہی سب سے زیادہ برا بھلا کہتا ہے , ہاں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جیسے میرے والد صاحب مرحوم ایک مرتبہ میں نے مشورہ دیا کہ آپ امریکہ گھوم آئیے ، کہنے لگے اللہ تعالی مجھ سے یہ ہرگز نہیں پوچھے گا کہ امریکہ گئے تھے یا نہیں ؟–میں نے انکو قائل کرنے کی کافی کوشش کی کہ دیکھئے گا “فردوس گر بر روئے زمیں است –ہمیں است ہمیں است ہمیں است” لیکن وہ نہیں مانے ،اسی جنت کو تو بچانے کے لئے امریکہ ساری دنیا کو تگنی کا ناچ نچاتا رہتا ہے ہے–
اور یہ سب کولمبس کا قصور ہے نہ وہ امریکہ دریافت کرتا نہ ہی امریکہ کو یہ دن دیکھنے پڑتے-اب کولمبس نکلا تو ہندوستان کی تلاش میں تھا لیکن جا پہنچا امریکہ ، اب نجانے اسوقت امریکہ کا کیا نام تھا؟ وہ اپنے تیئں یہی سمجھا کہ وہ ہندوستان پہنچ گیا ہے کولمبس اطالوی نژاد ہسپانوی جھاز راں تھا اسوقت ہندوستان سونے کی چڑیا کہلایا کرتا تھا- کولمبس کو 1492 عیسوی میں باد شاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا نے مالی امداد کے ساتھ اس مہم پر روانہ کیا، اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ کامیاب لوٹے گا تو اسکو امیرالبحر یا گورنر بنادینگے – فرڈیننڈ اور ازابیلا مسلمانوں کے جانی دشمن جنہوں نے اسپین سے اسلامی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانں کا مکمل خاتمہ کردیا تھا- جب مسلمان یورپ میں آئے اسوقت یورپ مکمل تاریکی میں تھا – یہ اسلام کا سنہری دور تھا وہ اپنے ساتھ علم و دانش، علوم و فنون لائے – اسپین میں اب بھی انکے سنہرے شاندار ماضی کے آثار نمایا ں ہیں- کولمبس پہلی مرتبہ تین جھازوں کے بیڑے میں جزیرہ بہاماس کے پاس اترا ان سب علاقوں میں قبائیلی اطوار تھے یہاں کے لوگ نسبتا پر امن تھے- کولمبس کو یہاں عیسائیت پھیلانے کے اور اپنی نو آبادیا ں بسانے کی کافی گنجائش نظر ائی اور اسکے بعد اسنے مزید تین سفر کئے اور کافی جہازوں کی معئیت میں ہر قسم کے آبادکاروں کو لایا جنمیں کسان ، تاجر ، کاریگر اور صناع شامل تھیاور یوں اپنی نو آبادیا ں بسا کر یہاں کا وائس رائے بن بیٹھا البتہ اسکے ظلم و ستم کی اتنی داستانیں بادشاہ کو پہنچیں کہ بالاخر بادشاہ نے اسکو پابہ جولاں داخل زنداں کیا جھاں 54 سال کی عمر میں وہ دار فانی سے کوچ کرگیا-
اس سارے قصے کا سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کولمبس کا ذیادہ عمل دخل اور حاکمئیت جزائر غرب الہند اور کیوبا میں رہی اور وہ مرکزی امریکہ میں جو اب ریاستہائے متحدہ امریکہ کہلاتا ہے میں کبھی داخل ہی نہی ہوا لیکن پھر بھی امریکہ والے اسکو اپنا سمجھتے ہیں اور اسکی اس دریافت پر فخر کرتے ہیں کیونکہ اسکے آنے کے بعد ہی یوروپی آباد کاروں کو امریکہ اپنے خوابوں کی منزل کی صورت میں نظر آیا اور شمالی امریکہ یوروپی سفید فام تارکین وطن کا نیا ملک بن گیا –جبکہ لاطینی امریکہ میں ہسپانوی نو آبادیا ں بنیں-
اسی خراج تحسین کی خوشی میں نیویارک میں بہت بڑا کولمبس کا مجسمہ ایستادہ ہے اور وہ کولمبس اسکوائیر کہلاتا ہے-البتہ اس مجسمے پر دل جلے ریڈ انڈئینز نے خوب سنگ باری بھی کی ہے اب کولمبس نہیں تو اسکا مجسمہ ہی سہی – سی این این پر دکھا رہے تھے کہ اب 550 سال کے بعد ایک کولمبس اپارٹمنٹ بھی بن گیا ہے جس سے مین ہٹن کا بڑا خوبصورت نظارہ دکھائی دیتا ہے-شائد کولمبس کی روح اسمیں آکر قیام کرے–

ریڈ انڈئینز کو ہم لال ہندوستانی کہتے ہیں اسلئے کہ انکے سامنے اسطرح کہنا ایک نسلی گالی کہلاتا ہے جسے یہاں racial slur کہتے ہیں جیسے کسی سیاہ فام کو نیگرو یا نیگر کہنا اسکی توہین ہے اور وہ قا نونی چارہ جوئی کر سکتا ہے- کیا کہنے امریکہ کے قوانین اور قانونی چارہ جوئی کے ؟ لال ہندوستانی نام بھی کولمبس نے دیا ورنہ تو انکے بڑے بڑے قبائیل تھے جنکے کافی اچھے اچھے نام ہیں – چروکی ، اپاچی،نوا navajo اب اپاچی، ہیلی کاپٹر ہوگیا چروکی مشہور جیپ اور اسی طرح کے بیشمار نام – امریکن انکو عزت سے اب نیٹ مقامی باشندے بلاتے ہیں جبکہ کینیڈئین فرسٹ نیشن چلئے اسطرح ہی سہی کچھ عزت تو دی گئی ورنہ تو غالب, حملہ آور یوروپیئن اقوام نے مار مار کر ایک چوتھائی بھی رہنے نہ دیا–اور اب جو انکا حال ہے کہ عموما ایک نمائیشی حیثیئت ہے خوب نشے میں دھت رہتے ہیں جگر کے امراض کثرت شراب نوشی سے عام ہیں ، فربہی کی بیماری بہت عام ہے جسکی وجہ سے انمیں ذیابیطس بھی کافی پایا جاتا ہے -مختلف مواقع پر اپنے پروں والے لباس پہن کر ڈانس کرینگے – انکی زمینوں پر جوئے کی اجازت ہے اس بنا پر بڑے بڑے کسینو بنائے گئے ہیں –سرخ ہندوستانیوں کا ذکر پھر کبھی تفصیل سے کرونگی –
اسوقت مجھے Macy’s جاناہے جہاں کولمبس ڈے کی زبردست سیل لگی ہوئی ہے—–

اور امریکہ کا یوم کولمبس Columbus Day“ ایک تبصرہ

اپنا تبصرہ لکھیں